Saturday, March 12, 2011

علما اہلحدیث کے دلچسپ واقعات


فقیر نے عالیٰ شان مکان کی طرف ایک نظر دیکھا ۔ پھر اپنے سر کو جھکا لیا ۔ اندر سے طبلہ اور سارنگی کی ملی جلی آواز آ رہی تھی ، فقیر کے چہرے پر کچھ ایسا وقار تھا کہ وہ کسی زاوئیے سے فقیر معلوم نہیں ہوتا تھا ۔ اگر اس کے جسم پر کوئی چیز فقیری کا اعلان کرتی تھی تو وہ اس کا لباس تھا ۔ وہ صدا کرنے والوں کے انداز میں عاجزانہ اس عالی شان مکان کے دروازے پر کھڑا ہوا تھا ۔ یہ طوائفوں کا مکان تھا ۔ پیشہ ور طوائفوں کا جن کا کام عورت کے نسوانی وقار کو خاک میں ملاتے ہوئے جو ہر عصمت کی قربانی دے کر مال وزر اکٹھا کرنا تھا ۔ جو عصمت کے لفظ سے ہی آشنا نہ تھیں ۔ فقیر کو بھی یہ معلوم تھا اس نے جب اپنے استاد کے دروازے پر کھڑے ہوئے کچھ حسین و جمیل عورتوں کو منہ ننگا کئے ہوئے ناز و انداز سے سواریوں پر جاتے دیکھا تو کسی سے پوچھا تھا ۔ یہ کون ہیں تو جواب ملا کہ یہ طوائفیں ہیں اور ایک تقریب میں شرکت کے لیے جا رہی ہیں ۔ اس نے بے ساختہ پوچھا تھا یہ مسلمان ہیں ؟ تو جواب دینے والے نے کہا تھا جی ہاں یہ مسلمان ہیں ۔ تو اس کے دل و دماغ کو سوچوں نے گھیر لیا تھا ۔ اس نے دل میں سوچا تھا کہ یہ تو ہماری مسلمان بہنیں ہیں اگر اللہ نے تم سے یہ پوچھ لیا کہ تم نے انہیں کیوں نہ سمجھایا تو کیا جواب دو گے ۔ پھر وہ کسی نتیجے پر پہنچ گیا تھا ۔ میں ضرور انہیں نصیت کروں گا ۔
اور اب وہ اس مکان کے دروازے پر کھڑا سوچ رہا تھا ۔ کہ مکان والوں کو کیسے مخاطب کروں ۔ اچانک اس کے لبوں سے درد بھری صدا نکلی اللہ والیو ! اے اللہ والیو ! اس کے لبوں سے پھر صدا نکلی چند لڑکیاں دروازے پر نمودار ہوئیں پردے سے بے پروا ان کے چہرے تمتا رہے تھے ۔ کون ہو ؟ ان میں سے ایک نے پوچھا ، فقیر ہوں ۔ کچھ صدا سناؤں گا ۔ دروازہ کھل گیا اندر آجاؤ ۔ لڑکی کی آواز آئی ۔ وہ فقیرانہ انداز سے چلتا ہوا آگے بڑھا پھر لڑکی کی معیت میں اوپر جا پہنچا ۔ جشن کا سماں تھا ۔ ہر طرف رنگ و نور کے منظر بکھر رہے تھے ۔ بڑی بی نائکہ بڑے وقار سے کرسی پر بیٹھی تھی ۔ اور اس کے گرد پروانوں کی طرح لوگ جمع تھے ۔ فقیر اسی انداز سے چلتا ہوا نائکہ کی طرف بڑھا ، نائکہ اسی طرف بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔ اچانک وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ حضرت ! آپ ! آپ نے کیوں زحمت کی ۔ اس نے فقیر کو پہچان لیا تھا وہ ہندوستان کے ایک بڑے علمی گھرانے کا چشم و چراغ تھا اور پھٹے پرانے لباس میں اس کا پرنور چہرہ اور نورانی حلیہ نہ چھپ سکا تھا ۔ نائکہ دم بخود رہ گئی ۔ حضرت اور یہاں ۔ یہ کیا ماجرا ہے ؟
تب فقیر بولا گھبراؤ مت ! کچھ صدا سنانے آیا ہوں ۔ اطمینان سے بیٹھو ۔ ان کے مقدر کا ستارہ چمک اٹھا تھا ، فقیر نے کچھ آیات سوز و گداز سے تلاوت کیں ۔ پھر دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچا اور حسن و شباب کی حقیقت بیان کی ۔ پھر موت کی سختیوں اور اذیتوں کا منظر بیان کیا اس کا انداز اور لہجہ ایسا تڑپا دینے والا تھا کہ دنیا کو تماشوں اور رنگینیوں کا مرکز سمجھنے والے چاند چہرے آنسوؤں سے روشن ہوتے جا رہے تھے ۔ نائکہ اور اس کی نازنین مہوشوں کے دل پسیج رہے تھے ۔ اور ان کو خود پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا ۔ اب فقیر قبر کی صعوبتوں اور تنہائیوں کا ذکر کر رہا تھا اور آنسو اس کے چہرے پر پھیلے ہوئے تھے ۔ لڑکیوں میں ایک کہرام مچ گیا تھا اور دل زبان حال سے پکار رہے تھے کہ حضرت ! بس کریں ۔ اس نے قیامت کے دن کی کربناک اور ہولناک تصویر دکھائی تو آہ و بکا سے عمارت گونجنے لگی ۔ اب وہ رقت آمیز انداز میں توبہ و مغفرت پر بات کرتے ہوئے اللہ کی رحمی و کریمی کی بہار دکھانے لگا تو لڑکیوں نے ہاتھ جوڑ دئیے ۔ حضرت ! نائکہ بول رہی تھی ۔ ہم آج سے توبہ کرتی ہیں ۔ ان کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں ۔ اسی اثناءمیں عام لوگوں کو بھی فقیر کے اس وعظ کی خبر ہو گئی تھی اور مکان کے باہر لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے تھے ۔ وہ حیرت ، آنکھوں میں لیے اس عظمت کے مینار کو دیکھنا چاہتے تھے جس نے ظلمت کی اس آماجگاہ کو اپنے عزم و ہمت کے نور سے روشن کر دیا تھا اور اندر فقیر عصمت کی سوداگروں کو توبہ کی توفیق ملنے پر بارگاہ خداوندی میں جھکا ہوا تھا ۔ کچھ دیر بعد جب وہ اس مکان سے نکلا تو وہ تنہا نہ تھا ۔ بدکار جوانیوں کے پچھتاووں اور ندامتوں کا وہ خزانہ اسکے ساتھ تھا جو اس کے روشن چہرے کو ایک نئی چمک اور طمانیت بخش رہا تھا ۔ یہ فقیر حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ تھے ۔

شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری

چودہ پندرہ سال کا ایک لڑکا اپنی دوکان پر بیٹھا رفوگری کا کام کر رہا تھا ۔ ایک عالم دین دوکان میں داخل ہوا اس نے ہاتھ میں بڑا سا قیمتی چغہ پکڑا ہوا تھا ۔ اس نے وہ چغہ رفوگری کے لیے لڑکے کو دیا ۔ لڑکے نے وعدہ کیا کہ فلاں وقت پر چغہ آپ کو مل جائے گا ۔ حسب وعدہ وہ عالم دین آیا تو کام ہو چکا تھا ۔ عالم دین نے چغہ اٹھایا ۔ اسے الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ کام بہت اچھا ہوا تھا ۔ اس نے کام کی تعریف کی یوں ہی باتیں چل نکلیں ۔ لڑکے نے کچھ سوالوں کے جواب پڑھے لکھے لوگوں کی طرح دئیے ۔ عالم دین بڑا متاثر ہوا بغور لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا ۔ میاں کہاں تک تعلیم پائی ہے ؟ لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ کہنے لگا میں پڑھا لکھا نہیں ہوں ۔ والدین فوت ہو چکے ہیں نہ کوئی پڑھانے والا ہے نہ کمانے والا ۔ رفوگری سے جو چار پیسے کماتا ہوں اس سے بمشکل گزران ہوتی ہے ۔
عالم دین لڑکے کی باتوں سے متاثر ہوا ۔ اس کا دل بھر آیا ۔ لڑکے کی باتوں میں ایک حسرت تھی ۔ تحصیل علم کی حسرت ۔ وہ پڑھنا چاہتا تھا ۔ لیکن مالی لحاظ سے اس قابل نہ تھا ۔ پھر بھی عالم دین نے لڑکے سے کہا ۔ تم ضرور پڑھنے کی کوشش کرو تمہارا دماغ سلجھا ہوا ہے ۔ اس میں حصول علم کی اچھی خاصی صلاحیت ہے ۔ عالم دین اپنا چغہ لے کر چلا گیا ۔ لیکن لڑکا مشکل میں پڑ گیا ۔ اس کے دل میں پڑھنے کی تڑپ اور لگن تو بے انتہا تھی ۔ لیکن جب وہ اپنے حالات کی طرف دیکھتا تو اسے یہ کام مشکل لگتا ۔ اب عالم دین کی باتوں نے اس میں نئی روح پھونک دی تھی ۔ تمام حالات کے باوجود اس نے پڑھنے کا فیصلہ کیا اور پھر کتابوں میں غرق ہو گیا ۔ آج دنیا اس لڑکے کو برصغیر کے سب سے بڑے مناظر مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے ۔
٭ ایک دفعہ حسب معمول مولانا کی محفل سجی تھی ۔ ہر قسم کے لوگ موجود تھے ۔ مرزائی بھی تھے اور شیعہ بھی ۔ ایک شیعہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرنا شروع کر دی ۔ مولانا نے مزاحیہ انداز میں کہا ۔ چھوڑو بھی یار اس پرانے قصے کو ۔ اب تو پنجاب میں ایک ایسا شخص پیدا ہو چکا ہے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بھی افضل ہے ۔ شیعوں کو چاہیے کہ اس کا ذکر کریں ۔ اور اس کی فضیلت کو مان لیں ۔ ایک صاحب نے سوال کیا وہ کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا مرزا قادیان ۔
اس پر مرزائی سٹپٹائے اور غصے سے بولے ۔ کہاں لکھا ہے حضرت صاحب نے کہ میں حسین سے افضل ہوں آپ نے جواب دیا کہ گھبرائیے نہیں ، ابھی بتا دیتا ہوں ۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
اے قوم شیعہ ! اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے ۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے جو حسین سے بڑھ کر ہے ۔
پھر مولانا نے اور بھی ثبوت پیش کئے اور یہ ثابت کر دیا کہ مرزا صاحب نے ایسے ہی کہا ہے ۔ قادیانی بیچارے پریشان ہو گئے اور خاموش ہو کر بیٹھ گئے ۔ جبکہ دوسرے لوگ مولانا کی معلومات پر حیران رہ گئے ۔

امام العصر حضرت حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ 

مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ہسپتال میں داخل تھے ۔ اور ان کا آپریشن ہونے والا تھا ۔ آپریشن کے وقت ایک ڈاکٹر مولانا کے پاس پہنچا تا کہ بے ہوشی کا ٹیکہ لگایا جائے ۔ وہ ٹیکہ لگانے لگا تو مولانا نے پوچھا ۔ یہ کیا کر رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ بے ہوشی کا ٹیکہ لگا رہا ہوں ۔ رات کا وقت تھا ۔ اور رات کو سوتے وقت سورۃ ملک پڑھی جاتی ہے ۔ مولانا نے فرمایا ۔ ٹھہرو ، ابھی بے ہوشی کا ٹیکہ نہ لگاؤ ۔ جب سے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سنا ہے کہ رات کو سورۃ ملک پڑھا کرو ۔ میں کبھی اس کے بغیر نہیں سویا ۔ یہ کہہ کر مولانا نے سورۃ ملک کی تلاوت شروع کر دی ۔ جب انہیں پڑھتے دیر ہو گئی تو ڈاکٹر اکتا گیا اس نے سوچا ۔ یہ تو نہ جانے کتنی دیر اور پڑھیں گے ۔ اسے جلدی تھی ۔ مولانا اپنے دھیان میں تلاوت کر رہے تھے ۔ اس نے ٹیکہ لگا دیا ۔ لیکن وہ حیران رہ گیا ۔ اس نے دیکھا کہ بے ہوشی کے باوجود مولانا کے لب ہلتے جا رہے تھے اور اس وقت تک ہلتے رہے جب تک سورۃ ملک ختم نہ ہو گئی ۔ ڈاکٹر اتنا حیران ہوا کہ وہ ایک عرصے تک اپنے ملنے والوں کو یہ واقعہ سناتا رہا ۔
٭ ایک درفعہ مولانا سیالکوٹی ایک جلسے میں تقریر کر رہے تھے ۔ تقریر کے دوران ہی لاؤڈ سپیکر میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی ۔ ایکسپرٹ نے اسے ٹھیک کرنا چاہا ۔ جب بار بار سپیکر کی آواز خراب ہونے لگی تو مولانا جلال میں آ گئے ۔ ، اور سپیکر کو اٹھا کر سٹیج سے نیچے رکھ دیا ۔ اور ماہر سے کہا اسے سٹیج پر نہ رکھنا جب تک تمہیں اطمینان نہ ہو ۔ اور بغیر لاؤڈ سپیکر کے تقریر شروع کر دی ۔ مولانا نے چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا ۔ اور کہا ۔ اے اللہ ! اگر تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز مدینہ کے منبر سے ہزاروں میل کے فاصلے پر حضرت ساریہ تک پہنچا سکتا ہے ۔ تو مجھ فقیر ابراہیم کی آواز بھی اس سارے مجمعے تک پہنچا دے ۔
پھر مولانا بغیر سپیکر کے بولتے رہے اور آواز سارے مجمعے تک پہنچتی رہی ۔

بطل حریت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ

1953 ءکی قادیانیت مخالفت کی تحریک چلی تو دینی جماعتوں کا ایک اتحاد بنا ۔ جس کا نام مجلس عمل رکھا تھا ۔ اس کے سربراہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ تھے ۔ حکومت نے تمام رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ۔ اور اس مسئلے کی تحقیق کے لیے ۔ جسٹس منیر اور جسٹس کیانی کو مقرر کیا گیا ۔ مولانا داؤد غزنوی نے اپنے لیے مشہور ماہر قانون سیدحسین شہید سہروردی کو وکیل مقرر کیا ۔ لیکن مسئلے کی پیچیدگیوں کی وجہ سے انہوں نے معذرت کر لی ۔ مولانا نے اپنے کیس کی پیروی خود کی ۔ ایک دن کمرہ عدالت لوگوں سے بھرا ہوا تھا ۔ مولانا وکیل کے طور پر موجود تھے ۔ جسٹس منیر نے ان کوزچ کرنے کے لیے اہل حدیث اور غیر اہلحدیث کی باتیں شروع کر دیں ۔
جسٹس منیر نے پوچھا ۔ کیا آپ کے دادا مولانا سید عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ مرحوم کو والی افغانستان نے اس لیے ملک بدر کر دیا تھا کہ وہ اہلحدیث تھے اور احناف انہیں برداشت نہ کرتے تھے ۔
مولانا بولے نہیں یہ بات نہیں ہے ۔ ان کو اس لیے ملک سے نکالا گیا تھا کہ وہ اپنے دور کے بہت بڑے ولی اللہ تھے اور ان کا حلقہ ارادت اس قدر وسعت اختیار کر گیا تھا ۔ کہ حکومت کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ وہ حکومت پر قابض ہو جائیں گے ۔
جسٹس منیر کا خیال تھا کہ اس سوال کا مولانا جواب نفی میں نہ دے سکیں گے انہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا اور یوں یہ ثابت ہو جائے گا کہ اہلحدیث کو عام مسلمان پسند نہیں کرتے ۔ لیکن مولانا اس وار سے صاف بچ نکلے ۔ اب جسٹس منیر ایک نیا دام لائے اور پوچھا ۔ کیا آپ یا ” شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ کہنے والے کو مشرک قرار دیتے ہیں ؟
مولانا نے جواب دیا ۔ اس کا انحصار کہنے والے کی نیت پر ہے ہر اس شخص کو جو یہ الفاظ زبان سے نکالتا ہے مشرک قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ابھی آپ نے یہ الفاظ زبان سے نکالے ہیں ۔ لیکن آپ کو مشرک نہیں کہا جائے گا ۔ جسٹس منیر نے پوچھا ۔ آپ عبدالوہاب کو اپنا مذہبی رہنما مانتے ہیں ؟ مولانا نے اس کا انکار کیا ۔ جسٹس منیر نے پھر اصرار کیا ۔ مگر آپ نے فرمایا ، قطعی نہیں ۔ اس نے تیسری مرتبہ کہا ۔ آپ نے سختی سے کہا کہ ایسا نہیں ہے ۔ اب جسٹس منیر نے گھبراکر سوالات والا کاغذ تلاش کرنا شروع کر دیا ۔ اب آپ نے پوچھا ۔ غالباً آپ کی مراد محمد بن عبدالوہاب سے ہے ۔ منیر نے جواب دیا ، جی ہاں ۔ آپ نے کہا ۔ وہ عبدالوہاب نہیں ۔ محمد بن عبدالوہاب ہیں ۔
منیر صاحب نے چڑ کر کہا ۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ آپ نے فرمایا ۔ واہ ! باپ اور بیٹے کا فرق آپ کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے ؟
اس کے بعد جسٹس منیر خاموش ہو گئے ۔ اور انہوں نے اس کے بعد کوئی سوال نہ کیا ۔ لیکن جسٹس اے آر کیانی مولانا کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے مولانا کی تعریف کرتے ہوئے کہا ۔ مولانا میرے بس میں ہوتا تو میں آپ کو وکالت کا لائسنس دے دیتا ۔

شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ

مرکزی جمعیت اہلحدیث کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں بعض اوقات بڑی دلچسپ اور پرلطف باتیں ہوتی تھیں ۔ مولانا سلفی لباس کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی سادہ تھے ۔ ایک اجلاس میں مولانا نے تہبند باندھا ہوا تھا ۔ مولانا عطاءاللہ حنیف جو تقویۃ الاسلام میں شیخ الحدیث تھے ۔ انہوں نے بھی تہبند باندھ رکھا تھا ۔ مولانا سید داؤد غزنوی کی زیر صدارت یہ اجلاس ہو رہا تھا ۔ مولانا محی الدین قصوری نے مولانا سید داؤد غزنوی کو مخاطب کیا اور بولے ۔ جناب صدر ! اپنے ناظم اعلیٰ کو دفتری لباس اور دفتری آداب سے آگاہ فرمائیے ۔ ان کا اشارہ مولانا سلفی کی طرف تھا ۔ پھر مولانا حنیف ندوی بولے ۔ جناب صدر ! اپنے شیخ الحدیث سے صحیح بخاری کا کتاب اللباس پڑھنے کی درخواست کیجےے ۔ ان دونوں حضرات نے تو یہ بات مذاق کے طور پر کی تھی لیکن مولانا غزنوی لباس کے معاملے میں بڑا نفیس ذوق رکھتے تھے ۔ انہوں نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا ۔ اور فرمایا ، مولانا عطاءاللہ صاحب کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ البتہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ مولانا اسماعیل صاحب کو صدر کی حیثیت سے حکم دیتا ہوں کہ وہ آئندہ تہبند باندھ کر دفتر نہ آیا کریں ۔ شلوار اور شیروانی پہن کر اور عمامہ باندھ کر دفتر تشریف لایا کریں ۔
مولانا اسماعیل صاحب نے مولانا قصوری سے دفتر سے نکلتے ہی مسکرا کر کہا ۔ میں اور مولوی عطاءاللہ دو درویش تم میں آ پھنسے ہیں ہمیں کیوں تنگ کرتے ہو ؟

متکلم اسلام مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ

مولانا حنیف ندوی ایک دفعہ مولانا سید سلیمان ندوی سے ملنے کے لیے گئے ۔ مولانا سلیمان ندوی ان دنوں لاہور آئے ہوئے تھے اور ان کا قیام جامعہ اشرفیہ میں تھا ۔ اس وقت مولانا سید سلیمان ندوی مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ بیعت میں شامل ہو گئے تھے ۔ مولانا حنیف ندوی کا استقبال سید صاحب نے بڑی مسرت سے کیا ۔ اور ان کی خیریت پوچھی پھر مولانا حنیف ندوی نے سید صاحب سے کہا ۔ آپ نے ” سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کو بہشتی زیور کے قدموں میں ڈال دیا ہے ۔ مولانا کی یہ بات بڑی ذو معنی تھی ۔ بہشتی زیور مولانا تھانوی کی کتاب ہے ۔ اور سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سید صاحب نے لکھی ہے ۔ سید صاحب مسکراتے ہوئے بولے ۔ آپ ہماری عمر کو پہنچیں گے تو آپ بھی یہی کریں گے ۔ مولانا حنیف ندوی نے برجستہ جواب دیا ۔ میرا بھی یہی خیال کہ آپ پر عمر کا اثر ہے ۔ یہ سن کر مولانا ندوی مسکرا کر خاموش ہو گئے ۔
٭ عیدالفطر کا دوسرا دن تھا ۔ مولانا ندوی اور مولانا اسحاق بھٹی ، مولانا عطاءاللہ حنیف سے عید ملنے کیلئے پہنچے ۔ مولانا عطاءاللہ ، مولانا حنیف ندوی کے لیے چائے منگوایا کرتے تھے ۔ لیکن اس دن بھول گئے ۔ مزے مزے کی باتیں ہو رہی تھیں لیکن عید کے دن بھوکا رہنا بڑا صبر آزما ہوتا ہے ۔ اور مولانا عطاءاللہ ہیں کہ باتیں کئے جا رہے ہیں لیکن چائے کی طرف خیال ہی نہیں جا رہا ۔ آخر مولانا حنیف ندوی سے نہ رہا گیا ۔ آہستہ سے بولے ۔ مولانا ! آپ کا رمضان ابھی ختم نہیں ہوا ؟ یہ سن کر مولانا عطاءاللہ مسکرا دئیے اور فوراً چائے منگوالی ۔

امیر المجاہدین مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ

ایک دفعہ مولانا کے قتل کی سازش کی گئی اور ایک آدمی کو بھیجا گیا کہ مولانا کو قتل کر دے ۔ مولانا ایک جگہ مہمان گئے تھے ۔ مولانا نے صبح کی نماز پڑھی اور وظیفہ کرنے کے بعد وہیں لیٹ گئے ۔ لیٹے ہوئے تھے کہ قتل کا ارادہ لے کر جانے والا آدمی کلہاڑی اٹھائے وہاں پہنچا لیکن اسے کلہاڑی سر سے بلند کی تھی کہ کسی چیز نے اسے اٹھایا اور عمارت سے باہر پھینک دیا ۔ وہ مسجد سے دور کسی ڈھلوان جگہ پر گرا اور اسے چوٹیں آئیں ۔ اس نے کراہنا شروع کر دیا ۔ پھر اونچی آواز میں چیخنے لگا ۔ اس کی آواز سن کر مولانا نیند سے بیدار ہوئے ۔ اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے ۔ اس نے سارا واقعہ بیان کیا اور مولانا سے معافی مانگی ۔ مولانا نے اسے معاف کر دیا ۔

امیر المجاہدین صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ( مامونکانجن )

ایک دفعہ جامعہ ( جو صوفی صاحب نے مامونکانجن میں بنایا ) کے اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ کے لئے ساٹھ ہزار روپے کی ایمرجنسی ضرورت پڑ گئی ۔ اور یہ رقم صبح تک چاہئے تھی اور ہر صورت ۔ بظاہر کوئی ذریعہ نہ تھا ۔ اور یہ اس دور میں آج سے 35,40 سال پہلے بہت بڑی رقم تھی ۔ اللہ والوں کے پاس دعا کا سرمایہ ہی ہوتا ہے ۔ صوفی صاحب نے ایک طالب علم کو ساتھ لیا ۔ عشاءکے کافی دیر بعد جامعہ سے باہر نکلے ۔ جامعہ کے پیچھے قبرستان ہے اور اس کے ساتھ کھیل کے دو گراؤنڈ ہیں ۔ وہاں طالب علم سے کہا ۔ تم سو جاؤ ۔ اور اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی ۔ وہ لیٹ گیا ۔ جب اندازہ کر لیا کہ وہ سو گیا ہو گا تو سجدے میں ننگی زمین پر اپنا سر رکھ دیا ۔ اور دعا مانگنے لگے ۔ جیسے کوئی اپنے دوست سے کوئی چیز مانگتا ہے ۔ اللہ والوں کے خالق حقیقی سے رابطے ہوتے ہیں ۔ آنسو آپ کے چہرے کو بگھو رہے تھے اور ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔ اے اللہ ! آپ نے خود مجھے کہا ۔ مدرسہ بناؤ ۔ یہ مدرسہ میں نے اپنے لئے نہیں بنایا ۔ اپنے باپ کے لئے نہیں بنایا ۔ یہ میں نے تیرے لئے بنایا ہے ۔ اب مجھے دو ساٹھ ہزار ۔ اے اللہ مجھے یہیں ساٹھ ہزار عطا فرما ۔ میں نے کہیں نہیں جانا ۔ جیسے پیار کی باتیں ہوتی ہیں ۔ بار بار کہے جا رہے ہیں ۔ مجھے صبح تک ساٹھ ہزار کی ضرورت ہے ۔ روئے جا رہے ہیں ۔ روئے جا رہے ہیں ۔ طالب علم جاگ رہا تھا ۔ صبح کی نماز سے پہلے دو سیٹھ کراچی سے آئے ۔ ان کے ہاتھوں میں بریف کیس پکڑے ہوئے تھے ۔ صوفی صاحب سے ملے اور بولے ۔ لو جی پکڑو اپنا ساٹھ ہزار ۔ ہمیں تو انہوں ( نام نہیں لیا ) نے رات کو سونے نہ دیا کہ جاؤ مامونکانجن صوفی صاحب کو ساٹھ ہزار روپیہ دے کے آؤ ۔

شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمہ اللہ

ایک دفعہ مولانا ایک ایسی جگہ تقریر کرنے کے لئے گئے جہاں غیر اہلحدیث لوگ بستے تھے ۔ مولانا نے تقریر کی ۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا موضوع تھا ۔ لوگ بڑے متاثر ہوئے ۔ ایک مولوی صاحب نے تقریر شروع کر دی اور اہلحدیث کو گالیاں نکالنا شروع کر دیں ۔ فرمایا کہ ان کا قرآن مت سنو ۔ یہ دھوکہ دینے کے لئے قرآن پڑھتے ہیں ۔ گالی تو ہر مسلک میں بری ہے ۔ مولانا اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے ۔ مولانا صاحب ! گالیاں مت دو ۔ سیرت بیان کرو ۔ مولوی صاحب نے مناظرے کا چیلنج کر دیا ۔ مولانا محمد حسین سارے مجمع میں اکیلے اہلحدیث تھے ۔ سٹیج پر چلے گئے ۔ مولوی صاحب سے علم غیب پر مناظرہ طے ہوا ۔ مولانا محمد حسین نے صرف ایک سوال کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں جب جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں پھینکیں اور وہ سانپ بن گئیں ۔ حضرت کو حکم ہوا کہ اپنا عصا زمین پر پھینکئے ۔ حضرت نے اسے زمین پر رکھا تو وہ اژدھا بن گیا ۔
اب حضرت موسیٰ علیہ السلام ڈر گئے اور پیچھے ہٹ گئے ۔ پھر حکم ہوا ۔ مت ڈریں ۔ آپ ہی کو کامیاب ہونا ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اگر غیب جانتے تھے تو یہ جاننے کے باوجود کہ یہ اصل میں ان کا عصا ہی ہے ۔ پیچھے کیوں ہٹے اور کیوں بھاگے ؟ مولوی صاحب جلال میں آگئے اور اونچی آواز میں بولے ۔ تم غلط کہتے ہو ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ سانپ بھاگ گیا تھا ۔ تو وہابی موسیٰ علیہ السلام کی شان کیا جانے ۔ مولانا نے مسلک اہلسنت کے مشہور علماءکے اقوال ان کی تفسیروں سے دکھا دئیے ۔ جن میں اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی بھی شامل ہیں ۔ مولوی صاحب لاجواب ہو گئے ۔ اب وہ مجمعے کو اکسانے لگے ۔ ان کا خیال تھا کہ یہ اکیلا اہلحدیث ہے ۔ اس کو خوب خراب کیا جائے گا ۔ اسی اثناءمیں چند نوجوان مولانا محمد حسین کے گرد کھڑے ہو گئے ۔ اور انہیں وہاں سے لے گئے ۔ اللہ نے ان کی حفاظت کا سامان کر دیا ۔ کئی سال بعد انہیں مولوی صاحب کی مولانا محمد حسین سے ملاقات ہوئی ۔ وہ بوڑھے تھے ۔ مولانا بڑے شگفتہ مزاج انسان ہیں ۔ پوچھا ۔ مولانا ! وہ سانپ ابھی بھاگتا ہی جا رہا ہے یا رک گیا ہے ؟ مولانا صاحب یہ مذاق سن کر مسکرا دئیے اور خاموش رہے ۔

شہیدملت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ

ایک دفعہ فیصل آباد خطاب کرنے گئے تو اس شہر میں ان پر پابندی تھی ۔ ایک اے ۔ ایس ۔ آئی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ پر یہاں پابندی ہے ۔ انہوں نے پوچھا کس پر پابندی ہے ۔ کہنے لگا ۔ جی احسان الٰہی ظہیر پر ۔ انہوں نے کہا ۔ بھئی مجھ پر پابندی نہیں لگا کرتی ۔ پھر کہنے لگے ۔ کہاں ہے پابندی ؟ اے ۔ ایس ۔ آئی نے کاغذات ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا ۔ جی یہ ہے ۔ پابندی ۔ انہوں نے کاغذات اس کو واپس دیتے ہوئے کہا ۔ بھئی میں انگریزی نہیں جانتا ۔ چلو نماز پڑھو ۔ نماز کے بعد انہوں نے حکومت کے خلاف سخت تقریر کی ۔ واپس جانے لگے تو اے ۔ ایس ۔ آئی کاغذات لے کر پھر آ گیا اور کہنے لگا کہ اس کاغذ پر دستخط کر دیں ۔ انہوں نے اس کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔ تم عجیب اے ۔ ایس ۔ آئی ہو ۔ تمہیں تو اس کاغذ پر میرے دستخط فیصل آباد میں میرے داخل ہونے سے پہلے لینے چاہئے تھے ۔ اب جب کہ تقریر سے فارغ ہو چکا ہوں ۔ ان دستخطوں سے فائدہ ؟ چلو اب وقت نکال کر کبھی لاہور آجانا میں بالکل دستخط کروں گا ۔

حضرت مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ

مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کے زمانے کا ذکر ہے ۔ ایک نوجوان کو گھنٹھیا ہو گیا ۔ جسم کے جوڑوں نے کام کرنا بالکل بند کر دیا ۔ اس کے باپ نے اس کو گٹھڑی بنا کر گھوڑے پر لادا ۔ اور مولانا کی مسجد میں پہنچ گیا ۔ وہاں پہنچے تو جماعت ہو رہی تھی ۔ اس نے اپنے بیٹے کو اسی طرح مسجد میں ایک جگہ رکھ دیا اور نماز پڑھنے لگا ۔ بعد میں اس نے مولانا سے ساری بات کہہ دی ۔ مولانا نے نوجوان کو دم کیا ۔ وہ نوجوان بالکل ٹھیک ہو گیا ۔ یہاں تک کہ تندرست ہو کر مسجد سے نکلا ۔ حالانکہ اس کے باپ نے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔ بعد میں نوجوان خود بتایا کرتا تھا کہ مولانا دم کر رہے تھے اور میرے جسم کے جوڑ اپنے آپ کھلتے جا رہے تھے ۔
 

حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ

ایک دفعہ میاں صاحب حج کے لیے سعودی عرب گئے تو مخالف علماءنے آپ پر بہت سے الزامات لگائے اور وہاں کے حاکم کو شکایت کر دی ۔ وہاں ان دونوں پاشاؤں کا راج تھا ۔ میاں صاحب کے خلاف شکایت بھی پاشا کو کی گئی تھی ۔ میاں صاحب کو حکومت کے دفتر میں طلب کیا گیا ۔ اور مخالف علماءکے الزامات کی روشنی میں ان سے کچھ سوالات پوچھے گئے ۔ میاں صاحب نے نہائت عمدہ جواب دئیے جس سے پاشا بہت متاثر ہوا ۔ ترجمان درمیان میں بیٹھا ہوا تھا ۔ میاں صاحب نے اس کے ذریعے پاشا سے پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے ۔ نیشاپور اس نے بتایا ۔ یہ سن کر میاں صاحب نے صائب نیشاپوری کا ایک شعر سنایا ۔ پاشا بہت خوش ہوا اس نے میاں صاحب کو اپنے ساتھ بٹھایا ۔ ان سے معذرت کی اور دعا کی درخواست کی پھر دوسرے حاکم کے لیے ایک خط بنا کر دیا ۔ اس کے بعد بھی مخالفین نے کوشش کی لیکن ناکام رہے اور میاں صاحب کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔ اس وقت میاں صاحب روزانہ منیٰ میں واعظ کہتے تھے ۔ اور مخالفین ان کے قتل کے منصوبے بنا رہے تھے ۔ کیوں کہ ان کا واعظ توحید اور سنت کا ترجمان تھا ۔ خیر خواہوں نے عرض کیا کہ میاں صاحب ! آپ کی جان کو خطرہ ہے ۔ وعظ بند کر دیں ۔ تو میاں صاحب نے جواب دیا ۔ سنو صاحب ! بہت جی چکا ۔ اب زندگی کی تمنا نہیں ہے ۔ امام نسائی بھی مکہ میں شہید ہوئے تھے اسی حرم میں ، جہاں میرے قتل کا منصوبہ بن رہا ہے ۔ میں ہر وقت قتل ہونے کے لیے تیار ہوں ۔ اور جب پاشا میاں صاحب کو اپنے ہاتھوں سے قہوہ بنا کر دے رہا تھا ۔ مخالفین کی امیدوں کے محل دھڑام سے نیچے آگرے ۔
پھر ایک دن دہلی ریلوے سٹیشن پر لوگوں کی سر ہی سر نظر آرہے تھے ۔ عوام کو اتنا ہجوم تھا کہ پلیٹ فارم کا کٹ ختم ہو گیا ۔ جب پوچھا گیا کہ کیا معاملہ ہے تو پتہ چلا کہ آج میاں صاحب حج سے واپس آ رہے ہیں اور یہ لوگ ان کے استقبال کے لیے آئے ہیں ۔
میاں صاحب فقیر منش انسان تھے ۔ اسی 80 سال تک دہلی میں رہنے کے باوجود آپ نے اپنا ذاتی مکان بھی تعمیر نہ کروایا اور کرائے کے ایک معمولی سے مکان میں زندگی گزار دی ۔ ایک دفعہ آپ کے پوتے نے آپ کے مشہور شاگرد حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ سے عرض کیا ۔ کہ ہم کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں ۔ آپ میاں صاحب سے کہیں کہ ہمیں اپنا مکان ہی بنوا دیں ۔ حافظ صاحب نے جواب دیا ۔ میری کیا مجال ہے کہ میں آپ رحمہ اللہ سے کچھ عرض کر سکوں ۔ جس شخص نے 80 سال تک اسی طرح زندگی گزار دی ہو ۔ میں شاگرد ہو کر اس کے نقطہ نظر کو کس طرح بدل سکتا ہوں ۔
میاں صاحب کے شاگردوں میں انسانوں کے علاوہ جن بھی شامل تھے ۔ ایک صبح میاں صاحب نے اپنے شاگردوں کو بتایا ۔ آج رات اس کمبخت نے ہم کو سونے نہ دیا ۔ کبھی اس طرح سے پاؤں آ دباتا کبھی اس طرف سے ۔ اس وقت میاں صاحب اپنے ایک شاگرد جن کا ذکر کر رہے تھے ۔ پھر جس دن میاں صاحب کا انتقال ہوا ۔ بہت سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر تھے ۔ اچانک آپ نے گھر کی عورتوں کو حکم دیا ۔ پردہ کر دیا ۔ دیر تک سلام کا جواب دیتے رہے ۔ پھر آپ نے سورہ جن تلاوت کی اور وعظ شروع کر دی ۔ وعظ ختم کر کے بھی بار بار سلام کا جواب دیتے رہے ۔ کچھ دیر بعد آپ نے عورتوں کو حکم دیا ، آجاؤ ۔ جن لوگوں کو آپ وعظ سنا رہے تھے ۔ اور ان کے سلام کا جواب دے رہے تھے ۔ وہ آپ کے جن شاگرد تھے ۔ جو آخری وقت آپ سے وعظ و نصیحت سننے آئے تھے ۔

No comments:

Post a Comment