Saturday, March 12, 2011

مناظر اسلام حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمہ الل


ماضی قریب میں بہت سے علماءکرام ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ ان کے اٹھ جانے سے بہت سی مسندیں خالی ہو گئیں۔ دعوت و تبلیغ اور نظم جماعت کے حوالہ سے ان کی شدید کمی محسوس کی گئی۔ ان میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ ، مولانا حبیب الرحمن شہید، میاں فضل حق رحمہ اللہ ، شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ رحمہ اللہ ، شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری، حضرۃ العلام سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ ، مولانا قاری عبدالخالق رحمہ اللہ رحمانی و دیگر علماءکرام کے ساتھ ساتھ مناظر اسلام حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمہ اللہ کا اسم گرامی بھی شامل ہے۔ جو حضرت علامہ شہید اور امیر محترم سینٹر پروفیسر ساجد میر کے عسر و یسر ہمسفر رہے۔ وہ اہل حدیث کے نامور مناظر اور مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے نائب امیر تھے۔ وہ اپنے خطابات میں مسلک اور جماعت کی ترجمانی کا حق ادا کر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ان کی وعظ و تبلیغ سے بے شمار لوگ مسلک اہلحدیث سے وابستہ ہو گئے۔ توحید، سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شان صحابہ رضی اللہ عنہ ان کے خاص موضوع تھے۔
انہوں نے اپنی پوری زندگی مسلک اور جماعت کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے جناب پروفیسر ساجد میر کو ایسے ہی امیر نہیں مانا بلکہ جماعت کے سب سے بڑے اور پالیسی ساز ادارے مجلس شوریٰ کے پانچ صد ارکان نے امیر منتخب کیا ہے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ وہ اپنی حسن کارکردگی، جراتمندانہ کردار اور دینی و سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے جماعت کی آبرو ہیں۔ اور مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان اہلحدیث کی سب سے بڑی اور نمائندہ جماعت ہے جس کے ضلعی، شہری اور ابتدائی یونٹ پورے ملک میں موجود ہیں، اور ہزاروں مساجد و مدارس کا نظام اس سے وابستہ ہے۔ حافظ صاحب مرحوم یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جب تک زندہ رہوں گا مرکزی جمعیت اہلحدیث کا خادم رہوں گا اور اس کا پیغام قریہ قریہ اور بستی بستی پہنچاتا رہوں گا۔ افسوس کہ وہ بعارضہ دل کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ایسے ہی علماءکے بارے میں کہا گیا ہے کہ موت العالم موت العالم،

میں ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو سکا مگر غائبانہ جنازہ میں شرکت کا موقع مل گیا۔ شیخوپورہ میں مرحوم کی نماز جنازہ امیر محترم پروفیسر ساجد میر نے بڑے حزن و ملال کی حالت میں پڑھائی۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ کمپنی باغ پہنچ گئے۔ اخبارات کے مطابق یہ شیخوپورہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ لوگوں نے بادیدہ نم مرحوم کو سپرد رحمت باری کر دیا۔ تقریبا ایک سال کے بعد سرگودھا میں آل پاکستان اہلحدیث کانفرنس منعقد ہوئی۔ ہم نے پہلی بار ان کے صاحبزادے خطیب ابن خطیب حافظ عبدالباسط شیخوپوری کا خطاب سنا اور دل باغ باغ ہو گیا۔ انہوں نے شان صحابہ رضی اللہ عنہ پر بڑی خوبصورت اور ایمان افروز تقریر کی اور یہ بھی کہا کہ میں جب تک زندہ رہوں گا اپنے والد مرحوم کی طرح مرکزی جمعیت اہلحدیث کی خدمت کرتا رہوں گا۔ انہوں نے تقریر کے آخر میں یہ نعرے بھی لگائے۔ 
ہاتھ میں ہاتھ دو.... ساجد میر کا ساتھ دو

حافظ صاحب مرحوم کے چھوٹے صاحبزادے حافظ عبدالرحمن بھی اچھے خطیب اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے پیغام اور مشن کے داعی ہیں۔ ان کے بیٹے، اپنے باپ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی زندگیوں اور علم و عمل میں برکت فرمائے اور مسلک و جماعت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

No comments:

Post a Comment