Saturday, March 12, 2011

لکھوی خاندان کی دینی و سماجی خدمات


رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: 
” بے شک اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو انسانیت کی ضروریات پورا کرنے کیلئے پیدا کرتا ہے۔ لوگ اپنی ضروریات لے کر ان کی طرف آتے ہیں۔ یہی لوگ اللہ کے عذاب سے دور رہیں گے۔ “ ( طبرانی )

اللہ تعالیٰ مختلف ادوار میں کچھ باسعادت لوگ ایسے پیدا کرتا ہے جو لوگوں کی دنیا و آخرت بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ان تھک کوشش کرتے ہیں۔ ایسے حضرات میں لکھوی خاندان بھی پیش پیش ہے۔ کہ جس نے لوگوں کے دنیاوی معاملات کو سدھار اور آخرت کی مستقل زندگی کو بھی آرام دہ بنانے کے لیے بے حد محنت کی۔ ہزاروں لوگ ان سے مستفیض ہوئے اور ہو رہے ہیں یوں تو لکھوی خاندان کا تعلق 26 ویں پشت پر قطب شاہ سے ہوتا ہوا محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کے ذریعے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ مگر میں ان کے حالات انتہائی اختصار کے ساتھ ابوداؤد ڈھنگ شاہ سے شروع کروں گا۔
محترم ابوداؤد ڈھنگ شاہ رحمہ اللہ مشہور و معروف بزرگ تھے ان کے ہی نام سے ڈھنگ شاہ کا اڈا قصور روڈ پر مشہور و معروف ہے۔ سارے گاؤں کے مالک تھے ان کے بیٹے کا نام عالم شاہ رحمہ اللہ تھا ان کے بیٹے مولانا حافظ محمد امین رحمہ اللہ علم و فضل میں کمال رکھتے تھے۔ ان کی تبلیغ سے علاقہ کے کئی سکھ مسلمان ہوئے۔ سکھ وڈیروں کو یہ بات اچھی نہ لگی۔ انہوں نے مختلف حیلے بہانوں سے مولانا کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ کئی ایک وار کیے آخر کار مولانا اپنا ایمان و اسلام بچانے کے لیے فیروز پور کی چھوٹی سی بستی لکھو کے تشریف لے گئے۔ یہ بستی ریاست ممدوٹ ضلع فیروز پور میں لکھا نامی شخص کے نام سے مشہور تھی۔
یہاں پر مولانا حافظ محمد امین رحمہ اللہ نے دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسے سے دینی فیض حاصل کرنے کے لیے لوگ دور دراز کا سفر طے کر کے آتے۔ علمی اور روحانی تعلیم حاصل کرتے۔ 1596ءمولانا کے گھر اللہ تعالیٰ حافظ احمد عطا فرمائے۔ اس کے بعد حافظ نور محمد ان کے دوسرے بیٹے ہوئے۔ الشیخ حافظ احمد رحمہ اللہ انتہائی متقی پرہیز گار عالم و فاضل تھے۔ انہوں نے تصوف و تفسیر قرآن پاک کی اسناد الشیخ محمد اسماعیل رحمہ اللہ لاہور عرف بڑے میاں سے حاصل کیں۔ ان کا نکاح موضع طور کے سردار کی نیک سیرت بیٹی سے ہوا۔ اس جوڑے سے مولانا بارک اللہ لکھوی رحمہ اللہ کا جنم ہوا، والدہ صاحبہ رحمہ اللہ نے کبھی اپنے بیٹے کو دودھ بغیر وضو کے نہ پلایا۔ انہوں نے روحانی علوم شیخ محمد اسماعیل رحمہ اللہ سے حاصل کیے ۔ ان کو زہد و تقویٰ میں بلند مقام حاصل تھا۔ سارا وقت ذکر الٰہی میں گزرتا اور بہترین مشغلہ تعلیم و تعلم تھا۔ 1925ءکو ان کے پاس نواب جمال الدین خاں آف ممدوٹ آئے۔ ان سے مصافحہ کرتے وقت ہاتھ پر رومال ڈال لیا۔ وضاحت پوچھنے پر فرمایا کہ آپ نے اپنے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی پہن رکھی ہے۔ مردوں کا سونا پہننا جہنم کے انگارے پہننے کے برابر ہے۔ نواب صاحب سیخ پا ہو گئے۔ مولانا کے ارگرد مصیبتوں کا جال بچھا دیا ہر مشکل کا مقابلہ تو کیا لیکن مجبوراً ہجرت کر کے ہیڈ سلیمانکی تشریف لے آئے۔
ان کے ہجرت کرنے کے فوری بعد دریا میں طغیانی آگئی۔ اس کے اثرات نواب کے محلات میں بھی پہنچ گئے۔ اللہ کی ناراضگی کے سبب آنے والا سیلاب بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ کہ نواب جمال الدین نے بہاولپور کے نواب کی وساطت معافی مانگی اور مولانا کو عزت و احترام سے واپس لکھو کے لے گئے۔ انہی ایام میں تحریک مجاہدین عروج پر تھی۔ مجاہدین بالا کوٹ کو فنڈز کی فراہمی میں اہم رول ادا کیا۔ جس پر انگریز کی طرف سے مختلف مصائب کا شکار بھی ہوئے۔ مولانا صاحب کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے عطا کیے جن میں سب سے بڑے بیٹے حافظ محمد رحمہ اللہ تھے۔ جو علمی گھرانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے مدرسے میں حاصل کی جبکہ اعلیٰ تعلیم مختلف علماءشیوخ سے حاصل کی۔ لیکن علم حدیث کے بارے میں مطمئن نہ ہوئے۔ آخر کار شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کو خط لکھ کر شاگرد بننے کی درخواست کی۔ اجازت ملنے پر تین شیوخ مولانا غلام رسول رحمہ اللہ قلعے والے، شیخ عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ اور حافظ محمد رحمہ اللہ نے رخت سفر باندھا اور دہلی کے لیے روانہ ہوئے۔ دہلی اسٹیشن پر بڑی عمر کے بزرگ بھاگ کر آئے سامان اٹھایا۔ مزدوری حسب استطاعت لینے کے وعدے پر سامان اٹھالیا۔ یہ خوش نصیب متعلمین جامعہ نذیریہ میں پہنچے تو سامان اٹھانے والا غائب ہو گیا۔ اچانک کھانا لے کر حاضر ہوا۔ تو پتہ چلا یہی ہمارے شیخ سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ ہی تھے۔ ندامت کا اظہار کیا معذرت کی مگر فرمایا کہ میرا پہلا سبق طلبہ کو خدمت کا ہوتا ہے۔ خدمت خلق اسلام کی جڑ ہے۔ 1852ءکو سند فراغت حاصل کی۔ لکھو کے تشریف لا کر جامعہ محمدیہ کو مزید فعال کیا۔
مدرسہ کی خدمت کے لیے اپنے چھ بیٹوں میں سے محی الدین عبدالرحمن رحمہ اللہ کو اپنے ساتھ رکھا۔ ہزاروں علماءو مشائخ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ تصانیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی دینی خدمات کی بدولت برصغیر پاک و ہند میں اسلام روشن تابندہ ہے۔ آپ جس کسی بھی عالم کے ذریعے جنت کی راہیں دیکھ رہے ہیں اس کا تعلق کسی نہ کسی واسطہ سے لکھوی خاندان تک ضرور پہنچے گا چنانچہ حافظ محمد رحمہ اللہ نے اپنے والد گرامی کی خواہش پر نصاب الفقہ پنجابی منظوم لکھی۔ سنن ابوداود پر عربی زبان میں حواشی اور تعلیقات لکھیں۔ اس طرح التعلیقات علی المشکوٰۃ المصابیح لکھی۔ سیف السنۃ تحریر کی۔ عوام الناس کے لیے اور عام فہم لوگوں کے لیے احوال الآخرت اور زینۃ الاسلام منظوم لکھیں۔ جو ہر زمانے میں مقبول رہیں۔ حصن الایمان، انواع محمدی، دین محمدی، رد نیچری، محاصن الاسلام، الفقہ الاکبر منظوم، تطہیر الاعتقاد، سبیل الارشاد تحریر فرمائیں۔ ان کے علاوہ تفسیر محمدی سات جلدوں میں شعروں میں پورے قرآن پاک کی تفسیر لکھی۔ جو مقبولیت کے لحاظ سے اپنی مثال نہیں رکھتی۔ کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
عربی زبان کی تعلیم کے لیے ابواب الصرف، قوانین صرف بہترین کتابیں ہیں۔ یہ ایک ایسی خدمت ہے جس سے تمام مسالک مستفید ہو رہے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے محی الدین عبدالرحمان رحمہ اللہ ان کی دینی توقعات پر پورا اترے۔ جس کی وجہ سے دین اسلام کی شعاعیں ملک کے کونے کونے میں پھیل گئیں۔ مولانا محی الدین عبدالرحمن رحمہ اللہ ولی کامل تھے۔ مستجاب الدعوات تھے۔ اپنے والد محترم کی وفات کے بعد 1893 کو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے حجاز مقدس تشریف لے گئے۔ جب مسجد نبوی کی زیارت کے لئے وہاں پہنچے تو نماز میں سجدے کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے بیٹے محمد علی مدنی رحمہ اللہ تھے جو 1890ءمیں پیدا ہوئے ان کی ولادت پر بڑی خوشی ہوئی۔ کیونکہ قادیانی فتنہ کی مخالفت کی وجہ سے مرزا قادیانی کا دعویٰ تھا کہ میری مخالفت کی وجہ سے مولانا محی الدین کی نرینہ اولاد نہیں ہو سکتی۔ مولانا محمد علی مدنی رحمہ اللہ کی علم و عرفان کے باسعادت گھر میں پرورش ہوئی انہوں نے مولانا عبدالقادر لکھوی رحمہ اللہ ، مولانا سید عبدالجبار رحمہ اللہ غزنوی اور شیخ پنجاب حافظ عبدالمنان رحمہ اللہ وزیر آبادی سے علمی پیاس بجھائی۔ مزید یہ کہ مولانا سید عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ اور مدرسہ نعمانیہ لاہور کے اساتذہ سے بھی علم حاصل کیا۔ تکمیل علم کے بعد اپنے آباءکے مدرسہ میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ 1929ءمیں پہلی دفعہ حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے۔ پھر حرمین کے ساتھ ایسا تعلق بنا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہیں کے ہو کے رہ گئے۔
چالیس سال تک مسجد نبوی میں درس و تدریس کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو علمی روشنی سے منور کیا۔ مولانا کے چار بیٹے تھے۔ مولانا محی الدین رحمہ اللہ ، مولانا معین الدین لکھوی، مولانا محمد حسن مدنی اور مولانا محمد حسین مدنی۔ 1945 میں مولانا صاحب نے اپنے بڑے بیٹے مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ کو مدینہ منورہ سے خط لکھا کہ ممدوٹ کے آخری حکمران نواب افتخار حسین کے خلاف الیکشن لڑیں۔ وفادار بیٹے نے لبیک کہا لیکن ہوا یہ کہ امیر المجاہدین مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی نے خط لکھ کر بائیکاٹ کے جماعتی فیصلہ سے آگاہ کیا۔ والد محترم کو جماعتی فیصلہ کی خبر دی تو فرمایا کہ جماعت کا فیصلہ مقدم ہے۔ لہٰذا آپ بائیکاٹ کر دیں۔ مولانا محمد علی مدنی لکھوی رحمہ اللہ نے 19 دسمبر 1973 ءکو مسجد نبوی کے قریب وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ مرحوم کے چار بیٹوں میں سے بڑے مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ ولی کامل تھے۔ وہ 1914ءکو پیدا ہوئے 14 اگست 1947 کو ہجرت کر کے 33 سال کی عمر میں سارے کنبے کے ساتھ کھرل کلاں نزد راجووال ( جہاں پر مولانا محمد علی مدنی رحمہ اللہ کے ننھیال رہتے تھے اور ذاتی زمین بھی تھی۔ ) اقامت گزیں ہوئے ہجرت کے ابتدائی چھ سال گزارنے کے بعد ضلع اوکاڑہ میں دیپالپور کے قریب بستی الہ آباد المعروف قلعہ تارا سنگھ میں رہائش اختیار کی۔ مولانا بلاشبہ ایک درویش منش عالم دین۔ بے لوث مبلغ، بے غرض داعی اور امانت دار سیاستدان تھے۔ ان میں حب الٰہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اپنے بیگانے تمام ان کی راہ میں آنکھیں بچھاتے تھے۔ ان کا احترام آج تک لوگوں کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہے۔
مولانا کثیر العیال تھے۔ آپ کے پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ مولانا حافظ محمد حامد، پروفیسر محمد حمود، پروفیسر محمد حماد، مولانا محمد حمید، مولانا محمد زید۔ ولی کامل مولانا محی الدین لکھوی نے 1953 ءمیں سردار محمد اسلم موکل اور سردار احمد علی کے خلاف الیکشن لڑا۔ واضح اکثریت کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ان کے برادر اصغر مفکر اسلام حضرت مولانا معین الدی لکھوی 1921ءمیں پیدا ہوئے۔ خاندانی روایات کے مطابق اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہوئے۔ جامعہ محمدیہ اوکاڑا کا اجرا ہجرت کے فوری بعد کیا۔ ابتداءمیں زیادہ وقت جامعہ اوکاڑہ میں گزارتے۔ جبکہ رہائش تارا سنگھ میں ہی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ذاتی جگہ خرید کر مکان بنایا۔ جہاں پر تاحال مقیم ہیں۔ مولانا معین الدین لکھوی ملکی اور جماعتی سیاست میں بڑے سرگرم رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ جامعہ محمدیہ کی ترقی و ترویج کے لئے پوری توجہ دیتے رہے۔ مولانا 1974ءتا 1994 ءتقریبا 20 سال تک مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر رہے۔ 1953ءکی تحریک ختم نبوت میں قید و بندکی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1974ءمیں بلدیہ اوکاڑہ کے ممبر بنے۔ 1953 میں عام انتخابات میں مہاجر سیٹ پر الیکشن لڑا۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں مجلس شوریٰ کے ممبر منتخب ہوئے۔ اپنے اس دور میں حدود آرڈیننس کے بل منظور کروائے اور جنرل ضیاءالحق نے مولانا کو علمی خدمات پرستارہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔
1985، 1990، 1996 کے تینوں الیکشنوں میں ایم۔ این۔ اے منتخب ہوئے۔ مگر مولانا نے کبھی بھی دھوکے، دغا فریب کی سیاست نہیں کی۔ ہمیشہ سچائی، حق گوئی، شرافت اور رضا الٰہی کو مقدم رکھا۔ ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا چاہے قریبی سے قریبی جانثار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ مولانا اپنی زندگی کے 87 ویں سال میں ہیں۔ جسمانی کمزوری احباب کی خدمت میں آڑے آگئی۔ اس لئے حلقہ احباب کا بار بار اصرار ہوتا رہا کہ آپ ہماری خدمت کے لئے نمائندہ دیں۔ بار بار انکار پراحباب کا اصرار غالب آ گیا۔ مولانا نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کو عوام کی خدمت کے لئے وقف کر دیا۔ آپ کے یہ فرزند عزیز میوہسپتال میں امراض دل کے ماہر ڈاکٹر تھے۔ گراں قدر حکومتی معاوضہ کو خیر آباد کہہ کر عوامی امنگوں کے مطابق اپنے والد محترم کے حلقہ این۔ اے 140 میں اپنی خدمات پیش کر دیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب پانچ جون 1962 میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ساتھ ساتھ خاندانی شرافت، ولایت، دیانت سے بھی ہمکنار ہوئے۔ 1987 ءمیں ایم بی بی ایس کیا۔ کارڈیالوجسٹ ( ماہر امراض دل و بلڈ پریشر ) میو ہسپتال میں ڈاکٹر بنے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میں سرگرم رکن کی حیثیت سے تنظیمی دور کا آغاز کیا۔ جس تنظیم کے مقاصد ڈاکٹرز کو جائز سہولیات فراہم کرنا تا کہ عوام ڈاکٹرز سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں۔ زیادہ سے زیادہ سرکاری ہسپتال بنانا۔ اور جاری شدہ ہسپتالوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنا۔
جلد ہی ڈاکٹرز نے محترم ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو 1997 ءمیں جنرل سیکرٹری بنا دیا۔ 2000ءکو حکومت وقت نے خودمختاری ایکٹ کے تحت تعلیمی ادارے اور ہسپتال پرائیویٹ کی مہم کا آغاز کیا۔ اس کا پہلا حملہ جنرل ہسپتال لاہور اور پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر ہونے ہی لگا تھا کہ تمام ڈاکٹرز صدر، جنرل سیکرٹری عظیم الدین لکھوی کے کہنے پر حکومت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ مذکورہ ہسپتال میں ڈاکٹر مبشر قادیانی کو امریکی اشارے پر شرائط نہ ہونے کے برابر پر لیز پر دے دیا گیا۔ معاہدے میں خاص بات یہ تھی۔ کہ اگر کسی معاملے پر حکومت کا مبشر قادیانی سے اختلاف ہو جائے تو اس کا فیصلہ پیرس میں ہو گا۔ عظیم باپ کے عظیم بیٹے پوری ٹیم کے ساتھ حکومت کے سامنے ڈٹ گئے۔ جلوس نکالے۔ گو مشرف گو کے نعرے لگائے۔ تنخواہیں ضبط ہوئیں۔ ترقیاں رکیں۔
محکمانہ سختیاں برداشت کیں۔ تادیبی کاروائیاں عمل میں آئیں۔ گورنر خالد مقبول سے آمنے سامنے مجادلہ ہوا۔ مگر ان تھک قائد نے گھٹنے نہ ٹیکے۔ مطالبات میں کامیاب رہے۔ کیونکہ مقصد نیک تھا۔ کہ یہ ہسپتال جہاں پر ہر روز سینکڑوں غریب مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ اگر یہ پرائیویٹ ہو گئے تو غریبوں کا علاج کون کرے گا۔ دیہی علاقوں میں ڈاکٹرز ڈیوٹی دینے سے کتراتے تھے۔ دیہاتی اور غریب لوگوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹرز فراہم کرنے کے لئے ان کی تنخواہوں میں تقریبا 15000 روپے کا اضافہ منظور کروایا گیا۔ اب شہری ڈاکٹروں سے دیہات میں کام کرنے والے ڈاکٹر کی تنخواہ زیادہ ہے۔ حلقہ این۔ اے 140 کی عوام ایسے دیانت دار، باصلاحیت اور خیر خواہ لیڈر کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ عوام و خواص کا پرزور مطالبے پر مفکر اسلام مولانا معین الدین لکھوی نے اپنے بیٹے ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کو ( خطیر تنخواہ ملنے کے باوجود ) استعفیٰ دلوا کر عوام کی خدمت کے لئے وقف کیا۔

بارگاہ الٰہی سے امید واثق ہے کہ محترم ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی عوام کی امنگوں پر پورا اتریں گے۔اور ہمہ وقت عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے۔ جس کا پہلا قدم الہ آباد شہر میں دیپال پور روڈ پر جگہ خریدی۔ مستقبل میں رہائش بھی ان شاءاللہ اختیار کی جائے گی۔ آپ حضرات سے التماس ہے کہ ان کی خاندانی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کی حوصلہ افزائی فرمائیں۔ اور بھاری اکثریت سے کامیاب بنائیں۔ 
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین 

 

مناظر اسلام حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمہ الل


ماضی قریب میں بہت سے علماءکرام ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ ان کے اٹھ جانے سے بہت سی مسندیں خالی ہو گئیں۔ دعوت و تبلیغ اور نظم جماعت کے حوالہ سے ان کی شدید کمی محسوس کی گئی۔ ان میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ ، مولانا حبیب الرحمن شہید، میاں فضل حق رحمہ اللہ ، شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ رحمہ اللہ ، شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری، حضرۃ العلام سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ ، مولانا قاری عبدالخالق رحمہ اللہ رحمانی و دیگر علماءکرام کے ساتھ ساتھ مناظر اسلام حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمہ اللہ کا اسم گرامی بھی شامل ہے۔ جو حضرت علامہ شہید اور امیر محترم سینٹر پروفیسر ساجد میر کے عسر و یسر ہمسفر رہے۔ وہ اہل حدیث کے نامور مناظر اور مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے نائب امیر تھے۔ وہ اپنے خطابات میں مسلک اور جماعت کی ترجمانی کا حق ادا کر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ان کی وعظ و تبلیغ سے بے شمار لوگ مسلک اہلحدیث سے وابستہ ہو گئے۔ توحید، سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شان صحابہ رضی اللہ عنہ ان کے خاص موضوع تھے۔
انہوں نے اپنی پوری زندگی مسلک اور جماعت کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے جناب پروفیسر ساجد میر کو ایسے ہی امیر نہیں مانا بلکہ جماعت کے سب سے بڑے اور پالیسی ساز ادارے مجلس شوریٰ کے پانچ صد ارکان نے امیر منتخب کیا ہے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ وہ اپنی حسن کارکردگی، جراتمندانہ کردار اور دینی و سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے جماعت کی آبرو ہیں۔ اور مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان اہلحدیث کی سب سے بڑی اور نمائندہ جماعت ہے جس کے ضلعی، شہری اور ابتدائی یونٹ پورے ملک میں موجود ہیں، اور ہزاروں مساجد و مدارس کا نظام اس سے وابستہ ہے۔ حافظ صاحب مرحوم یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جب تک زندہ رہوں گا مرکزی جمعیت اہلحدیث کا خادم رہوں گا اور اس کا پیغام قریہ قریہ اور بستی بستی پہنچاتا رہوں گا۔ افسوس کہ وہ بعارضہ دل کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ایسے ہی علماءکے بارے میں کہا گیا ہے کہ موت العالم موت العالم،

میں ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو سکا مگر غائبانہ جنازہ میں شرکت کا موقع مل گیا۔ شیخوپورہ میں مرحوم کی نماز جنازہ امیر محترم پروفیسر ساجد میر نے بڑے حزن و ملال کی حالت میں پڑھائی۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ کمپنی باغ پہنچ گئے۔ اخبارات کے مطابق یہ شیخوپورہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ لوگوں نے بادیدہ نم مرحوم کو سپرد رحمت باری کر دیا۔ تقریبا ایک سال کے بعد سرگودھا میں آل پاکستان اہلحدیث کانفرنس منعقد ہوئی۔ ہم نے پہلی بار ان کے صاحبزادے خطیب ابن خطیب حافظ عبدالباسط شیخوپوری کا خطاب سنا اور دل باغ باغ ہو گیا۔ انہوں نے شان صحابہ رضی اللہ عنہ پر بڑی خوبصورت اور ایمان افروز تقریر کی اور یہ بھی کہا کہ میں جب تک زندہ رہوں گا اپنے والد مرحوم کی طرح مرکزی جمعیت اہلحدیث کی خدمت کرتا رہوں گا۔ انہوں نے تقریر کے آخر میں یہ نعرے بھی لگائے۔ 
ہاتھ میں ہاتھ دو.... ساجد میر کا ساتھ دو

حافظ صاحب مرحوم کے چھوٹے صاحبزادے حافظ عبدالرحمن بھی اچھے خطیب اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے پیغام اور مشن کے داعی ہیں۔ ان کے بیٹے، اپنے باپ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی زندگیوں اور علم و عمل میں برکت فرمائے اور مسلک و جماعت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ


شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ کی ذات محتاج تعارف نہیںَ آپ کا شمار ان جلیل القدر علمائے کرام میں ہوتا ہے۔ جو اپنے شجر علمی کے اعتبار سے جامع الکمالات تھے۔ آپ بیک وقت مفسر قرآن بھی تھے۔ اور محدث بھی، مجتہد بھی تھے۔ اور فقیہہ بھی، محقق بھی تھے اور مورخ بھی، معلم بھی تھے، اور متکلم بھی، نقاد بھی تھے اور مبصر بھی، ادیب بھی تھے، اور دانشور بھی، خطیب بھی تھے، اور مقرر بھی! مصنف بھی تھے، اور واعظ بھی، اور اس کے علاوہ آپ پاکیزہ ذہن کے سیاستدان بھی، تمام علوم اسلامیہ یعنی تفسیر قرآن، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، اصول تفسیر و حدیث، فقہ و اصول فقہ، تاریخ و سیر، ادب، لغت، معانی، فلسفہ، منطق، غرضیکہ تمام علوم پر ان کو یکساں قدرت حاصل تھی۔ حدیث اور تاریخ پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ تاریخ پر تنقیدی نظر رکھتے تھے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو والہانہ محبت اور عشق تھا۔ حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مدانیت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس کا ثبوت ان کی تصانیف سے ملتا ہے۔ ان کی تمام تصانیف حدیث کی حمایت و تائید اور نصرت و مدافعت میں ہیں۔ خطابت میں بھی ان کا مقام بہت بلند تھا۔ عوامی تقریر کرنے میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ اور علمی و تحقیقی تقریر کرنے کے بھی شہسوار تھے۔ حالات حاضرہ پر ان کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ برصغیر کی تمام قومی و ملی اور علمی و دینی تحریکات کے بارے میں ان کو مکمل آگاہی حاصل تھی۔ اور ہر تحریک کے بارے میں اپنی ایک ناقدانہ رائے رکھتے تھے۔ ملکی تحریکات کی ساتھ ساتھ عالم اسلام کے تحریکات کے بارے میں بھی وسیع معلومات رکھتے تھے۔
مولانا محمد اسمعیل سلفی کا شمار اکابر علمائے اہلحدیث میں ہوتا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس سے وابستہ تھے۔ اور مجلس عاملہ کے رکن تھے۔ تقسیم ملک سے آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس سے تعلق منقطع ہو گیا، آپ نے مولانا سید محمد داؤد غزنوی، حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا محمد عطاءاللہ حنیف بھوجیانی، مولانا عبدالمجید سوہدروی اور دوسرے علمائے کرام کے تعاون سے مغربی پاکستان میں جماعت اہلحدیث کو منظم اور فعال بنانے میں قابل قدر خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ 1955ءمیں الجامعہ السلفیہ لائل پور ( فیصل آباد ) کے قیام میں بھی آپ کی خدمات سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ملکی سیاست میں بھی آپ کی خدمات جلیلہ کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ کئی بار تحریک استخلاص وطن میں اسیر زنداں ہوئے۔
علم و فضل کے اعتبار سے مولانا سلفی مرحوم جامع الکمالات تھے۔ حکومت پاکستان نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں 33 علماءکا ایک بورڈ تشکیل دیا۔ اور اس بورڈ کا صدر علامہ سید سلیمان ندوی کو بنایا گیا۔ مولانا سلفی رحمہ اللہ بھی اس بورڈ کے رکن تھے۔
مولانا محمد اسمعیل سلفی 1895 ءمیں وزیر آباد کے نواحی قصبہ ڈھونیکی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مولانا حکیم محمد ابراھیم تھا۔ جو استاد پنجاب شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی کے فیض یافتہ تھے۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی نے علوم اسلامیہ کی تحصیل جن علمائے کرام سے کی۔ ان کے نام یہ ہیں۔
مولانا عمر الدین وزیر آبادی، استاد پنجاب شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی، مولانا عبدالجبار عمرپوری، مولانا سید عبدالغفور غزنوی، مولانا مفتی محمد حسن امرتسری، مولوی حکیم محمد عالم امرتسری، مولانا محمد ابراھیم میر سیالکوٹی ۔ دہلی کے قیام میں مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ کے درس قرآن میں شرکت کی سعادت بھی انہیں حاصل تھی۔ 1921ءمیں مولانا سلفی نے علوم اسلامیہ سے فراغت حاصل کی۔ اور مولانا محمد ابراھیم میر سیالکوٹی کی تحریک پر گوجرانوالہ میں حاجی پورہ کی مسجد مٰں ان کا تقرر بحیثیت خطیب ہوا، کچھ مدت بعد مولانا علاؤ الدین خطیب مسجد چوک نیائیں گوجرانوالہ کا انتقال ہوا۔ تو آپ کو ان کی جگہ خطیب مرکزی مسجد مقرر کیا گیا۔ جہاں آپ اپنے انتقال فروری 1968 تک توحید و سنت کی اشاعت میں مصروف رہے۔
آپ نے ایک دینی درسگاہ جامعہ محمدیہ کے نام سے قائم کی۔ یہ درسگاہ اب بھی آپ کی یہ یادگار قائم ہے۔ اور قرآن و حدیث کی اشاعت میں سرگرم عمل ہے۔ مولانا سلفی مرحوم ایک کامیاب مصنف بھی تھے۔ آپ کی تمام تصانیف تقریبا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و نصرت اور مدافعت میں ہیں۔ آپ کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے۔
ترجمہ و شرح مشکوٰۃ المصابیح ( ربع اول ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز۔ تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی۔ زیارۃ القبور۔ حدیث کی تشریعی اہمیت۔ مسئلہ حیات النبی۔ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک۔ حدیث کا مقام قرآن کی روشنی میں۔ اسلامی نظام حکومت کا مختصر خاکہ۔ حجیت حدیث۔ خطبات سلفیہ۔ مولانا محمد اسمٰعیل سلفی نے 20 فروری 1968 ءکو گوجرانوالہ میں انتقال کیا۔ مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور قبرستان کلاں میں دفن ہوئے۔ راقم آئم کو بھی جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہے۔اللھم اغفرہ وارحمہ۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی کی وفات کو قومی پریس اور اکابر علمائے کرام نے ایک عظیم دینی و علمی و قومی سانحہ قرار دیا۔

روزنامہ نوائے وقت لاہور نے اپنی اشاعت21فروری 1928 ءمیں لکھا۔ 
مرحوم صرف جید عالم دین، باکمال خطیب اور جادوبیان مقرر ہی نہ تھے۔ بلکہ وہ ایک خاموش سیاسی کارکن اور اتحاد اسلامی کے زبردست داعی تھے۔ ضبط وتحمل، رواداری ان کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ وہ نہ صرف فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف تھے۔ بلکہ انہوں نے مختلف فرقوں کے مابین فروعی اختلافات ختم کرنے کی کوشش کی۔ وہ دین کو سیاست سے الگ نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے زندگی بھر دینی خدمت کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست کو بھی اسلامی رنگ دینے کی مخلصانہ کوشش کی۔


جناب شورش کاشمیری نے اپنے رسالہ ہفت روزہ چٹان کی اشاعت 22 فروری 1968 ءمیں لکھا کہ 
” مولانا بظاہر ایک دھان پان اور منکسر المزاج انسان تھے۔ لیکن حقیقتاً وہ علم کا سرچشمہ اور غیرت کا پہاڑ تھے۔ بادشاہوں کو خاطر میں لانے والے نہیں تھے۔ انہوں نے مسجدوں اور مدارس کے وقار کو دو چند کیا۔ وہ بادشاہوں کی ثنا خوانی کو اپنے سجاوے کی آبرو نہیں گردانتے تھے۔ “


مولانا قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی نے اپنے ایک مکتوب بنام ایڈیٹر الاعتصام لکھا: 
” حضرت مولانا محمد اسمعیل کی وفات سے دل کو سخت رنج و غم ہوا۔ مرحوم برصغیر کے ممتاز عالم، وسیع النظر محقق، مفکر اور مصنف تھے۔ درس و تدریس اور خطابت کے ذریعہ آپ نے دین و ملت کی طویل عرصہ تک جو خدمات انجام دیں۔ وہ ہمیشہ یادگار رہیں گی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ وحدت امت کے سب سے بڑے داعی تھے۔ اور فرقہ وارانہ تنگ نظری کے شدید مخالف تھے۔ ان کے انتقال سے علماءکی صفوں میں شدید خلا محسوس کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے دامان رحمت میں جگہ دے۔ اور آپ کی جماعت کے صاحبان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔


علامہ احسان الٰہی ظہیر نے ہفت روزہ الاعتصام کی اشاعت 8مارچ1967 ءمیں لکھا
” مولانا محمد اسمعیل سلفی کی پوری زندگی دین و علم کی خدمت میں گزری ان کا ایک ایک لمحہ عزیمت و جہاد کا علمبردار تھا۔ “

 

ولی کامل مولانا محی الدین لکھوی رحمہ الل


حضرت مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ وہ عظیم شخصیت ہیں جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا ۔ تاریخ کے دریچوں میں جن کی عارضی زندگی کے آثار مستقل رقم و ثبت ہیں ۔ نمونہ سلف مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ کو اس دارِ فانی سے کوچ کئے ہوئے دس سال کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ مگر ان کی یگانہ روز بے مثل شخصیت ہمیشہ دلوں کو لبھاتی رہے گی ۔ کھلی پیشانی ، صاف دل ، میٹھی زباں ، مسکراتا چہرہ ، پیار و محبت خلوص سے بھرا مکھڑا ، حلیم الطبع ، دل کا شیشہ ہر کسی کے لیے صاف کہ دیکھنے والوں کو خدا یاد آئے ۔ 
(( رب اشعت مذفوع بالا بواب لو اقسم علی اللہ لابرہ )) ( صحیح مسلم )

مولانا کا انداز بیاں دل نشیں ایمان افروز پر سوز اور فکر انگیز ہوتا تھا ۔ گفتگو پاکیزہ سوز و گداز سے بھرپور ۔ فکر و احساس سے مزین اور اخلاق کریمانہ نمایاں تھے ۔ مستجاب الدعوات کہ لوگ دعا کے لیے مرکز اسلام تارا سنگھ یا مولانا سے وعدہ لے کر اپنے گھر بلا کر دعا کرواتے ۔ چند ایک واقعات درج ذیل ہیں ۔
    حاجی رحمت اللہ بیٹو جمبرکلاں سے بیان کرتے ہیں کہ میرے کنویں پر میرے مزارعوں میں سے ایک نوجوان مرگی کے مرض میں مبتلا تھا ۔ ایک دن دوپہر کے وقت لڑکے کو اچانک مرگی کا دورہ پڑا ۔ لڑکا تڑپنے لگا ۔ ہم سب لوگ جو کنویں پر موجود تھے اور اسکے والدین اس پر اکٹھے ہوگئے ۔ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ آجائیں تو لڑکا ٹھیک ہو جائے گا ۔ میں نے دوسری طرف دیکھا تو واقعی مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ تشریف لا رہے تھے ۔ خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ مولانا ہمیں دیکھ کر وہیں تشریف لے آئے جہاں ہم کھڑے تھے ۔ معانقہ کیا اور پوچھا رحمت اللہ کیا بات ہے ؟ تومیں نے عرض کیا کہ دیکھیں یہ جوان بیٹا مرگی کے مرض میں تڑپ رہا ہے ۔ اس کا علاج کیا مگر آرام نہیں آرہا ۔ اس کے والدین اور ہم سب اس کی بیماری سے بہت پریشان ہیں ۔ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نے فرمایا اس کے والدین نماز پڑھنے کا وعدہ مجھے دے دیں تو آئندہ اللہ کے حکم سے مرگی کا دورہ نہیں پڑے گا ۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ مولانا نے تین مرتبہ معاذ اللہ تین مرتبہ استغفراللہ کہا پھر اس مریض کو دم کیا تو وہ فوراً ٹھیک ہوگیا ۔ چند دن تک اس نے نماز کی پابندی کی لیکن تیس سال گزر چکے ہیں دوبارہ مرگی کا دورہ نہیں ہوا ۔الحمد للہ علی ذالک ۔
2     دوسرا واقعہ موضع شامکوٹ کہنہ چند گھروں میں آگ لگ جایا کرتی تھی ۔ صندوق کے اندر بھی کپڑے جل جاتے ۔ دھواں نکلتا ، لوگ بجھانے کی کوشش کرتے ، دوسری جگہ آگ لگ جاتی ۔ گھر محلے والے بڑے پریشان بہت سے عاملوں کو بلوایا گیا مگر فائدہ نہ ہوا ۔ بالآخر مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ کو لایا گیا مولانا نے ان سب گھروں کا چکر لگایا اللہ کا نام تو ہمیشہ مولانا کی زبان پر رہتا تھا کچھ خاص پڑھا نہ دم کیا بس اتنا کہا کہ جن جن گھروں میں آگ لگتی ہے مجھ سے نماز پڑھنے کا وعدہ کریں ۔ انشاءاللہ آج کے بعد آگ نہیں لگے گی ۔ انہوں نے نماز کی پابندی کی اور 16 سال گزر چکے ہیں ۔ دوبارہ آگ نہیں لگی اور انہیں ہمیشہ کے لیے اس پریشانی سے نجات مل گئی ۔
3     1989ءمیں مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ چونیاں تشریف لائے ۔ رات بعد نماز عشاءمسجد رحیمیہ میں تقریر کی ۔ صبح نماز و درس قرآن کے بعد نہانے کی خواہش کی ۔ مسجد کے سیکرٹری کہنے لگے کہ ہماری دکانوں میں ایک حمام ہے وہاں حمام میں نہانے کا عمدہ انتظام ہے ۔ فرمانے لگے استغفراللہ ، معاذ اللہ ، اللہ کی پناہ ۔ جہاں داڑھیاں منڈوائی جاتی ہیں وہاں میں غسل کروں.... انکار کر دیا ۔ خیر ! مسجد کے غسل خانے میں مولانا نے غسل کیا ۔ محلے میں مسجد کے پڑوسی امیر آدمی نے رات ہی مولانا کے ناشہ کا وعدہ لے لیا تھا ۔ صبح جب مولانا ان کے گھر داخل ہوئے تو کمرے کے اندر سامنے میزبان کے والد کی تصویر لٹکی ہوئی تھی ۔ مولانا دروازے پر کھڑے ہوگئے ۔ اور فرمانے لگے تصویر کو اتارو ۔ میزبان نے فوراً تعمیل کی ۔ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ اور ہم چند مقامی ساتھیوں نے ناشتہ کیا ۔ ناشتے کے بعد میزبان نے درخواست کی کہ مولانا ہم مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ بڑی پریشانیوں نے گھیر رکھا ہے ۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مقدمات سے نجات اور سکون کی زندگی عطا فرمائے ۔ اب مولانا نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور جامع دعاؤ ں کے بعد فرمایا کہا اے اللہ ! چوہدری صاحب کو سکون عطا فرما ۔ مقدمات سے نجات دے ۔ اے اللہ جو رزق غیرسکونی اور پریشانی کا باعث ہے وہ اس سے واپس لے لے ۔ اس کی دین و دنیا بہتر فرما ۔ اور اس کی اولاد کو نمازی بنا ۔ جس روزی میں سکون نہیں وہ اس سے چھین لے ۔ جب مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نے یہ دعائیں کیں تو ہم گھبرا گئے کہ کہیں چوہدری صاحب ناراض نہ ہو جائیں ۔ کہ میں نے آپ کو بڑا پرتکلفانہ کھانا کھلایا ہے ۔ اور آپ میرے ہی گھر میں دعا کی جگہ بددعا کر رہے ہیں ۔ مگر اس نے برداشت کیا ۔ اب دعا قبول ہوئی وہ ناجائز مال سے صاف ہوئے ۔ حالت پتلی ہوگئی ۔ مگر پریشانیوں ، مقدمات سے نجات مل گئی ۔ اور اطمینان و سکون نصیب ہوگیا ۔

4     پاکستان بننے سے قبل دونوں بھائی مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ اور مولانا معین الدین لکھوی حفظہ اللہ کسی کام کے لیے فیروز پور گئے ۔ بھوک لگی ہوئی تھی ۔ مولانا معین الدین لکھوی کہنے لگے بھائی جان دودھ پینے کو جی چاہتا ہے ۔ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ فرمانے لگے مجھے بہت بھی چاہت ہے ۔ اللہ تعالیٰ دے گا ۔ تھوڑی دیر بعد شہر میں ایک آدمی تپاک سے ملا ۔ جس سے ہم ناواقف تھے وہ اپنے گھر لے گیا اس نے ہم دونوں کو سیر ہو کر دودھ پلایا ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔ کہتے ہیں کہ ایک اللہ والے نے سیب دیکھے ۔ کھانے کو چاہت ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے سیب کا ٹوکرا بھیج دیا ۔ ٹوکرا لانے والے نے سیب اللہ والے کو پیش کئے کہ حضڑت تناول فرمائیں ۔ تو اللہ والے گویا ہوئے ۔ 
کس نے سیب تساں تھیں منگے کس کی آرزوئی
تسیں کہو گھر اپنے اندر گل وی کرے نہ کوئی

1977ء یا 1985ءکی الیکشن مہم کے موقعہ پر مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ کے ساتھ ہم بھی کنگن پور سے الٰہ آباد دفتر آ رہے تھے ۔ جب ہم جمشیر پہنچے تو سردار محمد عاشق ڈوگر مرحوم بھی کیمپین کے لیے سڑک پر آچکے تھے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا سردار محمد عاشق ڈوگر استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے ۔ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نے گاڑی رکوا دی ۔ اور گاڑی سے اتر کر معانقہ کیا ۔ خیر و عافیت دریافت کی ۔ خاندانی طور پر سردار محمد عاشق ڈوگر لکھویوں کے مرید تھے ۔ سردارمحمد عاشق ڈوگر رحمہ اللہ کہنے لگے ۔ مولانا ہم الیکشن لڑ رہے ہیں کامیابی کے لیے دعا فرمائیں ۔ کھڑے کھڑے مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نے چند عربی اجتماعی دعاؤ ں کے بعد یہ اپنی زبان میں دعائیں کیں ۔ کہ اے اللہ جو لوگ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ان میں سے جو تیرے دین کے لیے مخلص ہوں ، قرآن و سنت کو ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہوں ، ملک و قوم کی خدمت کا سچا جذبہ رکھتے ہوں اور ملک و دین کے خیرخواہ ہوں اور خود بھی نیک ہوں اللہ انہیں اس الیکشن میں کامیابی عطا فرما ۔ یہ نہیں کہا کہ تو ہمارے خلاف الیکشن لڑ رہا ہے تیرے لیے دعا کیسی اور کیوں ؟ بلکہ حق والوں کے لیے دعا بھی کی اور مخالفین سے آمین بھی کہلوائی ۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے ۔ اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق فرمائے ۔ اور اللہ تعالیٰ مفکر اسلام مولانا معین الدین لکھوی حفظہ اللہ کو صحت سے نوازے اور ان کا مشفقانہ سایہ دیر تک قائم رکھے ۔ ( آمین ) 
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

( ڈاکٹر علامہ محمد اقبال )

علما اہلحدیث کے دلچسپ واقعات


فقیر نے عالیٰ شان مکان کی طرف ایک نظر دیکھا ۔ پھر اپنے سر کو جھکا لیا ۔ اندر سے طبلہ اور سارنگی کی ملی جلی آواز آ رہی تھی ، فقیر کے چہرے پر کچھ ایسا وقار تھا کہ وہ کسی زاوئیے سے فقیر معلوم نہیں ہوتا تھا ۔ اگر اس کے جسم پر کوئی چیز فقیری کا اعلان کرتی تھی تو وہ اس کا لباس تھا ۔ وہ صدا کرنے والوں کے انداز میں عاجزانہ اس عالی شان مکان کے دروازے پر کھڑا ہوا تھا ۔ یہ طوائفوں کا مکان تھا ۔ پیشہ ور طوائفوں کا جن کا کام عورت کے نسوانی وقار کو خاک میں ملاتے ہوئے جو ہر عصمت کی قربانی دے کر مال وزر اکٹھا کرنا تھا ۔ جو عصمت کے لفظ سے ہی آشنا نہ تھیں ۔ فقیر کو بھی یہ معلوم تھا اس نے جب اپنے استاد کے دروازے پر کھڑے ہوئے کچھ حسین و جمیل عورتوں کو منہ ننگا کئے ہوئے ناز و انداز سے سواریوں پر جاتے دیکھا تو کسی سے پوچھا تھا ۔ یہ کون ہیں تو جواب ملا کہ یہ طوائفیں ہیں اور ایک تقریب میں شرکت کے لیے جا رہی ہیں ۔ اس نے بے ساختہ پوچھا تھا یہ مسلمان ہیں ؟ تو جواب دینے والے نے کہا تھا جی ہاں یہ مسلمان ہیں ۔ تو اس کے دل و دماغ کو سوچوں نے گھیر لیا تھا ۔ اس نے دل میں سوچا تھا کہ یہ تو ہماری مسلمان بہنیں ہیں اگر اللہ نے تم سے یہ پوچھ لیا کہ تم نے انہیں کیوں نہ سمجھایا تو کیا جواب دو گے ۔ پھر وہ کسی نتیجے پر پہنچ گیا تھا ۔ میں ضرور انہیں نصیت کروں گا ۔
اور اب وہ اس مکان کے دروازے پر کھڑا سوچ رہا تھا ۔ کہ مکان والوں کو کیسے مخاطب کروں ۔ اچانک اس کے لبوں سے درد بھری صدا نکلی اللہ والیو ! اے اللہ والیو ! اس کے لبوں سے پھر صدا نکلی چند لڑکیاں دروازے پر نمودار ہوئیں پردے سے بے پروا ان کے چہرے تمتا رہے تھے ۔ کون ہو ؟ ان میں سے ایک نے پوچھا ، فقیر ہوں ۔ کچھ صدا سناؤں گا ۔ دروازہ کھل گیا اندر آجاؤ ۔ لڑکی کی آواز آئی ۔ وہ فقیرانہ انداز سے چلتا ہوا آگے بڑھا پھر لڑکی کی معیت میں اوپر جا پہنچا ۔ جشن کا سماں تھا ۔ ہر طرف رنگ و نور کے منظر بکھر رہے تھے ۔ بڑی بی نائکہ بڑے وقار سے کرسی پر بیٹھی تھی ۔ اور اس کے گرد پروانوں کی طرح لوگ جمع تھے ۔ فقیر اسی انداز سے چلتا ہوا نائکہ کی طرف بڑھا ، نائکہ اسی طرف بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔ اچانک وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ حضرت ! آپ ! آپ نے کیوں زحمت کی ۔ اس نے فقیر کو پہچان لیا تھا وہ ہندوستان کے ایک بڑے علمی گھرانے کا چشم و چراغ تھا اور پھٹے پرانے لباس میں اس کا پرنور چہرہ اور نورانی حلیہ نہ چھپ سکا تھا ۔ نائکہ دم بخود رہ گئی ۔ حضرت اور یہاں ۔ یہ کیا ماجرا ہے ؟
تب فقیر بولا گھبراؤ مت ! کچھ صدا سنانے آیا ہوں ۔ اطمینان سے بیٹھو ۔ ان کے مقدر کا ستارہ چمک اٹھا تھا ، فقیر نے کچھ آیات سوز و گداز سے تلاوت کیں ۔ پھر دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچا اور حسن و شباب کی حقیقت بیان کی ۔ پھر موت کی سختیوں اور اذیتوں کا منظر بیان کیا اس کا انداز اور لہجہ ایسا تڑپا دینے والا تھا کہ دنیا کو تماشوں اور رنگینیوں کا مرکز سمجھنے والے چاند چہرے آنسوؤں سے روشن ہوتے جا رہے تھے ۔ نائکہ اور اس کی نازنین مہوشوں کے دل پسیج رہے تھے ۔ اور ان کو خود پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا ۔ اب فقیر قبر کی صعوبتوں اور تنہائیوں کا ذکر کر رہا تھا اور آنسو اس کے چہرے پر پھیلے ہوئے تھے ۔ لڑکیوں میں ایک کہرام مچ گیا تھا اور دل زبان حال سے پکار رہے تھے کہ حضرت ! بس کریں ۔ اس نے قیامت کے دن کی کربناک اور ہولناک تصویر دکھائی تو آہ و بکا سے عمارت گونجنے لگی ۔ اب وہ رقت آمیز انداز میں توبہ و مغفرت پر بات کرتے ہوئے اللہ کی رحمی و کریمی کی بہار دکھانے لگا تو لڑکیوں نے ہاتھ جوڑ دئیے ۔ حضرت ! نائکہ بول رہی تھی ۔ ہم آج سے توبہ کرتی ہیں ۔ ان کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں ۔ اسی اثناءمیں عام لوگوں کو بھی فقیر کے اس وعظ کی خبر ہو گئی تھی اور مکان کے باہر لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے تھے ۔ وہ حیرت ، آنکھوں میں لیے اس عظمت کے مینار کو دیکھنا چاہتے تھے جس نے ظلمت کی اس آماجگاہ کو اپنے عزم و ہمت کے نور سے روشن کر دیا تھا اور اندر فقیر عصمت کی سوداگروں کو توبہ کی توفیق ملنے پر بارگاہ خداوندی میں جھکا ہوا تھا ۔ کچھ دیر بعد جب وہ اس مکان سے نکلا تو وہ تنہا نہ تھا ۔ بدکار جوانیوں کے پچھتاووں اور ندامتوں کا وہ خزانہ اسکے ساتھ تھا جو اس کے روشن چہرے کو ایک نئی چمک اور طمانیت بخش رہا تھا ۔ یہ فقیر حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ تھے ۔

شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری

چودہ پندرہ سال کا ایک لڑکا اپنی دوکان پر بیٹھا رفوگری کا کام کر رہا تھا ۔ ایک عالم دین دوکان میں داخل ہوا اس نے ہاتھ میں بڑا سا قیمتی چغہ پکڑا ہوا تھا ۔ اس نے وہ چغہ رفوگری کے لیے لڑکے کو دیا ۔ لڑکے نے وعدہ کیا کہ فلاں وقت پر چغہ آپ کو مل جائے گا ۔ حسب وعدہ وہ عالم دین آیا تو کام ہو چکا تھا ۔ عالم دین نے چغہ اٹھایا ۔ اسے الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ کام بہت اچھا ہوا تھا ۔ اس نے کام کی تعریف کی یوں ہی باتیں چل نکلیں ۔ لڑکے نے کچھ سوالوں کے جواب پڑھے لکھے لوگوں کی طرح دئیے ۔ عالم دین بڑا متاثر ہوا بغور لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا ۔ میاں کہاں تک تعلیم پائی ہے ؟ لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ کہنے لگا میں پڑھا لکھا نہیں ہوں ۔ والدین فوت ہو چکے ہیں نہ کوئی پڑھانے والا ہے نہ کمانے والا ۔ رفوگری سے جو چار پیسے کماتا ہوں اس سے بمشکل گزران ہوتی ہے ۔
عالم دین لڑکے کی باتوں سے متاثر ہوا ۔ اس کا دل بھر آیا ۔ لڑکے کی باتوں میں ایک حسرت تھی ۔ تحصیل علم کی حسرت ۔ وہ پڑھنا چاہتا تھا ۔ لیکن مالی لحاظ سے اس قابل نہ تھا ۔ پھر بھی عالم دین نے لڑکے سے کہا ۔ تم ضرور پڑھنے کی کوشش کرو تمہارا دماغ سلجھا ہوا ہے ۔ اس میں حصول علم کی اچھی خاصی صلاحیت ہے ۔ عالم دین اپنا چغہ لے کر چلا گیا ۔ لیکن لڑکا مشکل میں پڑ گیا ۔ اس کے دل میں پڑھنے کی تڑپ اور لگن تو بے انتہا تھی ۔ لیکن جب وہ اپنے حالات کی طرف دیکھتا تو اسے یہ کام مشکل لگتا ۔ اب عالم دین کی باتوں نے اس میں نئی روح پھونک دی تھی ۔ تمام حالات کے باوجود اس نے پڑھنے کا فیصلہ کیا اور پھر کتابوں میں غرق ہو گیا ۔ آج دنیا اس لڑکے کو برصغیر کے سب سے بڑے مناظر مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے ۔
٭ ایک دفعہ حسب معمول مولانا کی محفل سجی تھی ۔ ہر قسم کے لوگ موجود تھے ۔ مرزائی بھی تھے اور شیعہ بھی ۔ ایک شیعہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرنا شروع کر دی ۔ مولانا نے مزاحیہ انداز میں کہا ۔ چھوڑو بھی یار اس پرانے قصے کو ۔ اب تو پنجاب میں ایک ایسا شخص پیدا ہو چکا ہے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بھی افضل ہے ۔ شیعوں کو چاہیے کہ اس کا ذکر کریں ۔ اور اس کی فضیلت کو مان لیں ۔ ایک صاحب نے سوال کیا وہ کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا مرزا قادیان ۔
اس پر مرزائی سٹپٹائے اور غصے سے بولے ۔ کہاں لکھا ہے حضرت صاحب نے کہ میں حسین سے افضل ہوں آپ نے جواب دیا کہ گھبرائیے نہیں ، ابھی بتا دیتا ہوں ۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
اے قوم شیعہ ! اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے ۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے جو حسین سے بڑھ کر ہے ۔
پھر مولانا نے اور بھی ثبوت پیش کئے اور یہ ثابت کر دیا کہ مرزا صاحب نے ایسے ہی کہا ہے ۔ قادیانی بیچارے پریشان ہو گئے اور خاموش ہو کر بیٹھ گئے ۔ جبکہ دوسرے لوگ مولانا کی معلومات پر حیران رہ گئے ۔

امام العصر حضرت حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ 

مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ہسپتال میں داخل تھے ۔ اور ان کا آپریشن ہونے والا تھا ۔ آپریشن کے وقت ایک ڈاکٹر مولانا کے پاس پہنچا تا کہ بے ہوشی کا ٹیکہ لگایا جائے ۔ وہ ٹیکہ لگانے لگا تو مولانا نے پوچھا ۔ یہ کیا کر رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ بے ہوشی کا ٹیکہ لگا رہا ہوں ۔ رات کا وقت تھا ۔ اور رات کو سوتے وقت سورۃ ملک پڑھی جاتی ہے ۔ مولانا نے فرمایا ۔ ٹھہرو ، ابھی بے ہوشی کا ٹیکہ نہ لگاؤ ۔ جب سے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سنا ہے کہ رات کو سورۃ ملک پڑھا کرو ۔ میں کبھی اس کے بغیر نہیں سویا ۔ یہ کہہ کر مولانا نے سورۃ ملک کی تلاوت شروع کر دی ۔ جب انہیں پڑھتے دیر ہو گئی تو ڈاکٹر اکتا گیا اس نے سوچا ۔ یہ تو نہ جانے کتنی دیر اور پڑھیں گے ۔ اسے جلدی تھی ۔ مولانا اپنے دھیان میں تلاوت کر رہے تھے ۔ اس نے ٹیکہ لگا دیا ۔ لیکن وہ حیران رہ گیا ۔ اس نے دیکھا کہ بے ہوشی کے باوجود مولانا کے لب ہلتے جا رہے تھے اور اس وقت تک ہلتے رہے جب تک سورۃ ملک ختم نہ ہو گئی ۔ ڈاکٹر اتنا حیران ہوا کہ وہ ایک عرصے تک اپنے ملنے والوں کو یہ واقعہ سناتا رہا ۔
٭ ایک درفعہ مولانا سیالکوٹی ایک جلسے میں تقریر کر رہے تھے ۔ تقریر کے دوران ہی لاؤڈ سپیکر میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی ۔ ایکسپرٹ نے اسے ٹھیک کرنا چاہا ۔ جب بار بار سپیکر کی آواز خراب ہونے لگی تو مولانا جلال میں آ گئے ۔ ، اور سپیکر کو اٹھا کر سٹیج سے نیچے رکھ دیا ۔ اور ماہر سے کہا اسے سٹیج پر نہ رکھنا جب تک تمہیں اطمینان نہ ہو ۔ اور بغیر لاؤڈ سپیکر کے تقریر شروع کر دی ۔ مولانا نے چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا ۔ اور کہا ۔ اے اللہ ! اگر تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز مدینہ کے منبر سے ہزاروں میل کے فاصلے پر حضرت ساریہ تک پہنچا سکتا ہے ۔ تو مجھ فقیر ابراہیم کی آواز بھی اس سارے مجمعے تک پہنچا دے ۔
پھر مولانا بغیر سپیکر کے بولتے رہے اور آواز سارے مجمعے تک پہنچتی رہی ۔

بطل حریت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ

1953 ءکی قادیانیت مخالفت کی تحریک چلی تو دینی جماعتوں کا ایک اتحاد بنا ۔ جس کا نام مجلس عمل رکھا تھا ۔ اس کے سربراہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ تھے ۔ حکومت نے تمام رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ۔ اور اس مسئلے کی تحقیق کے لیے ۔ جسٹس منیر اور جسٹس کیانی کو مقرر کیا گیا ۔ مولانا داؤد غزنوی نے اپنے لیے مشہور ماہر قانون سیدحسین شہید سہروردی کو وکیل مقرر کیا ۔ لیکن مسئلے کی پیچیدگیوں کی وجہ سے انہوں نے معذرت کر لی ۔ مولانا نے اپنے کیس کی پیروی خود کی ۔ ایک دن کمرہ عدالت لوگوں سے بھرا ہوا تھا ۔ مولانا وکیل کے طور پر موجود تھے ۔ جسٹس منیر نے ان کوزچ کرنے کے لیے اہل حدیث اور غیر اہلحدیث کی باتیں شروع کر دیں ۔
جسٹس منیر نے پوچھا ۔ کیا آپ کے دادا مولانا سید عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ مرحوم کو والی افغانستان نے اس لیے ملک بدر کر دیا تھا کہ وہ اہلحدیث تھے اور احناف انہیں برداشت نہ کرتے تھے ۔
مولانا بولے نہیں یہ بات نہیں ہے ۔ ان کو اس لیے ملک سے نکالا گیا تھا کہ وہ اپنے دور کے بہت بڑے ولی اللہ تھے اور ان کا حلقہ ارادت اس قدر وسعت اختیار کر گیا تھا ۔ کہ حکومت کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ وہ حکومت پر قابض ہو جائیں گے ۔
جسٹس منیر کا خیال تھا کہ اس سوال کا مولانا جواب نفی میں نہ دے سکیں گے انہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا اور یوں یہ ثابت ہو جائے گا کہ اہلحدیث کو عام مسلمان پسند نہیں کرتے ۔ لیکن مولانا اس وار سے صاف بچ نکلے ۔ اب جسٹس منیر ایک نیا دام لائے اور پوچھا ۔ کیا آپ یا ” شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ کہنے والے کو مشرک قرار دیتے ہیں ؟
مولانا نے جواب دیا ۔ اس کا انحصار کہنے والے کی نیت پر ہے ہر اس شخص کو جو یہ الفاظ زبان سے نکالتا ہے مشرک قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ابھی آپ نے یہ الفاظ زبان سے نکالے ہیں ۔ لیکن آپ کو مشرک نہیں کہا جائے گا ۔ جسٹس منیر نے پوچھا ۔ آپ عبدالوہاب کو اپنا مذہبی رہنما مانتے ہیں ؟ مولانا نے اس کا انکار کیا ۔ جسٹس منیر نے پھر اصرار کیا ۔ مگر آپ نے فرمایا ، قطعی نہیں ۔ اس نے تیسری مرتبہ کہا ۔ آپ نے سختی سے کہا کہ ایسا نہیں ہے ۔ اب جسٹس منیر نے گھبراکر سوالات والا کاغذ تلاش کرنا شروع کر دیا ۔ اب آپ نے پوچھا ۔ غالباً آپ کی مراد محمد بن عبدالوہاب سے ہے ۔ منیر نے جواب دیا ، جی ہاں ۔ آپ نے کہا ۔ وہ عبدالوہاب نہیں ۔ محمد بن عبدالوہاب ہیں ۔
منیر صاحب نے چڑ کر کہا ۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ آپ نے فرمایا ۔ واہ ! باپ اور بیٹے کا فرق آپ کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے ؟
اس کے بعد جسٹس منیر خاموش ہو گئے ۔ اور انہوں نے اس کے بعد کوئی سوال نہ کیا ۔ لیکن جسٹس اے آر کیانی مولانا کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے مولانا کی تعریف کرتے ہوئے کہا ۔ مولانا میرے بس میں ہوتا تو میں آپ کو وکالت کا لائسنس دے دیتا ۔

شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ

مرکزی جمعیت اہلحدیث کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں بعض اوقات بڑی دلچسپ اور پرلطف باتیں ہوتی تھیں ۔ مولانا سلفی لباس کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی سادہ تھے ۔ ایک اجلاس میں مولانا نے تہبند باندھا ہوا تھا ۔ مولانا عطاءاللہ حنیف جو تقویۃ الاسلام میں شیخ الحدیث تھے ۔ انہوں نے بھی تہبند باندھ رکھا تھا ۔ مولانا سید داؤد غزنوی کی زیر صدارت یہ اجلاس ہو رہا تھا ۔ مولانا محی الدین قصوری نے مولانا سید داؤد غزنوی کو مخاطب کیا اور بولے ۔ جناب صدر ! اپنے ناظم اعلیٰ کو دفتری لباس اور دفتری آداب سے آگاہ فرمائیے ۔ ان کا اشارہ مولانا سلفی کی طرف تھا ۔ پھر مولانا حنیف ندوی بولے ۔ جناب صدر ! اپنے شیخ الحدیث سے صحیح بخاری کا کتاب اللباس پڑھنے کی درخواست کیجےے ۔ ان دونوں حضرات نے تو یہ بات مذاق کے طور پر کی تھی لیکن مولانا غزنوی لباس کے معاملے میں بڑا نفیس ذوق رکھتے تھے ۔ انہوں نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا ۔ اور فرمایا ، مولانا عطاءاللہ صاحب کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ البتہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ مولانا اسماعیل صاحب کو صدر کی حیثیت سے حکم دیتا ہوں کہ وہ آئندہ تہبند باندھ کر دفتر نہ آیا کریں ۔ شلوار اور شیروانی پہن کر اور عمامہ باندھ کر دفتر تشریف لایا کریں ۔
مولانا اسماعیل صاحب نے مولانا قصوری سے دفتر سے نکلتے ہی مسکرا کر کہا ۔ میں اور مولوی عطاءاللہ دو درویش تم میں آ پھنسے ہیں ہمیں کیوں تنگ کرتے ہو ؟

متکلم اسلام مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ

مولانا حنیف ندوی ایک دفعہ مولانا سید سلیمان ندوی سے ملنے کے لیے گئے ۔ مولانا سلیمان ندوی ان دنوں لاہور آئے ہوئے تھے اور ان کا قیام جامعہ اشرفیہ میں تھا ۔ اس وقت مولانا سید سلیمان ندوی مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ بیعت میں شامل ہو گئے تھے ۔ مولانا حنیف ندوی کا استقبال سید صاحب نے بڑی مسرت سے کیا ۔ اور ان کی خیریت پوچھی پھر مولانا حنیف ندوی نے سید صاحب سے کہا ۔ آپ نے ” سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کو بہشتی زیور کے قدموں میں ڈال دیا ہے ۔ مولانا کی یہ بات بڑی ذو معنی تھی ۔ بہشتی زیور مولانا تھانوی کی کتاب ہے ۔ اور سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سید صاحب نے لکھی ہے ۔ سید صاحب مسکراتے ہوئے بولے ۔ آپ ہماری عمر کو پہنچیں گے تو آپ بھی یہی کریں گے ۔ مولانا حنیف ندوی نے برجستہ جواب دیا ۔ میرا بھی یہی خیال کہ آپ پر عمر کا اثر ہے ۔ یہ سن کر مولانا ندوی مسکرا کر خاموش ہو گئے ۔
٭ عیدالفطر کا دوسرا دن تھا ۔ مولانا ندوی اور مولانا اسحاق بھٹی ، مولانا عطاءاللہ حنیف سے عید ملنے کیلئے پہنچے ۔ مولانا عطاءاللہ ، مولانا حنیف ندوی کے لیے چائے منگوایا کرتے تھے ۔ لیکن اس دن بھول گئے ۔ مزے مزے کی باتیں ہو رہی تھیں لیکن عید کے دن بھوکا رہنا بڑا صبر آزما ہوتا ہے ۔ اور مولانا عطاءاللہ ہیں کہ باتیں کئے جا رہے ہیں لیکن چائے کی طرف خیال ہی نہیں جا رہا ۔ آخر مولانا حنیف ندوی سے نہ رہا گیا ۔ آہستہ سے بولے ۔ مولانا ! آپ کا رمضان ابھی ختم نہیں ہوا ؟ یہ سن کر مولانا عطاءاللہ مسکرا دئیے اور فوراً چائے منگوالی ۔

امیر المجاہدین مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ

ایک دفعہ مولانا کے قتل کی سازش کی گئی اور ایک آدمی کو بھیجا گیا کہ مولانا کو قتل کر دے ۔ مولانا ایک جگہ مہمان گئے تھے ۔ مولانا نے صبح کی نماز پڑھی اور وظیفہ کرنے کے بعد وہیں لیٹ گئے ۔ لیٹے ہوئے تھے کہ قتل کا ارادہ لے کر جانے والا آدمی کلہاڑی اٹھائے وہاں پہنچا لیکن اسے کلہاڑی سر سے بلند کی تھی کہ کسی چیز نے اسے اٹھایا اور عمارت سے باہر پھینک دیا ۔ وہ مسجد سے دور کسی ڈھلوان جگہ پر گرا اور اسے چوٹیں آئیں ۔ اس نے کراہنا شروع کر دیا ۔ پھر اونچی آواز میں چیخنے لگا ۔ اس کی آواز سن کر مولانا نیند سے بیدار ہوئے ۔ اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے ۔ اس نے سارا واقعہ بیان کیا اور مولانا سے معافی مانگی ۔ مولانا نے اسے معاف کر دیا ۔

امیر المجاہدین صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ( مامونکانجن )

ایک دفعہ جامعہ ( جو صوفی صاحب نے مامونکانجن میں بنایا ) کے اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ کے لئے ساٹھ ہزار روپے کی ایمرجنسی ضرورت پڑ گئی ۔ اور یہ رقم صبح تک چاہئے تھی اور ہر صورت ۔ بظاہر کوئی ذریعہ نہ تھا ۔ اور یہ اس دور میں آج سے 35,40 سال پہلے بہت بڑی رقم تھی ۔ اللہ والوں کے پاس دعا کا سرمایہ ہی ہوتا ہے ۔ صوفی صاحب نے ایک طالب علم کو ساتھ لیا ۔ عشاءکے کافی دیر بعد جامعہ سے باہر نکلے ۔ جامعہ کے پیچھے قبرستان ہے اور اس کے ساتھ کھیل کے دو گراؤنڈ ہیں ۔ وہاں طالب علم سے کہا ۔ تم سو جاؤ ۔ اور اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی ۔ وہ لیٹ گیا ۔ جب اندازہ کر لیا کہ وہ سو گیا ہو گا تو سجدے میں ننگی زمین پر اپنا سر رکھ دیا ۔ اور دعا مانگنے لگے ۔ جیسے کوئی اپنے دوست سے کوئی چیز مانگتا ہے ۔ اللہ والوں کے خالق حقیقی سے رابطے ہوتے ہیں ۔ آنسو آپ کے چہرے کو بگھو رہے تھے اور ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔ اے اللہ ! آپ نے خود مجھے کہا ۔ مدرسہ بناؤ ۔ یہ مدرسہ میں نے اپنے لئے نہیں بنایا ۔ اپنے باپ کے لئے نہیں بنایا ۔ یہ میں نے تیرے لئے بنایا ہے ۔ اب مجھے دو ساٹھ ہزار ۔ اے اللہ مجھے یہیں ساٹھ ہزار عطا فرما ۔ میں نے کہیں نہیں جانا ۔ جیسے پیار کی باتیں ہوتی ہیں ۔ بار بار کہے جا رہے ہیں ۔ مجھے صبح تک ساٹھ ہزار کی ضرورت ہے ۔ روئے جا رہے ہیں ۔ روئے جا رہے ہیں ۔ طالب علم جاگ رہا تھا ۔ صبح کی نماز سے پہلے دو سیٹھ کراچی سے آئے ۔ ان کے ہاتھوں میں بریف کیس پکڑے ہوئے تھے ۔ صوفی صاحب سے ملے اور بولے ۔ لو جی پکڑو اپنا ساٹھ ہزار ۔ ہمیں تو انہوں ( نام نہیں لیا ) نے رات کو سونے نہ دیا کہ جاؤ مامونکانجن صوفی صاحب کو ساٹھ ہزار روپیہ دے کے آؤ ۔

شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمہ اللہ

ایک دفعہ مولانا ایک ایسی جگہ تقریر کرنے کے لئے گئے جہاں غیر اہلحدیث لوگ بستے تھے ۔ مولانا نے تقریر کی ۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا موضوع تھا ۔ لوگ بڑے متاثر ہوئے ۔ ایک مولوی صاحب نے تقریر شروع کر دی اور اہلحدیث کو گالیاں نکالنا شروع کر دیں ۔ فرمایا کہ ان کا قرآن مت سنو ۔ یہ دھوکہ دینے کے لئے قرآن پڑھتے ہیں ۔ گالی تو ہر مسلک میں بری ہے ۔ مولانا اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے ۔ مولانا صاحب ! گالیاں مت دو ۔ سیرت بیان کرو ۔ مولوی صاحب نے مناظرے کا چیلنج کر دیا ۔ مولانا محمد حسین سارے مجمع میں اکیلے اہلحدیث تھے ۔ سٹیج پر چلے گئے ۔ مولوی صاحب سے علم غیب پر مناظرہ طے ہوا ۔ مولانا محمد حسین نے صرف ایک سوال کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں جب جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں پھینکیں اور وہ سانپ بن گئیں ۔ حضرت کو حکم ہوا کہ اپنا عصا زمین پر پھینکئے ۔ حضرت نے اسے زمین پر رکھا تو وہ اژدھا بن گیا ۔
اب حضرت موسیٰ علیہ السلام ڈر گئے اور پیچھے ہٹ گئے ۔ پھر حکم ہوا ۔ مت ڈریں ۔ آپ ہی کو کامیاب ہونا ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اگر غیب جانتے تھے تو یہ جاننے کے باوجود کہ یہ اصل میں ان کا عصا ہی ہے ۔ پیچھے کیوں ہٹے اور کیوں بھاگے ؟ مولوی صاحب جلال میں آگئے اور اونچی آواز میں بولے ۔ تم غلط کہتے ہو ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ سانپ بھاگ گیا تھا ۔ تو وہابی موسیٰ علیہ السلام کی شان کیا جانے ۔ مولانا نے مسلک اہلسنت کے مشہور علماءکے اقوال ان کی تفسیروں سے دکھا دئیے ۔ جن میں اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی بھی شامل ہیں ۔ مولوی صاحب لاجواب ہو گئے ۔ اب وہ مجمعے کو اکسانے لگے ۔ ان کا خیال تھا کہ یہ اکیلا اہلحدیث ہے ۔ اس کو خوب خراب کیا جائے گا ۔ اسی اثناءمیں چند نوجوان مولانا محمد حسین کے گرد کھڑے ہو گئے ۔ اور انہیں وہاں سے لے گئے ۔ اللہ نے ان کی حفاظت کا سامان کر دیا ۔ کئی سال بعد انہیں مولوی صاحب کی مولانا محمد حسین سے ملاقات ہوئی ۔ وہ بوڑھے تھے ۔ مولانا بڑے شگفتہ مزاج انسان ہیں ۔ پوچھا ۔ مولانا ! وہ سانپ ابھی بھاگتا ہی جا رہا ہے یا رک گیا ہے ؟ مولانا صاحب یہ مذاق سن کر مسکرا دئیے اور خاموش رہے ۔

شہیدملت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ

ایک دفعہ فیصل آباد خطاب کرنے گئے تو اس شہر میں ان پر پابندی تھی ۔ ایک اے ۔ ایس ۔ آئی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ پر یہاں پابندی ہے ۔ انہوں نے پوچھا کس پر پابندی ہے ۔ کہنے لگا ۔ جی احسان الٰہی ظہیر پر ۔ انہوں نے کہا ۔ بھئی مجھ پر پابندی نہیں لگا کرتی ۔ پھر کہنے لگے ۔ کہاں ہے پابندی ؟ اے ۔ ایس ۔ آئی نے کاغذات ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا ۔ جی یہ ہے ۔ پابندی ۔ انہوں نے کاغذات اس کو واپس دیتے ہوئے کہا ۔ بھئی میں انگریزی نہیں جانتا ۔ چلو نماز پڑھو ۔ نماز کے بعد انہوں نے حکومت کے خلاف سخت تقریر کی ۔ واپس جانے لگے تو اے ۔ ایس ۔ آئی کاغذات لے کر پھر آ گیا اور کہنے لگا کہ اس کاغذ پر دستخط کر دیں ۔ انہوں نے اس کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔ تم عجیب اے ۔ ایس ۔ آئی ہو ۔ تمہیں تو اس کاغذ پر میرے دستخط فیصل آباد میں میرے داخل ہونے سے پہلے لینے چاہئے تھے ۔ اب جب کہ تقریر سے فارغ ہو چکا ہوں ۔ ان دستخطوں سے فائدہ ؟ چلو اب وقت نکال کر کبھی لاہور آجانا میں بالکل دستخط کروں گا ۔

حضرت مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ

مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کے زمانے کا ذکر ہے ۔ ایک نوجوان کو گھنٹھیا ہو گیا ۔ جسم کے جوڑوں نے کام کرنا بالکل بند کر دیا ۔ اس کے باپ نے اس کو گٹھڑی بنا کر گھوڑے پر لادا ۔ اور مولانا کی مسجد میں پہنچ گیا ۔ وہاں پہنچے تو جماعت ہو رہی تھی ۔ اس نے اپنے بیٹے کو اسی طرح مسجد میں ایک جگہ رکھ دیا اور نماز پڑھنے لگا ۔ بعد میں اس نے مولانا سے ساری بات کہہ دی ۔ مولانا نے نوجوان کو دم کیا ۔ وہ نوجوان بالکل ٹھیک ہو گیا ۔ یہاں تک کہ تندرست ہو کر مسجد سے نکلا ۔ حالانکہ اس کے باپ نے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔ بعد میں نوجوان خود بتایا کرتا تھا کہ مولانا دم کر رہے تھے اور میرے جسم کے جوڑ اپنے آپ کھلتے جا رہے تھے ۔
 

حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ

ایک دفعہ میاں صاحب حج کے لیے سعودی عرب گئے تو مخالف علماءنے آپ پر بہت سے الزامات لگائے اور وہاں کے حاکم کو شکایت کر دی ۔ وہاں ان دونوں پاشاؤں کا راج تھا ۔ میاں صاحب کے خلاف شکایت بھی پاشا کو کی گئی تھی ۔ میاں صاحب کو حکومت کے دفتر میں طلب کیا گیا ۔ اور مخالف علماءکے الزامات کی روشنی میں ان سے کچھ سوالات پوچھے گئے ۔ میاں صاحب نے نہائت عمدہ جواب دئیے جس سے پاشا بہت متاثر ہوا ۔ ترجمان درمیان میں بیٹھا ہوا تھا ۔ میاں صاحب نے اس کے ذریعے پاشا سے پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے ۔ نیشاپور اس نے بتایا ۔ یہ سن کر میاں صاحب نے صائب نیشاپوری کا ایک شعر سنایا ۔ پاشا بہت خوش ہوا اس نے میاں صاحب کو اپنے ساتھ بٹھایا ۔ ان سے معذرت کی اور دعا کی درخواست کی پھر دوسرے حاکم کے لیے ایک خط بنا کر دیا ۔ اس کے بعد بھی مخالفین نے کوشش کی لیکن ناکام رہے اور میاں صاحب کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔ اس وقت میاں صاحب روزانہ منیٰ میں واعظ کہتے تھے ۔ اور مخالفین ان کے قتل کے منصوبے بنا رہے تھے ۔ کیوں کہ ان کا واعظ توحید اور سنت کا ترجمان تھا ۔ خیر خواہوں نے عرض کیا کہ میاں صاحب ! آپ کی جان کو خطرہ ہے ۔ وعظ بند کر دیں ۔ تو میاں صاحب نے جواب دیا ۔ سنو صاحب ! بہت جی چکا ۔ اب زندگی کی تمنا نہیں ہے ۔ امام نسائی بھی مکہ میں شہید ہوئے تھے اسی حرم میں ، جہاں میرے قتل کا منصوبہ بن رہا ہے ۔ میں ہر وقت قتل ہونے کے لیے تیار ہوں ۔ اور جب پاشا میاں صاحب کو اپنے ہاتھوں سے قہوہ بنا کر دے رہا تھا ۔ مخالفین کی امیدوں کے محل دھڑام سے نیچے آگرے ۔
پھر ایک دن دہلی ریلوے سٹیشن پر لوگوں کی سر ہی سر نظر آرہے تھے ۔ عوام کو اتنا ہجوم تھا کہ پلیٹ فارم کا کٹ ختم ہو گیا ۔ جب پوچھا گیا کہ کیا معاملہ ہے تو پتہ چلا کہ آج میاں صاحب حج سے واپس آ رہے ہیں اور یہ لوگ ان کے استقبال کے لیے آئے ہیں ۔
میاں صاحب فقیر منش انسان تھے ۔ اسی 80 سال تک دہلی میں رہنے کے باوجود آپ نے اپنا ذاتی مکان بھی تعمیر نہ کروایا اور کرائے کے ایک معمولی سے مکان میں زندگی گزار دی ۔ ایک دفعہ آپ کے پوتے نے آپ کے مشہور شاگرد حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ سے عرض کیا ۔ کہ ہم کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں ۔ آپ میاں صاحب سے کہیں کہ ہمیں اپنا مکان ہی بنوا دیں ۔ حافظ صاحب نے جواب دیا ۔ میری کیا مجال ہے کہ میں آپ رحمہ اللہ سے کچھ عرض کر سکوں ۔ جس شخص نے 80 سال تک اسی طرح زندگی گزار دی ہو ۔ میں شاگرد ہو کر اس کے نقطہ نظر کو کس طرح بدل سکتا ہوں ۔
میاں صاحب کے شاگردوں میں انسانوں کے علاوہ جن بھی شامل تھے ۔ ایک صبح میاں صاحب نے اپنے شاگردوں کو بتایا ۔ آج رات اس کمبخت نے ہم کو سونے نہ دیا ۔ کبھی اس طرح سے پاؤں آ دباتا کبھی اس طرف سے ۔ اس وقت میاں صاحب اپنے ایک شاگرد جن کا ذکر کر رہے تھے ۔ پھر جس دن میاں صاحب کا انتقال ہوا ۔ بہت سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر تھے ۔ اچانک آپ نے گھر کی عورتوں کو حکم دیا ۔ پردہ کر دیا ۔ دیر تک سلام کا جواب دیتے رہے ۔ پھر آپ نے سورہ جن تلاوت کی اور وعظ شروع کر دی ۔ وعظ ختم کر کے بھی بار بار سلام کا جواب دیتے رہے ۔ کچھ دیر بعد آپ نے عورتوں کو حکم دیا ، آجاؤ ۔ جن لوگوں کو آپ وعظ سنا رہے تھے ۔ اور ان کے سلام کا جواب دے رہے تھے ۔ وہ آپ کے جن شاگرد تھے ۔ جو آخری وقت آپ سے وعظ و نصیحت سننے آئے تھے ۔

Monday, February 7, 2011

اخلاق و عادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

نبی صلى الله عليه وسلم کی جو تعریف کی جاتی ہے وہ ان مکارم اخلاق اور بہترین عادات و خصائل کی وجہ سے ہے ، جس پر اللہ تعالٰی نبی صلى الله عليه وسلم کو پیدا کیا ۔ہے ۔ بے شک نبی صلى الله عليه وسلم کے اخلاق و عادات پر نظر ڈالے گا تو وہ ضرور اعتراف کرے گا کہ یہی بہترین اخلاق ہیں ۔ بے شک نبی صلى الله عليه وسلم تمام مخلوق سے علم میں وسیع ، امانت میں عظیم تر ، گفتگو میں نہایت سچے اور موزوں کمال ، کمال سخی بہت زیادہ برباد اور عفو و مغفرت میں بزرگ تر تھے ، کوئی شخص کیسی ہی بڑھ کر جہالت سے پیش آتا ، نبی صلى الله عليه وسلم کو برداشت فرماتے ۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے یوں روایت کی ہے کہ تورات میں نبی
صلى الله عليه وسلم
کی صفت اس طرح سے ہے ۔

‘‘ محمد
صلى الله عليه وسلم
میرا بندہ و رسول ہے ۔ میں نے اس کا نام متوکل رکھا ہے وہ بدزبان درشت طبع ، بازاروں میں آواز لگانے والا نہیں ۔ وہ بدی کا بدلہ نہیں لیتا ، بلکہ وہ معاف کرتا ہے اور بخشش دیتاہے ، میں اسے وفات نہ دوں گا جب تک بگڑی ہوئی ملت کو اس سے درست نہ بنوا دوں گا ۔ میں اس سے کور بصیرتوں کی آنکھوں کو روشن کراؤں گا اور بہروں کو سماعت ۔ وہ دلوں کے پردے اٹھا دے گا ۔ یہاں تک کہ لوگ لا الہ الا اللہ کہنے لگیں ۔''

نبی
صلى الله عليه وسلم مخلوق میں سب بڑھ کر رؤف رحیم اور دینی و دنیوی منفعت بخشنے میں سب سے زیادہ عظیم ، جوامع الکلم تھے ۔ اور بڑی بڑی عبارات کا مفہوم مختصر انداز میں بیان کر دینے میں تمام خلقت سے زیادہ فصیح و خوش گفتار تھے صبر کے موقعے پر کمال درجہ صابر اور مقامات لقا میں نہایت ہی باصدق ۔ عہد و حمایت میں نہایت کامل اور انعام و عطا بخشی میں سب سے بڑھ کر - تواضع میں کمال درجہ بڑھے ہوئے اور جودو سخا میں سب سے آگے نکلے ہوئے ۔ اوامر میں نہایت محکم و مضبوط ، نواہی میں بہت ہی تارک و نافر ۔ محبت و پیار ، اعزاپروری ، اقربا پروری میں دنیا بھر سے زیادہ اور اس شعر کے پورے پورے مصداق تھے

Thursday, February 3, 2011

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت حضرت ابو درداء سے روایت ہے ' انہوں نے فرمایا کہ میں نبی کریم ۖ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔اتنے میں ابوبکر صدیق اپنی چادر کا کنارہ اٹھائے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ کا گھٹنا ننگا ہو گیا۔نبی ۖ نے فرمایا:''تمہارے دوست کسی سے لڑ کر آئے ہیں ۔پھر حضرت ابوبکر نے سلام کیااور کہا کہ میرے اور ابن خطاب کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا تھا۔میں نے جلدی سے انہیں سخت سست کہہ دیا۔پھر میں شرمندہ ہوا(اور ان سے معذرت کی)لیکن انہوں نے انکار کر دیااب میں آپ ۖ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔آپ ۖ نے فرمایا اے ابوبکر ! اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے'آپ ۖ نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔پھر ایسا ہوا کہ حضرت عمر شرمندہ ہوئے اور حضرت ابوبکر کے گھر پرآئے اور دریافت کیا کہ ابوبکر یہاں موجود ہیں؟گھر والوں نے جواب دیا:نہیں۔پھر حضرت عمر نبی ۖ کے پاس گئے اور انہیں سلام کیا۔انہیں دیکھ کر نبی ۖ کے چہرے کا رنگ ایسا متغیر ہوا کہ ابوبکر ڈر گئے اور دو زانو بیٹھ کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ۖ!اللہ کی قسم میں نے ہی زیادتی کی تھی۔اس وقت نبی ۖ نے فرمایا:'اے لوگو!اللہ نے مجھے تمہاری طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تو تم لوگوں نے مجھے جھوٹا کہہ دیا اور ابوبکر نے مجھے سچا کہا اور انہوں نے اپنے مال اور جان سے میری خدمت کی۔کیا تم میری خاطر میرے دوست کو ستانا چھوڑ سکتے ہو؟اور آپ ۖ نے یہ دو مرتبہ فرمایا۔اس ارشاد گرامی کی بعد حضرت ابو بکر کو پھر کسی نے نہیں ستایا۔
فوائد:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی انسان کے سامنے اسکی تعریف کرنا جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب اس کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہواگر اس کی تعریف سے اس کے اندر خود پسندی پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو اجتناب کرنا چاہئے (فتح الباری:٣١/٧)
٢:اس حدیث سے حضرت ابوبکر صدیق کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ جو حضرت ابوبکر صدیق سے عداوت رکھتا ہے وہ درحقیقت نبی کریم ۖ سے عداوت رکھتا ہے اور جو نبی ۖ سے عداوت رکھے گا تو عین اس کی عداوت اللہ سے ہو گی۔اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق سے محبت اللہ اور اس کے رسول ۖ کی محبت ہے۔
حوالہ:رواہ بخاری:٣٦٦١


حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی ۖنے انہیں غزوہ ذات السلاسل میں امیر بنا کر بھیجا تھا'وہ کہتے ہیں کہ جب میں واپس آپ ۖ کے پاس آیا تو میں نے عرض کیا کہ سب لوگوں میں سے کون شخص آپ کو زیادہ محبوب ہے؟آپ ۖ نے فرمایا:عائشہ رضی اللہ عنھا!میں نے عرض کیا مردوں میں سے کون؟آپ ۖ نے فرمایا ان کے والد گرامی(ابوبکر صدیق )میں نے پوچھا پھر کون؟فرمایا پھر عمر بن خطاب اس طرح درجہ بہ درجہ آپ ۖ نے کئی آدمیوں کے نام لئے۔(حوالہ:رواہ بخاری:٣٦٦٢)
فوائد:واقعہ یہ تھا کہ جس مہم میں حضرت عمرو بن عاص کو امیر بنا کر بھیجا گیا تھا اس دستے میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر بھی موجود تھے'اسی بنا پر حضرت عمروبن عاص کے دل میں خیال گزرا کہ شاید وہ ان سب سے افضل ہیں اسی لئے انہیں امیر بنا یا گیا ہے۔(فتح الباری:٣٢/٧)
 
٭حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے 'انہوں نے فرمایا کہ ایک عورت نبی ۖ کے پا س آئی تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ پھر آپ کے پاس آئے۔اس نے کہا کہ میںپھر آئوں اور آپ کو نہ پائوں'اس سے اس کی مراد وفات تھی۔آپ نے فرمایا اگر مجھے نہ پائو تو ابوبکر کے پاس چلے جانا۔(حوالہ:روا ہ بخاری:٣٦٥٩)
فوائد:اس حدیث سے رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر کے خلیفہ ہونے کااشارہ ملتا ہے،نیزاس میں ان شیعہ حضرات کی تردید ہے جو دعوٰی کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے حضرت علی اور حضرت عباس کو خلیفہ بنانے کی وصیت کی تھی۔(فتح الباری:٢٨/٧)
٭حضرت عمار سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ۖ کو اس وقت دیکھا جب آپ کے ساتھ پانچ غلاموں 'دو عورتوں اور حضرت ابوبکر کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
فوائد:حضرت عمار کا مطلب ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق آزاد لوگوں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے اسلام کا برسر عام اظہار کیا تھا ویسے بے شمار ایسے مسلمان موجود تھے جو اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھے(فتح الباری:٢٩/٢)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

از میمونہ ظفر


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہمدم سید المرسلین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ، جگر گوشہ خلیفة المسلمین، شمع کاشانہء نبوت، آفتاب رسالت کی کرن، گلستان نبوت کی مہک، مہر ووفا اور صدق وصفا کی دلکش تصویر، خزینہ ئِ رسالت کا انمول ہیرا، جس کی شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں ۔ جس کو تعلیمات نبوی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر عبور حاصل تھا ۔ جسے اپنی زندگی میں لسان رسالت سے جنت کی بشارت ملی۔ جسے ازواج مطہرات میں ایک بلند اور قابل رشک مقام حاصل تھا۔ جو فقاہت، ثقاہت ، امانت ودیانت کے اعلیٰ معیار پر فائز تھیں۔

ولادت :
حضرت ام رومان کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا تھا۔ عبداللہ کے انتقال کے بعد وہ ابوبکر کے عقد میں آئیں ۔ حضرت ابوبکر کے دو بچے تھے ۔ عبدالرحمن اور عائشہ ۔حضرت عائشہ کی تاریخ ولادت سے تاریخ وسیر کی تمام کتابیں خاموش ہیں ۔ ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے۔

نام :
نام عائشہ تھا ۔ ان کا لقب صدیقہ تھا ۔ ام المومنین ان کا خطاب تھا ۔ نبی مکرم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنت الصدیق سے بھی خطاب فرمایا ہے ۔اور کبھی کبھار حمیرا سے بھی پکارتے تھے۔

کنیت :
عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے ۔ چونکہ حضرت عائشہ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے حسرت کے ساتھ عرض کیا کہ اور عورتوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے ، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ فرمایا : اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر رکھ لو''۔
چنانچہ اسی دن سے ام عبداللہ کنیت قرار پائی۔

نکاح:
ہجرت سے ٣ برس پہلے سید المرسلین سے شادی ہوئی۔ ٩ برس کی عمر میں رخصتی ہوئی ۔ سیدہ عائشہ کے علاوہ کسی کنواری خاتون سے نبی کریم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے شادی نہیں کی ۔ ابھی ان کا بچپن ہی تھا کہ جبریل علیہ السلام نے ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر ان کی تصویر رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو دکھلائی اور بتایا کہ یہ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی دنیا وآخرت میں رفیقہ ئِ حیات ہے۔ سیدہ عائشہ کا مہر بہت زیادہ نہ تھا صرف 500 درہم تھا ۔

فضائل وکمالات:
حضرت عمرو بن عاص نے ایک دفعہ رسول اقدس محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا : ''عائشہ'' عرض کی مردوں میں کون ہے؟ فرمایا : اس کا باپ ۔ ایک دفعہ حضرت عمر نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ ام المومنین کو سمجھاتے ہوئے کہا :بیٹی عائشہ کی ریس نہ کیا کرو ، رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل میں اس کی قدر ومنزلت بہت زیادہ ہے ۔
رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
''مردوں میں بہت کامل گزرے لیکن عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے سوا کوئی کامل نہ ہوئی اور عائشہ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر''۔
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ پوری امت کی عورتوں سے زیادہ عالمہ ، فاضلہ ، فقیہہ تھیں ۔
عروہ بن زبیر کا قول ہے : میں نے حرام وحلال ، علم وشاعری اور طب میں ام المومنین عائشہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ کے کہتی ہوں کہ اللہ نے دنیا میں ٩ باتیں ایسی صرف مجھ کو عطا کی ہیں جو میرے سوا کسی کو نہیں ملیں ۔
1۔ خواب میں فرشتے نے آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے میری صورت پیش کی۔
2۔ جب میں سات برس کی تھی تو آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا ۔
3۔ جب میرا سن ٩ برس کا ہوا تو رخصتی ہوئی ۔
4۔ میرے سوا کوئی کنواری بیوی آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ تھی ۔
5۔ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جب میرے بستر پر ہوتے تب بھی وحی آتی تھی ۔
6۔ میں آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی تھی ۔
7۔ میری شان میں قرآن کی آیتیں اتریں ۔
8۔ میں نے جبریل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔
9۔ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے میری گود میں سر رکھے ہوئے وفات پائی۔

حضرت عائشہ اور احادیث نبوی :

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت وامانت میں امتیاز حاصل تھا ۔سیدہ عائشہ کا حافظہ بہت قوی تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرام کے لیے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں ۔ حضرت عائشہ حدیث حفظ کرنے اور فتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام سے بڑھ کر تھیں۔سیدہ عائشہ نے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ۔
دور نبوی کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے سیدہ عائشہ سے زیادہ رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو ۔
صدیقہ کائنات سے ایک سو چوہتر (174) احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری ومسلم میں ہیں ۔

وفات :
سن ٥٨ ہجری کے ماہ رمضان میں حضرت عائشہ بیمار ہوئیں اور انہوں نے وصیت کی کہ انہیں امہات المومنین اور رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ماہ رمضان کی 17تاریخ منگل کی رات ام المومنین عائشہ نے وفات پائی ۔ وفات کے وقت ان کی عمر 66 برس تھی۔ 18سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں ۔ حضرت ابوہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔

حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالٰی!

سورۃ عبس (80) کے بارے میں بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ قریش کے سرداروں کو اسلامی تعلیم سمجھا رہے تھے اور مشغولی کے ساتھ ان کی طرف متوجہ تھے دل میں خیال تھا کہ کیا عجب اللہ انہیں اسلام نصیب کر دے ناگہاں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، پرانے مسلمان تھے عموماً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور دین اسلام کی تعلیم سیکھتے رہتے تھے اور مسائل دریافت کیا کرتے تھے، آج بھی حسب عادت آتے ہی سوالات شروع کئے اور آگے بڑھ بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس وقت ایک اہم امر دینی میں پوری طرح مشغول تھے ان کیطرف توجہ نہ فرمائی بلکہ ذرا گراں خاطر گزرا اور پیشانی پر بل پڑ گئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان اور اعلیٰ اخلاق کے لائق یہ بات نہ تھی کہ اس نابینا سے جو ہمارے خوف سے دوڑتا بھاگتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں علم دین سیکھنے کے لئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منہ پھیر لیں اور ان کی طرف متوجہ ہیں جو سرکش ہیں اور مغرور و متکبر ہیں، بہت ممکن ہے کہ یہی پاک ہو جائے اور اللہ کی باتیں سن کر برائیوں سے بچ جائے اور احکام کی تعمیل میں تیار ہو جائے، یہ کیا کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان بے پرواہ لوگوں کی جانب تمام تر توجہ فرما لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ان کو راہ راست پر لاکھڑا کرنا ضروری تھوڑے ہی ہے؟ وہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہ مانیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے اعمال کی پکڑ ہرگز نہیں، مطلب یہ ہے کہ تبلیغ دین میں شریف و ضعیف، فقیر و غنی، آزاد و غلام ، مرد و عورت، چھوٹے بڑے سب برابر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو یکساں نصیحت کیا کریں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، وہ اگر کسی کو راہ راست سے دور رکھے تو اس کی حکمت وہی جانتا ہے جسے اپنی راہ لگا لے اسے بھی وہی خوب جانتا ہے، حضرت ابن ام مکتوم کے آنے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مخاطب ابی بن خلف تھا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابن ام مکتوم کی بڑی تکریم اور آؤ بھگت کیا کرتے تھے (مسند ابو یعلی) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے ابن ام مکتوم کو قادسیہ کی لڑائی میں دیکھا ہے، زرہ پہنے ہوئے تھے اور سیاہ جھنڈا لئے ہوئے تھے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب یہ آئے اور کہنے لگے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھلائی کی باتیں سکھایئے اس وقت رؤساء قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پوری توجہ نہ فرمائی انہیں سمجھاتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہو میری بات ٹھیک ہے وہ کہتے جاتے تھے ہاں حضرت درست ہے، ان لوگوں میں عتبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی کوشش تھی اور پوری حرص تھی کہ کس طرح یہ لوگ دین حق کو قبول کرلیں ادھر یہ آ گئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کی کوئی آیت مجھے سنایئے اور اللہ کی باتیں سکھایئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ان کی بات ذرا بے موقع لگی اور منہ پھیر لیا اور ادھر ہی متوجہ رہے، جب ان سے باتیں پوری کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر جانے لگے تو آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور سر نیچا ہو گیا اور یہ آیتیں اتریں، پھر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور پوری توجہ سے کان لگا کر ان کی باتیں سنا کرتے تھے آتے جاتے ہر وقت پوچھتے کہ کچھ کام ہے کچھ حاجت ہے کچھ کہتے ہو کچھ مانگتے ہو؟ (ابن جریر وغیرہ) یہ روایت غریب اور منکر ہے اور اس کی سند میں بھی کلام ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بلال رات رہتے رہئے اذان دیا کرتے ہیں تو تم سحری کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو یہ وہ نابینا ہیں جن کے بارے میں عبس وتولی ان جاء الاعمی اتری تھی، یہ بھی موذن تھے بینائی میں نقصان تھا جب لوگ صبح صادق دیکھ لیتے اور اطلاع کرتے کہ صبح ہوئی تب یہ اذان کہا کرتے تھے (ابن ابی حاتم) ابن ام مکتوم کا مشہور نام تو عبد اللہ ہے بعض نے کہا ہے ان کا نام عمرو ہے، واللہ اعلم!

حضرت فاطمہ الزھراء (رضی اللہ عنہا

حضرت فاطمہ الزھراء (رضی اللہ عنہا) کی فضیلت

سعودی عرب کا اردو روزنامہ "اردو نیوز" جمعہ کے روز ایک سپلیمنٹ بنام "روشنی" شائع کرتا ہے جو دینی مضامین پر مشتمل ہوتا ہے اور اردو داں گھرانوں میں شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ آج (11-07-2008) کے "روشنی" سپلیمنٹ سے ایک قابل غور و فکر مضمون کے اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
***

مضمون ؛ حضرت فاطمہ الزھراء (رضی اللہ عنہا) ، کائنات کی 4 مثالی خواتین میں سے ایک
مضمون نگارہ ؛ آمنہ کوثر۔

عصرِ حاضر میں عورت کی آزادی نے وہ بھیانک صورتیں اختیار کر لی ہیں جس کے تصور سے انسانیت لرزہ براندام ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ عورت شوہر کے گھر کی ملکہ اور زینت سمجھی جاتی تھی اور آج وہ شمعِ محفل ہے۔
پردہ کو خیرباد کہہ دینے اور حیا کو رخصت کرنے کے جو بدنتائج ہمیں نظر آتے ہیں اس سے نسوانی آزادی کے حامی بھی نفرت کرتے جا رہے ہیں لیکن اب یہ بڑھتا ہوا سیلاب رک نہیں سکتا۔

مذہب نے عورت کی کیا حیثیت قرار دی تھی ، محافظان دین و ملت نے نسوانی حقوق کا معیار مقرر کرنے میں کس قدر عدل پروری سے کام لیا تھا ، تدبیر منزل کی کیا صورتیں تجویز کی تھیں ، اولاد کی نشو و نما میں "ماں" کو کیا مخصوص درجہ دیا تھا اور گھر میں رکھ کر عورت کے کیا مشاغل قرار دئے تھے ، ان تمام موضوعات پر اگر قلم فرسائی کی جائے تو مستقل کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ اس موضوع پر ہمارے اہلِ قلم نے جو جہاد قلم کیا ہے وہ خودپسند طبقہ کے انتباہ کے لئے کافی ہے۔

فخرِ کائنات کی پارہء تن حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی پاکیزہ زندگی کا مختصر تعارف موجودہ دور کی بہنوں کے لئے اسوہ حسنہ ہے تاکہ وہ ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی صلاحیت پیدا کریں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ؛ انسانیت کی عروج پر پہنچنے والے مرد تو بےشمار ہیں مگر خواتین صرف 4 ہیں۔
آسیہ (رضی اللہ عنہا)
مریم (علیہا السلام)
خدیجۃ الکبریٰ (رضی اللہ عنہا)
فاطمہ الزہرا (رضی اللہ عنہا)

اول الذکر نے فرعون جیسے دشمنِ توحید کی رفیقہ حیات بن کر بھی اپنے عقیدے کو باقی رکھا اور شوہر کا کفر و عناد ان کے توحید میں ذرہ برابر فرق پیدا نہ کر سکا۔
حضرت مریم علیہا السلام کی عصمت و طہارت پیش خیمہ تھی کہ ان کی گود میں روح اللہ کی نشو و نما ہوگی۔

ان خواتین کے بعد ایک وہ خاتون ہیں جو سرچشمہ عصمت و طہارت ہیں اور جن کی نسل کی بقا کا خدا ذمہ دار ہے۔ ان کی نسل شام ابد تک باقی رہے گی اور دنیا کا چپہ چپہ سادات سے معمور رہے گا۔
حضرت آسیہ ہوں یا حضرت مریم ، دونوں کو فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا جیسے نہ باپ ملے ، نہ شوہر ملا ، نہ فرزند عطا ہوئے لہذا فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کو وہ فضیلت عطا ہوئی جو دنیا کی کسی عورت کو حاصل نہیں۔

جب آپ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ثابت ہے تو ان کی طرز زندگی کو اپنانا بھی ثابت ہو جاتا ہے۔
اگر عورت کی آزادی کے لئے مرد کے مساوی حقوق کے دئے جانے کا کوئی تصور ہوتا تو اس نظریہ کی سب سے بڑی حامی سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا ہو سکتی تھیں لیکن ان کا حجاب میں رہنا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی دراصل دنیا و آخرت کی سعادت کا ضامن ہے۔

اللہ تعالی کا محبوب کام

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک دفعہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے تو (دیکھا کہ) میرے پاس کوئی عورت (بیٹھی) تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کی یہ فلاں عورت ہے جس کی نماز (کی کثرت) کا حال مشہور ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خبردار! تم وہ اعمال کیا کرو جن کی (ہمیشہ کرنے کی) تم کو طاقت ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا حتیٰ کہ تم خود (عبادت کرنے سے) تھک جاؤ۔‘‘
پھر فرمایا:
’’اللہ کے نزدیک (سب سے) زیادہ محبوب وہ دین (کام) ہوتا ہے جس پر اس کا کرنے والا ہمیشگی کرے۔‘‘
(صحیح بخاری شریف کے منتخب واقعات.... صفحہ

Tuesday, February 1, 2011

ویڈیو نعت : سوہنی وہ شان والا ، رحمت بن کے آیا

ویڈیو نعت : محمد مصطفی آئے ، بہار آئی

ویڈیو نعت : آمنہ دا لال ھے صاحب باکمال ھے

ویڈیو حمد: پروردگار عالم تیرا ہی ہے سہارا

ویڈیو نعت : طیبہ کا سفر کیسا لگے گا

کامیابی کا راز

قد افلح المومنون o الذين ھم في صلاتہم خاشعونo والذين ھم عن اللغو معرضونo والذين ھم للزکوۃ فاعلونo ( المومنون )
” یقینا ایمان داروں نے کامیابی ( نجات ) حاصل کر لی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں ۔ “
سورۃ مومنون کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی نجات کا راز بیان فرمایا ہے ، افلح ماضی کا صیغہ ہے جس سے مراد دنیا و آخرت کی کامیابی ہے ۔ جس نے دنیا میں کامیابی پالی وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے اور جو آخرت میں نجات پا گیا وہ تو بہت بڑے نصیب والا ہے ، کیونکہ اصل کامیابی تو آخرت میں اللہ کے عذاب سے نجات حاصل کرنا ہے ، نجات کن لوگوں کو ملتی ہے جن میں یہ صفات پائی جائیں ایک یہ کہ وہ پوری توجہ اور انہماک سے نماز ادا کرتے ہیں ۔ جو بے ہودہ باتوں سے منہ موڑ لیتے ہیں اور جو باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ان کے علاوہ بھی کچھ صفات ہیں جن کا تذکرہ اگلے دروس میں کیا جائے گا ۔
تلاوت کردہ آیات میں جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں سب سے پہلے نماز توجہ سے ادا کرنا ہے خشوع عاجزی کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے کہ نماز پڑھنے والا نماز کی حالت میں بلاوجہ اپنے اعضاءکو حرکت نہ دے اور دلجمعی سے نماز ادا کرے ۔ دل میں قسم قسم کے خیالات اور وسوسے نہ لائے اگر وسوسے آجائیں تو ان کی رو میں نہ بہہ جائے بلکہ الفاظ اور ان کے معانی پر توجہ دے جو وہ نماز میں پڑھ رہا ہے اس طرح توجہ بھی ہو گی اور وسوسے بھی جاتے رہیں گے ۔ دوسری خوبی لغویات سے پرہیز کرنا ہے ، لغو ہر وہ بات یا کام ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا دینی نقصان کا احتمال ہو ، لغوبات یا کام کرنے والے کا احترام اٹھ جاتا ہے اور قیامت کے دن رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ تیسری خوبی یہ ہے کہ وہ باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں پورا حساب کرتے ، اپنے مال کی پوری زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر سال ادا کرتے ہیں ایسے مومن دنیا میں بھی کامیاب ہیں اور آخرت میں بھی نجات پائیں گے

وینزویلا میں مسلمان

لاطینی امریکہ کے تیل سے مالا مال اس ملک میں مسلمانوں کی جڑیں پندرہویں صدی تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ عصرِ حاضر کے شواھد اور تاریخی مصادر جو کہ لاطینی امریکہ کے اکثر ملکوں خصوصاً برازیل کے عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہیں ، ان سے پتہ چلتا ہے ، کہ مسلمانوں نے کولمبس سے پہلے براعظم امریکا کو ایجاد کیا تھا ، جب آٹھ مسلمانوں نے لشبونہ سپین سے دسویں صدی میں سمندری سفر شروع کیا ، جو بحر ظلمات ( جس کا اطلاق مسلمانوں کے ہاں المحیط الاطلسی پر ہوتا ہے ) سے آگے کی دنیا کی تلاش میں نکلے ، بالآخر وہ جنوبی امریکا کے ساحل پر اترے ۔ اس بات کا اقرار بہت سے مستشرقین نے کیا ہے اور اکثر مصنفین نے بھی اس کی تائید کی ہے ۔ اور عربی مؤرخ مہدی نے اس بات کا ذکر اپنی کتاب ” العرب فی امریکا “ میں کیا ہے کہ ” فرامارکوس دی نایز “ نے نیو میکسیکو اور اریزونا جیسے مشہور و معروف علاقے 1539ءمیں ایجاد کےے تھے ، اس سفر میں اس کا گائیڈ اور سمندری سفر کا ماہر ایک مراکشی اسطفان نامی مسلمان ہی تھا ، جسے امریکا کے اصلی ریڈ انڈین باشندوں نے قتل کر دیا ، جنہوں نے اس سے پہلے کسی سفید فام آدمی کو نہ دیکھا تھا ۔

وینزویلا نام کی وجہ تسمیہ :

وینزویلا نام کا بھی ایک قصہ ہے وہ اس طرح کہ جب کرسٹوفر کولمبس نے تیسری مرتبہ اس علاقے کی طرف سفر کیا ، جس میں اس کے ساتھ ایک اسپانوی ، امیریکو ، فیسبوتو نامی آدمی بھی تھا ، جب انہوں نے وینزویلا کی سرزمین پر قدم رکھا تو انہوں نے بعض ایسے گھر دیکھے جو پانی کی چھوٹی چھوٹی ندیوں اور نہروں پر بنائے گئے تھے ۔ جنہیں اسپانوی زبان میں فالنسیا کہا جاتا ہے ، تو اس طرح اس علاقے کا نام وینزویلا ( یعنی : فلنسیا ) رکھ دیا گیا ، جب کولمبس اپنے اس سفر سے واپس لوٹا ، تو اس نے ایک رپورٹ لکھی جس میں اس نے وینزویلا میں جن چیزوں کا مشاہدہ کیا تھا ان کے بارے میں لکھا کہ وینزویلا ایک ایسی سرزمین ہے جو ہر قسم کی معدنیات سونے اور مصالحہ جات وغیرہ سے مالا مال ہے اور اس کے رہائشی نہایت خوش اخلاق اور اچھے ہیں جنہیں آسانی سے عیسائیت کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے ۔
کولمبس کی اس رپورٹ خصوصاً معدنیات سونے وغیرہ کے ذکر کے لالچ میں آ کر پرتگالیوں اور اسپانیوں کو پندرہویں صدی کے آکر میں اس براعظم کی طرف سفر کرنے اور وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ، اور پرتگالی و اسپانوی استعماری ، مغربی افریقہ اور اس کے سواحل سے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو کھینچ کر وینزویلا لے گئے تا کہ وہ وہاں ان کے بڑے بڑے پراجیکٹس اور اس ملک کی مال و دولت کے حصول میں مزدور کا کردار ادا کر سکیں ۔ اسی طرح بہت سارے اسپانوی مسلمانوں کو بھی وہاں لایا گیا جو اپنے مذہب کو چھپائے ہوئے تھے ، جنہیں لاطینی امریکا کی غلاموں کی خرید و فروخت کی منڈیوں میں بیچ دیا گیا ، لیکن انیسویں صدی کے اوائل میں جب یورپی استعمار ، انقلاب اور آزادی کی موجوں سے ٹوٹنے لگا جو کہ اس براعظم کے بہت سے ملکوں پر قابض تھا ، تو اس دوران فرانسیسکو دیمراندا جو ایک وینزویلی باشندہ تھا اس نے روحانی باپ کا کردار ادا کیا ، پھر اس کا پیش رو سیمون دی بولیفار جسے وینزویلی عوام اپنا قائد اور ہیرو سمجھتی ہے بلکہ پورا لاطینی امریکا کولمبیا سے لے کر پیرو اور ایکوا ڈور سے لی کر بولیویا تک سب اسے اپنا آزادی دلانے والا رہنما مانتے ہیں ، جس نے پورے لاطینی امریکہ کا ایک متحد و یکجا قوم کا خواب دیکھا تھا ۔

اسپانوی استعمار پر انقلاب :

اسپانوی استعمار جو کہ 1520ءمیں شروع ہوا تھا اسے اس بولیفار نامی شخص نے ہی 1821ءمیں ایک انقلاب کے ذریعے ختم کر دیا ، اس طرح وینزویلا ایک مستقل ملک کی حیثیت سے ابھر کر دنیا کے نقشے پر سامنے آیا ۔ اور اس ملک کا سرکاری نام بھی بولیفاری وینزویلا رکھ دیا گیا ، اور آج اس ملک کی کرنسی ، اہم سڑکیں ، سکول و کالج اور یونیورسٹیاں اسی قائد کے نام سے منسوب ہیں ، اس طرح لاطینی امریکا کے ملکوں کے بہت سارے لیڈران اور انقلابی حضرات اس بولیفار کے نظرےے سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ، جن میں سرفہرست حیفارا ، فیڈل کا سترو اور وینزویلا کے حالیہ صدر ھوگو شاویز وغیرہ ہیں ، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکثر انقلابی ، لیڈر اور قائدین حضرات ان مسلمان غلاموں کے انقلابات سے متاثر ہوئے جو انہوں نے برازیل میں پرتگالی استعمار کے خلاف کےے ، ان میں سب سے خطرناک انقلاب مالیز جو 1835ءمیں واقع ہوا تھا ، ان متاثرین میں خود بولیفار بھی ہیں ۔ مسلمانوں کی پہلی نسل جنہیں غلام بنا کر وینزویلا لایا گیا تھا وہ معاشرے میں گھل مل گئے ، باقی بچے کھچے مسلمان جنہوں نے اپنے دین و عقیدے کی حفاظت کی تھی انہیں متعصب اسپانوی عیسائی ظلم و استبداد کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ، آج وینزویلی قوم میں اسلام اور مسلمانوں کے صرف چند آثار و نقوش نظر آئیں گے جو اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ لوگ مسلم قوم اور ان کی لڑی سے ان کے پوتے و دوہتے ہیں ۔

نئی ھجرتیں :

سیاسی ، اقتصادی اور معاشی مشکلات جن کا عرب اور عالم اسلام کو سامنا کرنا پڑا ، خصوصا دو عالمی جنگوں اور ان کے نتیجے میں درپیش مصائب مشکلات جن میں سرفہرست 1948ءمیں ارض مقدس فلسطین پر متشدد یہودیوں کا غاصبانہ قبضہ جیسے اسباب نے بہت سارے مسلمانوں اور عیسائیوں کو وینزویلا کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ، ان میں اکثریت شام ، لبنان اور فلسطین کے لوگوں کی ہے ، ایک اندازے کے مطابق شامی لوگوں کی تعداد 5 لاکھ ، دوسرے نمبر پر لبنانی جن کی تعداد 3 لاکھ ، جبکہ تیسرے نمبر پر فلسطینی لوگ ہیں جو تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ ہیں ، اس کے علاوہ دیگر عرب اور مختلف اسلامی ممالک کے لوگ بھی خاص تعداد میں آباد ہیں ، جن کے اعداد و شمارکا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے ، اسی طرح لاطینی امریکا ہی کے بعض ممالک خصوصاً ترینداد ، برازیل اور چلی وغیرہ سے بھی کافی تعداد میں لوگ وینزویلا آ کر آباد ہو رہے ہیں ۔

اقتصادی لحاظ سے مسلمانوں کی اہمیت :

یہ عرب اپنی ابتدائی زندگی میں تو بازاروں اور منڈیوں میں چل پھر کر اشیاءفروخت کیا کرتے تھے ، بہت کم عرصے میں یہ لوگ بزنس مین اور بڑے بڑے تاجر بن گئے ، آج وہ ملک کی بڑی بڑی مختلف کمپنیوں اور خریداری مراکز کے مالک ہیں اور اقتصادی لحاظ سے ان کا بہت بڑا وزن ہے ۔ ان کے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور وینزویلی معاشرے کے ہر میدان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، آج ان میں بہت سے لوگ جج ، وکلاء ، ڈاکٹرز ، انجینئرز اور یونیورسٹیوں میں پروفیسر وغیرہ ہیں ، اس سلسلے میں ہم نے پروفیسر لریانو ( جن سے فیضیاب ہونے والے طلبہ کی بے شمار تعداد ہے ) سے وینزویلا میں موجود مسلمانوں کے احوال کے بارے میں سوال کیا ، تو انہوں نے جواب میں کہا کہ میں ایک وینزویلی ہوں ، میں کراکاس شہر میں موجود مسلمانوں کی مسجد کے قریب رہتا ہوں ، میرے بہت سے مسلمان اور عرب دوست ہیں ، اور وہاں مسلمانوں کی بڑی مضبوط تنظیم بھی ہے جسے وینزویلی عوام قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، جنہیں ہم وینزویلی قوم کا ایک جزءسمجھتے ہیں جو کبھی جدا ہونے والا نہیں ۔ اور مسلمانوں کی اکثریت کراکاس ، مراکیبو ، ماتورین اور برشیلونہ جیسے شہروں میں رہائش پذیر ہے ، جبکہ فلسطینیوں کی اکثریت فالینسیا شہر میں آباد ہے ۔ ان کا وہاں ایک اسلامی مرکز اور مسجد ہے ، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں بہت سے لوگ عرب قومیت پرست ہیں ، جس کا منفی اثر مسجد اور اس سے منسلک لوگوں پر پڑ رہا ہے ، اور یہ چیز وینزویلا میں اسلام کی نشر و اشاعت میں رکاوٹ بن رہی ہے ۔
اسی طرح وینزویلا میں بڑی تعدادمیں خیراتی تنظیمیں ، اسلامی مراکز کلب ، اور عربی مدرسے وغیرہ موجود ہیں ، مساجد اور مختلف مقامات پر باجماعت نماز پڑھنے کی جگہیں مخصوص ہیں ، دارالحکومت کراکاس ، بلکہ پورے لاطینی امریکہ میں سب سے بڑی جامع مسجد شیخ ابراھیم بن عبدالعزیز الابراھیم ہے جس کی تکمیل اور افتتاح رسمی طور پر 21 اپریل 1993ءکو ہوا ۔ جو وہاں رہائش پذیر مسلمانوں کے مطالبے اور ان کی دینی ضروریات کی بنا پر کراکاس میں بنائی گئی تا کہ اس سے ان کے ایمان و عقیدہ اور اجتماعیت کو تقویت حاصل ہو ۔ جو جمہوریہ ، وینزویلا کے ایک حاکم کارلوس اندریز بیریز کے سعودی عرب کے دورے کا نتیجہ ہے ، جنہوں نے اپنے دورے کے اختتام پر دارالحکومت کراکاس میں مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کیلئے 5000 پانچ ہزار میٹر مربع پلاٹ دینے کا وعدہ کیا ، جس کی تعمیر کی ذمہ داری مؤسسہ ابراھیم بن عبدالعزیز آل ابراھیم الخیریہ ( سعودی عرب ) نے لی ۔ یہ مرکز و مسجد لاطینی امریکہ میں سب سے بڑی اور اہم مسجد ہونے کی وجہ سے مذکورہ مؤسسۃ نے خصوصی اور جدید طرز کی تعمیر کا اہتمام کیا ، اور اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر وینزویلا کے صدر نے مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ : اسے مسلمان صرف عبادت و اعتکاف کا مرکز ہی نہ سمجھیں بلکہ یہ ایک وینزویلی عوام اور امت مسلمہ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے ، انہوں نے یہ بات اسلام کا مقام اور اس کا ادب و احترام کرتے ہوئے کہی ، اور یہ مرکز اسلام کی نشر و اشاعت اور مسلمانوں کے امور کا اس ملک میں بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔

مسلمانوں میں عدم یکجہتی اور تعصب :

بدقسمتی سے وینزویلا میں بھی مسلمانوں کے درمیان دعوتی میدان میں اختلاف پایا جاتا ہے ، اسلامی مراکز ، خیراتی ادارے ، مدارس و مساجد کے انتظامی امور اور ان کی سرپرستی حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تعصب و حسد ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح کے مکروہ و ناپسندیدہ اعمال اسلام اور مسلمانوں کیلئے برے اثرات مرتب کر رہے ہیں ، جبکہ وینزویلا میں مسلمانوں کا آپس میں اتحاد اور تمام دعوتی اداروں کا اتفاق ان کی اس ملک میں بقاءکا ضامن ہے ، کیونکہ مسلمانوں کو وینزویلا میں دعوتی لحاظ سے کوئی مشکل درپیش نہیں ہے اگر کوئی مشکل ہے تو وہ صرف مسلمانوں کے آپس کے اختلافات ، اور عدم یکجہتی ہے جس کی بنا پر وہ متحد ہو کر ایک قوت بن کر ابھرنے سے قاصر ہیں ، اسی لیے وہ اقتصادی ، سیاسی ، ثقافتی ہر لحاظ سے پیچھے ہیں ۔ اگر ان میں علاقائی ، لسانی اور قومیت کا تعصب نہ ہو تو وہ وینزویلا میں ہر میدان میں ترقی کر سکتے ہیں اور دین کی نشر و اشاعت کا کام منظم طریقے سے کیا جا سکتا ہے ۔ اس میں بعض خفیہ عناصر بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جو ان ملکوں سے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں ، جس طرح کہ پہلے بھی ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ ہو چکا ہے ، جنہیں لاطینی امریکا سے ان کے مذہب و عقیدہ اور ان کے اسلامی تشخص کو ختم کیا گیا ، اور بھیڑیا بھی اسی بکری کو کھاتا ہے جو اپنے ریوڑ سے جدا ہو جاتی ہے ۔

وینزویلا ایک نظر میں :

وینزویلا پیٹرول سے مالا مال ملک ہے ، یہ پیٹرول برآمد کرنے والے ملکوں میں تیسرے نمبر پر ہے ، جس کی یومیہ پیداوار بتیس 32 لاکھ بیرل ہے ، اور باقی قدرتی معدنیات اس کے علاوہ ہیں ۔
یہ جنوبی امریکا کے شمال میں واقع ہے ، جس کی حدود بحر کاریبی اور محیط اٹلنٹی کے ساتھ ملتی ہےں ، وینزویلا کے عوام مختلف رنگ و نسل کے افراد پر مشتمل ہے ، وہاں کے باسیوں میں زیادہ تر لوگ اسپانوی ، اٹالوی ، پرتگالی ، عربی ، جرمن اور افریقی ہیں ، اس کے علاوہ وہاں کے اصل قدیم رہائشی ہیں ۔
یہاں 1811ءتک اسپانیہ کا استعمار رہا ، اور 1819ءمیں اس نے کولمبیا کبریٰ ، نیو غرناطہ کے ساتھ اتحاد کیا ، لیکن یہ اتحاد زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا ، بالآخر 1830ءمیں وینزویلا اس اتحاد سے علیحدہ ہو گیا ۔
1961 ءمیں دستور نے ایک فیڈرل حکومت کے قیام کا اعلان کیا ، جو آج تک جاری و ساری ہے ۔
اس کا حدود اربعہ 912150 کلومیٹر مربع ہے ۔
اس میں بہت سے خوبصورت اور قدرتی مناظر والے علاقے ہیں اور دنیا کی سب سے بلند آبشار اور جنوبی امریکا کا سب سے بڑا مارا کاییبو نامی دریا بھی واقع ہے ۔
2004 ءکی مردم شماری کے مطابق یہاں کے رہائشیوں کی تعداد 25017387ہے ۔
اس کا دارالحکومت کراکاس اور اہم شہر فالنسیا ، برشیلونۃ ماراکییبو ، مراکی ، ماتورین ہیں ۔
یہاں کی سرکاری زبانی اسپانوی ہے اور اس کی کرنسی کا نام ( بیزو ) ہے ۔
یہاں کی معیشت کا زیادہ تر انحصار پیٹرول ، قدرتی گیس ، سونا وغیرہ پر ہے ۔ اور وینزویلا پیٹرول سے مالا مال ہونے کے باوجود وہاں کے عوام غربت کی لائن سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ، جن کی تعداد 1998ءمیں ٪47 فیصد تھی ۔