Saturday, March 12, 2011

لکھوی خاندان کی دینی و سماجی خدمات


رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: 
” بے شک اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو انسانیت کی ضروریات پورا کرنے کیلئے پیدا کرتا ہے۔ لوگ اپنی ضروریات لے کر ان کی طرف آتے ہیں۔ یہی لوگ اللہ کے عذاب سے دور رہیں گے۔ “ ( طبرانی )

اللہ تعالیٰ مختلف ادوار میں کچھ باسعادت لوگ ایسے پیدا کرتا ہے جو لوگوں کی دنیا و آخرت بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ان تھک کوشش کرتے ہیں۔ ایسے حضرات میں لکھوی خاندان بھی پیش پیش ہے۔ کہ جس نے لوگوں کے دنیاوی معاملات کو سدھار اور آخرت کی مستقل زندگی کو بھی آرام دہ بنانے کے لیے بے حد محنت کی۔ ہزاروں لوگ ان سے مستفیض ہوئے اور ہو رہے ہیں یوں تو لکھوی خاندان کا تعلق 26 ویں پشت پر قطب شاہ سے ہوتا ہوا محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کے ذریعے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ مگر میں ان کے حالات انتہائی اختصار کے ساتھ ابوداؤد ڈھنگ شاہ سے شروع کروں گا۔
محترم ابوداؤد ڈھنگ شاہ رحمہ اللہ مشہور و معروف بزرگ تھے ان کے ہی نام سے ڈھنگ شاہ کا اڈا قصور روڈ پر مشہور و معروف ہے۔ سارے گاؤں کے مالک تھے ان کے بیٹے کا نام عالم شاہ رحمہ اللہ تھا ان کے بیٹے مولانا حافظ محمد امین رحمہ اللہ علم و فضل میں کمال رکھتے تھے۔ ان کی تبلیغ سے علاقہ کے کئی سکھ مسلمان ہوئے۔ سکھ وڈیروں کو یہ بات اچھی نہ لگی۔ انہوں نے مختلف حیلے بہانوں سے مولانا کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ کئی ایک وار کیے آخر کار مولانا اپنا ایمان و اسلام بچانے کے لیے فیروز پور کی چھوٹی سی بستی لکھو کے تشریف لے گئے۔ یہ بستی ریاست ممدوٹ ضلع فیروز پور میں لکھا نامی شخص کے نام سے مشہور تھی۔
یہاں پر مولانا حافظ محمد امین رحمہ اللہ نے دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسے سے دینی فیض حاصل کرنے کے لیے لوگ دور دراز کا سفر طے کر کے آتے۔ علمی اور روحانی تعلیم حاصل کرتے۔ 1596ءمولانا کے گھر اللہ تعالیٰ حافظ احمد عطا فرمائے۔ اس کے بعد حافظ نور محمد ان کے دوسرے بیٹے ہوئے۔ الشیخ حافظ احمد رحمہ اللہ انتہائی متقی پرہیز گار عالم و فاضل تھے۔ انہوں نے تصوف و تفسیر قرآن پاک کی اسناد الشیخ محمد اسماعیل رحمہ اللہ لاہور عرف بڑے میاں سے حاصل کیں۔ ان کا نکاح موضع طور کے سردار کی نیک سیرت بیٹی سے ہوا۔ اس جوڑے سے مولانا بارک اللہ لکھوی رحمہ اللہ کا جنم ہوا، والدہ صاحبہ رحمہ اللہ نے کبھی اپنے بیٹے کو دودھ بغیر وضو کے نہ پلایا۔ انہوں نے روحانی علوم شیخ محمد اسماعیل رحمہ اللہ سے حاصل کیے ۔ ان کو زہد و تقویٰ میں بلند مقام حاصل تھا۔ سارا وقت ذکر الٰہی میں گزرتا اور بہترین مشغلہ تعلیم و تعلم تھا۔ 1925ءکو ان کے پاس نواب جمال الدین خاں آف ممدوٹ آئے۔ ان سے مصافحہ کرتے وقت ہاتھ پر رومال ڈال لیا۔ وضاحت پوچھنے پر فرمایا کہ آپ نے اپنے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی پہن رکھی ہے۔ مردوں کا سونا پہننا جہنم کے انگارے پہننے کے برابر ہے۔ نواب صاحب سیخ پا ہو گئے۔ مولانا کے ارگرد مصیبتوں کا جال بچھا دیا ہر مشکل کا مقابلہ تو کیا لیکن مجبوراً ہجرت کر کے ہیڈ سلیمانکی تشریف لے آئے۔
ان کے ہجرت کرنے کے فوری بعد دریا میں طغیانی آگئی۔ اس کے اثرات نواب کے محلات میں بھی پہنچ گئے۔ اللہ کی ناراضگی کے سبب آنے والا سیلاب بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ کہ نواب جمال الدین نے بہاولپور کے نواب کی وساطت معافی مانگی اور مولانا کو عزت و احترام سے واپس لکھو کے لے گئے۔ انہی ایام میں تحریک مجاہدین عروج پر تھی۔ مجاہدین بالا کوٹ کو فنڈز کی فراہمی میں اہم رول ادا کیا۔ جس پر انگریز کی طرف سے مختلف مصائب کا شکار بھی ہوئے۔ مولانا صاحب کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے عطا کیے جن میں سب سے بڑے بیٹے حافظ محمد رحمہ اللہ تھے۔ جو علمی گھرانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے مدرسے میں حاصل کی جبکہ اعلیٰ تعلیم مختلف علماءشیوخ سے حاصل کی۔ لیکن علم حدیث کے بارے میں مطمئن نہ ہوئے۔ آخر کار شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کو خط لکھ کر شاگرد بننے کی درخواست کی۔ اجازت ملنے پر تین شیوخ مولانا غلام رسول رحمہ اللہ قلعے والے، شیخ عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ اور حافظ محمد رحمہ اللہ نے رخت سفر باندھا اور دہلی کے لیے روانہ ہوئے۔ دہلی اسٹیشن پر بڑی عمر کے بزرگ بھاگ کر آئے سامان اٹھایا۔ مزدوری حسب استطاعت لینے کے وعدے پر سامان اٹھالیا۔ یہ خوش نصیب متعلمین جامعہ نذیریہ میں پہنچے تو سامان اٹھانے والا غائب ہو گیا۔ اچانک کھانا لے کر حاضر ہوا۔ تو پتہ چلا یہی ہمارے شیخ سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ ہی تھے۔ ندامت کا اظہار کیا معذرت کی مگر فرمایا کہ میرا پہلا سبق طلبہ کو خدمت کا ہوتا ہے۔ خدمت خلق اسلام کی جڑ ہے۔ 1852ءکو سند فراغت حاصل کی۔ لکھو کے تشریف لا کر جامعہ محمدیہ کو مزید فعال کیا۔
مدرسہ کی خدمت کے لیے اپنے چھ بیٹوں میں سے محی الدین عبدالرحمن رحمہ اللہ کو اپنے ساتھ رکھا۔ ہزاروں علماءو مشائخ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ تصانیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی دینی خدمات کی بدولت برصغیر پاک و ہند میں اسلام روشن تابندہ ہے۔ آپ جس کسی بھی عالم کے ذریعے جنت کی راہیں دیکھ رہے ہیں اس کا تعلق کسی نہ کسی واسطہ سے لکھوی خاندان تک ضرور پہنچے گا چنانچہ حافظ محمد رحمہ اللہ نے اپنے والد گرامی کی خواہش پر نصاب الفقہ پنجابی منظوم لکھی۔ سنن ابوداود پر عربی زبان میں حواشی اور تعلیقات لکھیں۔ اس طرح التعلیقات علی المشکوٰۃ المصابیح لکھی۔ سیف السنۃ تحریر کی۔ عوام الناس کے لیے اور عام فہم لوگوں کے لیے احوال الآخرت اور زینۃ الاسلام منظوم لکھیں۔ جو ہر زمانے میں مقبول رہیں۔ حصن الایمان، انواع محمدی، دین محمدی، رد نیچری، محاصن الاسلام، الفقہ الاکبر منظوم، تطہیر الاعتقاد، سبیل الارشاد تحریر فرمائیں۔ ان کے علاوہ تفسیر محمدی سات جلدوں میں شعروں میں پورے قرآن پاک کی تفسیر لکھی۔ جو مقبولیت کے لحاظ سے اپنی مثال نہیں رکھتی۔ کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
عربی زبان کی تعلیم کے لیے ابواب الصرف، قوانین صرف بہترین کتابیں ہیں۔ یہ ایک ایسی خدمت ہے جس سے تمام مسالک مستفید ہو رہے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے محی الدین عبدالرحمان رحمہ اللہ ان کی دینی توقعات پر پورا اترے۔ جس کی وجہ سے دین اسلام کی شعاعیں ملک کے کونے کونے میں پھیل گئیں۔ مولانا محی الدین عبدالرحمن رحمہ اللہ ولی کامل تھے۔ مستجاب الدعوات تھے۔ اپنے والد محترم کی وفات کے بعد 1893 کو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے حجاز مقدس تشریف لے گئے۔ جب مسجد نبوی کی زیارت کے لئے وہاں پہنچے تو نماز میں سجدے کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے بیٹے محمد علی مدنی رحمہ اللہ تھے جو 1890ءمیں پیدا ہوئے ان کی ولادت پر بڑی خوشی ہوئی۔ کیونکہ قادیانی فتنہ کی مخالفت کی وجہ سے مرزا قادیانی کا دعویٰ تھا کہ میری مخالفت کی وجہ سے مولانا محی الدین کی نرینہ اولاد نہیں ہو سکتی۔ مولانا محمد علی مدنی رحمہ اللہ کی علم و عرفان کے باسعادت گھر میں پرورش ہوئی انہوں نے مولانا عبدالقادر لکھوی رحمہ اللہ ، مولانا سید عبدالجبار رحمہ اللہ غزنوی اور شیخ پنجاب حافظ عبدالمنان رحمہ اللہ وزیر آبادی سے علمی پیاس بجھائی۔ مزید یہ کہ مولانا سید عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ اور مدرسہ نعمانیہ لاہور کے اساتذہ سے بھی علم حاصل کیا۔ تکمیل علم کے بعد اپنے آباءکے مدرسہ میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ 1929ءمیں پہلی دفعہ حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے۔ پھر حرمین کے ساتھ ایسا تعلق بنا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہیں کے ہو کے رہ گئے۔
چالیس سال تک مسجد نبوی میں درس و تدریس کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو علمی روشنی سے منور کیا۔ مولانا کے چار بیٹے تھے۔ مولانا محی الدین رحمہ اللہ ، مولانا معین الدین لکھوی، مولانا محمد حسن مدنی اور مولانا محمد حسین مدنی۔ 1945 میں مولانا صاحب نے اپنے بڑے بیٹے مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ کو مدینہ منورہ سے خط لکھا کہ ممدوٹ کے آخری حکمران نواب افتخار حسین کے خلاف الیکشن لڑیں۔ وفادار بیٹے نے لبیک کہا لیکن ہوا یہ کہ امیر المجاہدین مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی نے خط لکھ کر بائیکاٹ کے جماعتی فیصلہ سے آگاہ کیا۔ والد محترم کو جماعتی فیصلہ کی خبر دی تو فرمایا کہ جماعت کا فیصلہ مقدم ہے۔ لہٰذا آپ بائیکاٹ کر دیں۔ مولانا محمد علی مدنی لکھوی رحمہ اللہ نے 19 دسمبر 1973 ءکو مسجد نبوی کے قریب وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ مرحوم کے چار بیٹوں میں سے بڑے مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ ولی کامل تھے۔ وہ 1914ءکو پیدا ہوئے 14 اگست 1947 کو ہجرت کر کے 33 سال کی عمر میں سارے کنبے کے ساتھ کھرل کلاں نزد راجووال ( جہاں پر مولانا محمد علی مدنی رحمہ اللہ کے ننھیال رہتے تھے اور ذاتی زمین بھی تھی۔ ) اقامت گزیں ہوئے ہجرت کے ابتدائی چھ سال گزارنے کے بعد ضلع اوکاڑہ میں دیپالپور کے قریب بستی الہ آباد المعروف قلعہ تارا سنگھ میں رہائش اختیار کی۔ مولانا بلاشبہ ایک درویش منش عالم دین۔ بے لوث مبلغ، بے غرض داعی اور امانت دار سیاستدان تھے۔ ان میں حب الٰہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اپنے بیگانے تمام ان کی راہ میں آنکھیں بچھاتے تھے۔ ان کا احترام آج تک لوگوں کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہے۔
مولانا کثیر العیال تھے۔ آپ کے پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ مولانا حافظ محمد حامد، پروفیسر محمد حمود، پروفیسر محمد حماد، مولانا محمد حمید، مولانا محمد زید۔ ولی کامل مولانا محی الدین لکھوی نے 1953 ءمیں سردار محمد اسلم موکل اور سردار احمد علی کے خلاف الیکشن لڑا۔ واضح اکثریت کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ان کے برادر اصغر مفکر اسلام حضرت مولانا معین الدی لکھوی 1921ءمیں پیدا ہوئے۔ خاندانی روایات کے مطابق اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہوئے۔ جامعہ محمدیہ اوکاڑا کا اجرا ہجرت کے فوری بعد کیا۔ ابتداءمیں زیادہ وقت جامعہ اوکاڑہ میں گزارتے۔ جبکہ رہائش تارا سنگھ میں ہی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ذاتی جگہ خرید کر مکان بنایا۔ جہاں پر تاحال مقیم ہیں۔ مولانا معین الدین لکھوی ملکی اور جماعتی سیاست میں بڑے سرگرم رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ جامعہ محمدیہ کی ترقی و ترویج کے لئے پوری توجہ دیتے رہے۔ مولانا 1974ءتا 1994 ءتقریبا 20 سال تک مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر رہے۔ 1953ءکی تحریک ختم نبوت میں قید و بندکی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1974ءمیں بلدیہ اوکاڑہ کے ممبر بنے۔ 1953 میں عام انتخابات میں مہاجر سیٹ پر الیکشن لڑا۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں مجلس شوریٰ کے ممبر منتخب ہوئے۔ اپنے اس دور میں حدود آرڈیننس کے بل منظور کروائے اور جنرل ضیاءالحق نے مولانا کو علمی خدمات پرستارہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔
1985، 1990، 1996 کے تینوں الیکشنوں میں ایم۔ این۔ اے منتخب ہوئے۔ مگر مولانا نے کبھی بھی دھوکے، دغا فریب کی سیاست نہیں کی۔ ہمیشہ سچائی، حق گوئی، شرافت اور رضا الٰہی کو مقدم رکھا۔ ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا چاہے قریبی سے قریبی جانثار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ مولانا اپنی زندگی کے 87 ویں سال میں ہیں۔ جسمانی کمزوری احباب کی خدمت میں آڑے آگئی۔ اس لئے حلقہ احباب کا بار بار اصرار ہوتا رہا کہ آپ ہماری خدمت کے لئے نمائندہ دیں۔ بار بار انکار پراحباب کا اصرار غالب آ گیا۔ مولانا نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کو عوام کی خدمت کے لئے وقف کر دیا۔ آپ کے یہ فرزند عزیز میوہسپتال میں امراض دل کے ماہر ڈاکٹر تھے۔ گراں قدر حکومتی معاوضہ کو خیر آباد کہہ کر عوامی امنگوں کے مطابق اپنے والد محترم کے حلقہ این۔ اے 140 میں اپنی خدمات پیش کر دیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب پانچ جون 1962 میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ساتھ ساتھ خاندانی شرافت، ولایت، دیانت سے بھی ہمکنار ہوئے۔ 1987 ءمیں ایم بی بی ایس کیا۔ کارڈیالوجسٹ ( ماہر امراض دل و بلڈ پریشر ) میو ہسپتال میں ڈاکٹر بنے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میں سرگرم رکن کی حیثیت سے تنظیمی دور کا آغاز کیا۔ جس تنظیم کے مقاصد ڈاکٹرز کو جائز سہولیات فراہم کرنا تا کہ عوام ڈاکٹرز سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں۔ زیادہ سے زیادہ سرکاری ہسپتال بنانا۔ اور جاری شدہ ہسپتالوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنا۔
جلد ہی ڈاکٹرز نے محترم ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو 1997 ءمیں جنرل سیکرٹری بنا دیا۔ 2000ءکو حکومت وقت نے خودمختاری ایکٹ کے تحت تعلیمی ادارے اور ہسپتال پرائیویٹ کی مہم کا آغاز کیا۔ اس کا پہلا حملہ جنرل ہسپتال لاہور اور پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر ہونے ہی لگا تھا کہ تمام ڈاکٹرز صدر، جنرل سیکرٹری عظیم الدین لکھوی کے کہنے پر حکومت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ مذکورہ ہسپتال میں ڈاکٹر مبشر قادیانی کو امریکی اشارے پر شرائط نہ ہونے کے برابر پر لیز پر دے دیا گیا۔ معاہدے میں خاص بات یہ تھی۔ کہ اگر کسی معاملے پر حکومت کا مبشر قادیانی سے اختلاف ہو جائے تو اس کا فیصلہ پیرس میں ہو گا۔ عظیم باپ کے عظیم بیٹے پوری ٹیم کے ساتھ حکومت کے سامنے ڈٹ گئے۔ جلوس نکالے۔ گو مشرف گو کے نعرے لگائے۔ تنخواہیں ضبط ہوئیں۔ ترقیاں رکیں۔
محکمانہ سختیاں برداشت کیں۔ تادیبی کاروائیاں عمل میں آئیں۔ گورنر خالد مقبول سے آمنے سامنے مجادلہ ہوا۔ مگر ان تھک قائد نے گھٹنے نہ ٹیکے۔ مطالبات میں کامیاب رہے۔ کیونکہ مقصد نیک تھا۔ کہ یہ ہسپتال جہاں پر ہر روز سینکڑوں غریب مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ اگر یہ پرائیویٹ ہو گئے تو غریبوں کا علاج کون کرے گا۔ دیہی علاقوں میں ڈاکٹرز ڈیوٹی دینے سے کتراتے تھے۔ دیہاتی اور غریب لوگوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹرز فراہم کرنے کے لئے ان کی تنخواہوں میں تقریبا 15000 روپے کا اضافہ منظور کروایا گیا۔ اب شہری ڈاکٹروں سے دیہات میں کام کرنے والے ڈاکٹر کی تنخواہ زیادہ ہے۔ حلقہ این۔ اے 140 کی عوام ایسے دیانت دار، باصلاحیت اور خیر خواہ لیڈر کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ عوام و خواص کا پرزور مطالبے پر مفکر اسلام مولانا معین الدین لکھوی نے اپنے بیٹے ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کو ( خطیر تنخواہ ملنے کے باوجود ) استعفیٰ دلوا کر عوام کی خدمت کے لئے وقف کیا۔

بارگاہ الٰہی سے امید واثق ہے کہ محترم ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی عوام کی امنگوں پر پورا اتریں گے۔اور ہمہ وقت عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے۔ جس کا پہلا قدم الہ آباد شہر میں دیپال پور روڈ پر جگہ خریدی۔ مستقبل میں رہائش بھی ان شاءاللہ اختیار کی جائے گی۔ آپ حضرات سے التماس ہے کہ ان کی خاندانی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کی حوصلہ افزائی فرمائیں۔ اور بھاری اکثریت سے کامیاب بنائیں۔ 
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین 

 

No comments:

Post a Comment