Saturday, March 12, 2011

ولی کامل مولانا محی الدین لکھوی رحمہ الل


حضرت مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ وہ عظیم شخصیت ہیں جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا ۔ تاریخ کے دریچوں میں جن کی عارضی زندگی کے آثار مستقل رقم و ثبت ہیں ۔ نمونہ سلف مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ کو اس دارِ فانی سے کوچ کئے ہوئے دس سال کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ مگر ان کی یگانہ روز بے مثل شخصیت ہمیشہ دلوں کو لبھاتی رہے گی ۔ کھلی پیشانی ، صاف دل ، میٹھی زباں ، مسکراتا چہرہ ، پیار و محبت خلوص سے بھرا مکھڑا ، حلیم الطبع ، دل کا شیشہ ہر کسی کے لیے صاف کہ دیکھنے والوں کو خدا یاد آئے ۔ 
(( رب اشعت مذفوع بالا بواب لو اقسم علی اللہ لابرہ )) ( صحیح مسلم )

مولانا کا انداز بیاں دل نشیں ایمان افروز پر سوز اور فکر انگیز ہوتا تھا ۔ گفتگو پاکیزہ سوز و گداز سے بھرپور ۔ فکر و احساس سے مزین اور اخلاق کریمانہ نمایاں تھے ۔ مستجاب الدعوات کہ لوگ دعا کے لیے مرکز اسلام تارا سنگھ یا مولانا سے وعدہ لے کر اپنے گھر بلا کر دعا کرواتے ۔ چند ایک واقعات درج ذیل ہیں ۔
    حاجی رحمت اللہ بیٹو جمبرکلاں سے بیان کرتے ہیں کہ میرے کنویں پر میرے مزارعوں میں سے ایک نوجوان مرگی کے مرض میں مبتلا تھا ۔ ایک دن دوپہر کے وقت لڑکے کو اچانک مرگی کا دورہ پڑا ۔ لڑکا تڑپنے لگا ۔ ہم سب لوگ جو کنویں پر موجود تھے اور اسکے والدین اس پر اکٹھے ہوگئے ۔ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ آجائیں تو لڑکا ٹھیک ہو جائے گا ۔ میں نے دوسری طرف دیکھا تو واقعی مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ تشریف لا رہے تھے ۔ خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ مولانا ہمیں دیکھ کر وہیں تشریف لے آئے جہاں ہم کھڑے تھے ۔ معانقہ کیا اور پوچھا رحمت اللہ کیا بات ہے ؟ تومیں نے عرض کیا کہ دیکھیں یہ جوان بیٹا مرگی کے مرض میں تڑپ رہا ہے ۔ اس کا علاج کیا مگر آرام نہیں آرہا ۔ اس کے والدین اور ہم سب اس کی بیماری سے بہت پریشان ہیں ۔ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نے فرمایا اس کے والدین نماز پڑھنے کا وعدہ مجھے دے دیں تو آئندہ اللہ کے حکم سے مرگی کا دورہ نہیں پڑے گا ۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ مولانا نے تین مرتبہ معاذ اللہ تین مرتبہ استغفراللہ کہا پھر اس مریض کو دم کیا تو وہ فوراً ٹھیک ہوگیا ۔ چند دن تک اس نے نماز کی پابندی کی لیکن تیس سال گزر چکے ہیں دوبارہ مرگی کا دورہ نہیں ہوا ۔الحمد للہ علی ذالک ۔
2     دوسرا واقعہ موضع شامکوٹ کہنہ چند گھروں میں آگ لگ جایا کرتی تھی ۔ صندوق کے اندر بھی کپڑے جل جاتے ۔ دھواں نکلتا ، لوگ بجھانے کی کوشش کرتے ، دوسری جگہ آگ لگ جاتی ۔ گھر محلے والے بڑے پریشان بہت سے عاملوں کو بلوایا گیا مگر فائدہ نہ ہوا ۔ بالآخر مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ کو لایا گیا مولانا نے ان سب گھروں کا چکر لگایا اللہ کا نام تو ہمیشہ مولانا کی زبان پر رہتا تھا کچھ خاص پڑھا نہ دم کیا بس اتنا کہا کہ جن جن گھروں میں آگ لگتی ہے مجھ سے نماز پڑھنے کا وعدہ کریں ۔ انشاءاللہ آج کے بعد آگ نہیں لگے گی ۔ انہوں نے نماز کی پابندی کی اور 16 سال گزر چکے ہیں ۔ دوبارہ آگ نہیں لگی اور انہیں ہمیشہ کے لیے اس پریشانی سے نجات مل گئی ۔
3     1989ءمیں مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ چونیاں تشریف لائے ۔ رات بعد نماز عشاءمسجد رحیمیہ میں تقریر کی ۔ صبح نماز و درس قرآن کے بعد نہانے کی خواہش کی ۔ مسجد کے سیکرٹری کہنے لگے کہ ہماری دکانوں میں ایک حمام ہے وہاں حمام میں نہانے کا عمدہ انتظام ہے ۔ فرمانے لگے استغفراللہ ، معاذ اللہ ، اللہ کی پناہ ۔ جہاں داڑھیاں منڈوائی جاتی ہیں وہاں میں غسل کروں.... انکار کر دیا ۔ خیر ! مسجد کے غسل خانے میں مولانا نے غسل کیا ۔ محلے میں مسجد کے پڑوسی امیر آدمی نے رات ہی مولانا کے ناشہ کا وعدہ لے لیا تھا ۔ صبح جب مولانا ان کے گھر داخل ہوئے تو کمرے کے اندر سامنے میزبان کے والد کی تصویر لٹکی ہوئی تھی ۔ مولانا دروازے پر کھڑے ہوگئے ۔ اور فرمانے لگے تصویر کو اتارو ۔ میزبان نے فوراً تعمیل کی ۔ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ اور ہم چند مقامی ساتھیوں نے ناشتہ کیا ۔ ناشتے کے بعد میزبان نے درخواست کی کہ مولانا ہم مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ بڑی پریشانیوں نے گھیر رکھا ہے ۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مقدمات سے نجات اور سکون کی زندگی عطا فرمائے ۔ اب مولانا نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور جامع دعاؤ ں کے بعد فرمایا کہا اے اللہ ! چوہدری صاحب کو سکون عطا فرما ۔ مقدمات سے نجات دے ۔ اے اللہ جو رزق غیرسکونی اور پریشانی کا باعث ہے وہ اس سے واپس لے لے ۔ اس کی دین و دنیا بہتر فرما ۔ اور اس کی اولاد کو نمازی بنا ۔ جس روزی میں سکون نہیں وہ اس سے چھین لے ۔ جب مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نے یہ دعائیں کیں تو ہم گھبرا گئے کہ کہیں چوہدری صاحب ناراض نہ ہو جائیں ۔ کہ میں نے آپ کو بڑا پرتکلفانہ کھانا کھلایا ہے ۔ اور آپ میرے ہی گھر میں دعا کی جگہ بددعا کر رہے ہیں ۔ مگر اس نے برداشت کیا ۔ اب دعا قبول ہوئی وہ ناجائز مال سے صاف ہوئے ۔ حالت پتلی ہوگئی ۔ مگر پریشانیوں ، مقدمات سے نجات مل گئی ۔ اور اطمینان و سکون نصیب ہوگیا ۔

4     پاکستان بننے سے قبل دونوں بھائی مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ اور مولانا معین الدین لکھوی حفظہ اللہ کسی کام کے لیے فیروز پور گئے ۔ بھوک لگی ہوئی تھی ۔ مولانا معین الدین لکھوی کہنے لگے بھائی جان دودھ پینے کو جی چاہتا ہے ۔ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ فرمانے لگے مجھے بہت بھی چاہت ہے ۔ اللہ تعالیٰ دے گا ۔ تھوڑی دیر بعد شہر میں ایک آدمی تپاک سے ملا ۔ جس سے ہم ناواقف تھے وہ اپنے گھر لے گیا اس نے ہم دونوں کو سیر ہو کر دودھ پلایا ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔ کہتے ہیں کہ ایک اللہ والے نے سیب دیکھے ۔ کھانے کو چاہت ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے سیب کا ٹوکرا بھیج دیا ۔ ٹوکرا لانے والے نے سیب اللہ والے کو پیش کئے کہ حضڑت تناول فرمائیں ۔ تو اللہ والے گویا ہوئے ۔ 
کس نے سیب تساں تھیں منگے کس کی آرزوئی
تسیں کہو گھر اپنے اندر گل وی کرے نہ کوئی

1977ء یا 1985ءکی الیکشن مہم کے موقعہ پر مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ کے ساتھ ہم بھی کنگن پور سے الٰہ آباد دفتر آ رہے تھے ۔ جب ہم جمشیر پہنچے تو سردار محمد عاشق ڈوگر مرحوم بھی کیمپین کے لیے سڑک پر آچکے تھے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا سردار محمد عاشق ڈوگر استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے ۔ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نے گاڑی رکوا دی ۔ اور گاڑی سے اتر کر معانقہ کیا ۔ خیر و عافیت دریافت کی ۔ خاندانی طور پر سردار محمد عاشق ڈوگر لکھویوں کے مرید تھے ۔ سردارمحمد عاشق ڈوگر رحمہ اللہ کہنے لگے ۔ مولانا ہم الیکشن لڑ رہے ہیں کامیابی کے لیے دعا فرمائیں ۔ کھڑے کھڑے مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نے چند عربی اجتماعی دعاؤ ں کے بعد یہ اپنی زبان میں دعائیں کیں ۔ کہ اے اللہ جو لوگ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ان میں سے جو تیرے دین کے لیے مخلص ہوں ، قرآن و سنت کو ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہوں ، ملک و قوم کی خدمت کا سچا جذبہ رکھتے ہوں اور ملک و دین کے خیرخواہ ہوں اور خود بھی نیک ہوں اللہ انہیں اس الیکشن میں کامیابی عطا فرما ۔ یہ نہیں کہا کہ تو ہمارے خلاف الیکشن لڑ رہا ہے تیرے لیے دعا کیسی اور کیوں ؟ بلکہ حق والوں کے لیے دعا بھی کی اور مخالفین سے آمین بھی کہلوائی ۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے ۔ اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق فرمائے ۔ اور اللہ تعالیٰ مفکر اسلام مولانا معین الدین لکھوی حفظہ اللہ کو صحت سے نوازے اور ان کا مشفقانہ سایہ دیر تک قائم رکھے ۔ ( آمین ) 
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

( ڈاکٹر علامہ محمد اقبال )

No comments:

Post a Comment