Monday, February 7, 2011

اخلاق و عادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

نبی صلى الله عليه وسلم کی جو تعریف کی جاتی ہے وہ ان مکارم اخلاق اور بہترین عادات و خصائل کی وجہ سے ہے ، جس پر اللہ تعالٰی نبی صلى الله عليه وسلم کو پیدا کیا ۔ہے ۔ بے شک نبی صلى الله عليه وسلم کے اخلاق و عادات پر نظر ڈالے گا تو وہ ضرور اعتراف کرے گا کہ یہی بہترین اخلاق ہیں ۔ بے شک نبی صلى الله عليه وسلم تمام مخلوق سے علم میں وسیع ، امانت میں عظیم تر ، گفتگو میں نہایت سچے اور موزوں کمال ، کمال سخی بہت زیادہ برباد اور عفو و مغفرت میں بزرگ تر تھے ، کوئی شخص کیسی ہی بڑھ کر جہالت سے پیش آتا ، نبی صلى الله عليه وسلم کو برداشت فرماتے ۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے یوں روایت کی ہے کہ تورات میں نبی
صلى الله عليه وسلم
کی صفت اس طرح سے ہے ۔

‘‘ محمد
صلى الله عليه وسلم
میرا بندہ و رسول ہے ۔ میں نے اس کا نام متوکل رکھا ہے وہ بدزبان درشت طبع ، بازاروں میں آواز لگانے والا نہیں ۔ وہ بدی کا بدلہ نہیں لیتا ، بلکہ وہ معاف کرتا ہے اور بخشش دیتاہے ، میں اسے وفات نہ دوں گا جب تک بگڑی ہوئی ملت کو اس سے درست نہ بنوا دوں گا ۔ میں اس سے کور بصیرتوں کی آنکھوں کو روشن کراؤں گا اور بہروں کو سماعت ۔ وہ دلوں کے پردے اٹھا دے گا ۔ یہاں تک کہ لوگ لا الہ الا اللہ کہنے لگیں ۔''

نبی
صلى الله عليه وسلم مخلوق میں سب بڑھ کر رؤف رحیم اور دینی و دنیوی منفعت بخشنے میں سب سے زیادہ عظیم ، جوامع الکلم تھے ۔ اور بڑی بڑی عبارات کا مفہوم مختصر انداز میں بیان کر دینے میں تمام خلقت سے زیادہ فصیح و خوش گفتار تھے صبر کے موقعے پر کمال درجہ صابر اور مقامات لقا میں نہایت ہی باصدق ۔ عہد و حمایت میں نہایت کامل اور انعام و عطا بخشی میں سب سے بڑھ کر - تواضع میں کمال درجہ بڑھے ہوئے اور جودو سخا میں سب سے آگے نکلے ہوئے ۔ اوامر میں نہایت محکم و مضبوط ، نواہی میں بہت ہی تارک و نافر ۔ محبت و پیار ، اعزاپروری ، اقربا پروری میں دنیا بھر سے زیادہ اور اس شعر کے پورے پورے مصداق تھے

Thursday, February 3, 2011

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت حضرت ابو درداء سے روایت ہے ' انہوں نے فرمایا کہ میں نبی کریم ۖ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔اتنے میں ابوبکر صدیق اپنی چادر کا کنارہ اٹھائے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ کا گھٹنا ننگا ہو گیا۔نبی ۖ نے فرمایا:''تمہارے دوست کسی سے لڑ کر آئے ہیں ۔پھر حضرت ابوبکر نے سلام کیااور کہا کہ میرے اور ابن خطاب کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا تھا۔میں نے جلدی سے انہیں سخت سست کہہ دیا۔پھر میں شرمندہ ہوا(اور ان سے معذرت کی)لیکن انہوں نے انکار کر دیااب میں آپ ۖ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔آپ ۖ نے فرمایا اے ابوبکر ! اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے'آپ ۖ نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔پھر ایسا ہوا کہ حضرت عمر شرمندہ ہوئے اور حضرت ابوبکر کے گھر پرآئے اور دریافت کیا کہ ابوبکر یہاں موجود ہیں؟گھر والوں نے جواب دیا:نہیں۔پھر حضرت عمر نبی ۖ کے پاس گئے اور انہیں سلام کیا۔انہیں دیکھ کر نبی ۖ کے چہرے کا رنگ ایسا متغیر ہوا کہ ابوبکر ڈر گئے اور دو زانو بیٹھ کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ۖ!اللہ کی قسم میں نے ہی زیادتی کی تھی۔اس وقت نبی ۖ نے فرمایا:'اے لوگو!اللہ نے مجھے تمہاری طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تو تم لوگوں نے مجھے جھوٹا کہہ دیا اور ابوبکر نے مجھے سچا کہا اور انہوں نے اپنے مال اور جان سے میری خدمت کی۔کیا تم میری خاطر میرے دوست کو ستانا چھوڑ سکتے ہو؟اور آپ ۖ نے یہ دو مرتبہ فرمایا۔اس ارشاد گرامی کی بعد حضرت ابو بکر کو پھر کسی نے نہیں ستایا۔
فوائد:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی انسان کے سامنے اسکی تعریف کرنا جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب اس کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہواگر اس کی تعریف سے اس کے اندر خود پسندی پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو اجتناب کرنا چاہئے (فتح الباری:٣١/٧)
٢:اس حدیث سے حضرت ابوبکر صدیق کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ جو حضرت ابوبکر صدیق سے عداوت رکھتا ہے وہ درحقیقت نبی کریم ۖ سے عداوت رکھتا ہے اور جو نبی ۖ سے عداوت رکھے گا تو عین اس کی عداوت اللہ سے ہو گی۔اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق سے محبت اللہ اور اس کے رسول ۖ کی محبت ہے۔
حوالہ:رواہ بخاری:٣٦٦١


حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی ۖنے انہیں غزوہ ذات السلاسل میں امیر بنا کر بھیجا تھا'وہ کہتے ہیں کہ جب میں واپس آپ ۖ کے پاس آیا تو میں نے عرض کیا کہ سب لوگوں میں سے کون شخص آپ کو زیادہ محبوب ہے؟آپ ۖ نے فرمایا:عائشہ رضی اللہ عنھا!میں نے عرض کیا مردوں میں سے کون؟آپ ۖ نے فرمایا ان کے والد گرامی(ابوبکر صدیق )میں نے پوچھا پھر کون؟فرمایا پھر عمر بن خطاب اس طرح درجہ بہ درجہ آپ ۖ نے کئی آدمیوں کے نام لئے۔(حوالہ:رواہ بخاری:٣٦٦٢)
فوائد:واقعہ یہ تھا کہ جس مہم میں حضرت عمرو بن عاص کو امیر بنا کر بھیجا گیا تھا اس دستے میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر بھی موجود تھے'اسی بنا پر حضرت عمروبن عاص کے دل میں خیال گزرا کہ شاید وہ ان سب سے افضل ہیں اسی لئے انہیں امیر بنا یا گیا ہے۔(فتح الباری:٣٢/٧)
 
٭حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے 'انہوں نے فرمایا کہ ایک عورت نبی ۖ کے پا س آئی تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ پھر آپ کے پاس آئے۔اس نے کہا کہ میںپھر آئوں اور آپ کو نہ پائوں'اس سے اس کی مراد وفات تھی۔آپ نے فرمایا اگر مجھے نہ پائو تو ابوبکر کے پاس چلے جانا۔(حوالہ:روا ہ بخاری:٣٦٥٩)
فوائد:اس حدیث سے رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر کے خلیفہ ہونے کااشارہ ملتا ہے،نیزاس میں ان شیعہ حضرات کی تردید ہے جو دعوٰی کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے حضرت علی اور حضرت عباس کو خلیفہ بنانے کی وصیت کی تھی۔(فتح الباری:٢٨/٧)
٭حضرت عمار سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ۖ کو اس وقت دیکھا جب آپ کے ساتھ پانچ غلاموں 'دو عورتوں اور حضرت ابوبکر کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
فوائد:حضرت عمار کا مطلب ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق آزاد لوگوں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے اسلام کا برسر عام اظہار کیا تھا ویسے بے شمار ایسے مسلمان موجود تھے جو اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھے(فتح الباری:٢٩/٢)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

از میمونہ ظفر


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہمدم سید المرسلین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ، جگر گوشہ خلیفة المسلمین، شمع کاشانہء نبوت، آفتاب رسالت کی کرن، گلستان نبوت کی مہک، مہر ووفا اور صدق وصفا کی دلکش تصویر، خزینہ ئِ رسالت کا انمول ہیرا، جس کی شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں ۔ جس کو تعلیمات نبوی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر عبور حاصل تھا ۔ جسے اپنی زندگی میں لسان رسالت سے جنت کی بشارت ملی۔ جسے ازواج مطہرات میں ایک بلند اور قابل رشک مقام حاصل تھا۔ جو فقاہت، ثقاہت ، امانت ودیانت کے اعلیٰ معیار پر فائز تھیں۔

ولادت :
حضرت ام رومان کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا تھا۔ عبداللہ کے انتقال کے بعد وہ ابوبکر کے عقد میں آئیں ۔ حضرت ابوبکر کے دو بچے تھے ۔ عبدالرحمن اور عائشہ ۔حضرت عائشہ کی تاریخ ولادت سے تاریخ وسیر کی تمام کتابیں خاموش ہیں ۔ ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے۔

نام :
نام عائشہ تھا ۔ ان کا لقب صدیقہ تھا ۔ ام المومنین ان کا خطاب تھا ۔ نبی مکرم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنت الصدیق سے بھی خطاب فرمایا ہے ۔اور کبھی کبھار حمیرا سے بھی پکارتے تھے۔

کنیت :
عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے ۔ چونکہ حضرت عائشہ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے حسرت کے ساتھ عرض کیا کہ اور عورتوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے ، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ فرمایا : اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر رکھ لو''۔
چنانچہ اسی دن سے ام عبداللہ کنیت قرار پائی۔

نکاح:
ہجرت سے ٣ برس پہلے سید المرسلین سے شادی ہوئی۔ ٩ برس کی عمر میں رخصتی ہوئی ۔ سیدہ عائشہ کے علاوہ کسی کنواری خاتون سے نبی کریم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے شادی نہیں کی ۔ ابھی ان کا بچپن ہی تھا کہ جبریل علیہ السلام نے ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر ان کی تصویر رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو دکھلائی اور بتایا کہ یہ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی دنیا وآخرت میں رفیقہ ئِ حیات ہے۔ سیدہ عائشہ کا مہر بہت زیادہ نہ تھا صرف 500 درہم تھا ۔

فضائل وکمالات:
حضرت عمرو بن عاص نے ایک دفعہ رسول اقدس محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا : ''عائشہ'' عرض کی مردوں میں کون ہے؟ فرمایا : اس کا باپ ۔ ایک دفعہ حضرت عمر نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ ام المومنین کو سمجھاتے ہوئے کہا :بیٹی عائشہ کی ریس نہ کیا کرو ، رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل میں اس کی قدر ومنزلت بہت زیادہ ہے ۔
رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
''مردوں میں بہت کامل گزرے لیکن عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے سوا کوئی کامل نہ ہوئی اور عائشہ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر''۔
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ پوری امت کی عورتوں سے زیادہ عالمہ ، فاضلہ ، فقیہہ تھیں ۔
عروہ بن زبیر کا قول ہے : میں نے حرام وحلال ، علم وشاعری اور طب میں ام المومنین عائشہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ کے کہتی ہوں کہ اللہ نے دنیا میں ٩ باتیں ایسی صرف مجھ کو عطا کی ہیں جو میرے سوا کسی کو نہیں ملیں ۔
1۔ خواب میں فرشتے نے آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے میری صورت پیش کی۔
2۔ جب میں سات برس کی تھی تو آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا ۔
3۔ جب میرا سن ٩ برس کا ہوا تو رخصتی ہوئی ۔
4۔ میرے سوا کوئی کنواری بیوی آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ تھی ۔
5۔ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جب میرے بستر پر ہوتے تب بھی وحی آتی تھی ۔
6۔ میں آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی تھی ۔
7۔ میری شان میں قرآن کی آیتیں اتریں ۔
8۔ میں نے جبریل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔
9۔ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے میری گود میں سر رکھے ہوئے وفات پائی۔

حضرت عائشہ اور احادیث نبوی :

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت وامانت میں امتیاز حاصل تھا ۔سیدہ عائشہ کا حافظہ بہت قوی تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرام کے لیے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں ۔ حضرت عائشہ حدیث حفظ کرنے اور فتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام سے بڑھ کر تھیں۔سیدہ عائشہ نے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ۔
دور نبوی کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے سیدہ عائشہ سے زیادہ رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو ۔
صدیقہ کائنات سے ایک سو چوہتر (174) احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری ومسلم میں ہیں ۔

وفات :
سن ٥٨ ہجری کے ماہ رمضان میں حضرت عائشہ بیمار ہوئیں اور انہوں نے وصیت کی کہ انہیں امہات المومنین اور رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ماہ رمضان کی 17تاریخ منگل کی رات ام المومنین عائشہ نے وفات پائی ۔ وفات کے وقت ان کی عمر 66 برس تھی۔ 18سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں ۔ حضرت ابوہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔

حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالٰی!

سورۃ عبس (80) کے بارے میں بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ قریش کے سرداروں کو اسلامی تعلیم سمجھا رہے تھے اور مشغولی کے ساتھ ان کی طرف متوجہ تھے دل میں خیال تھا کہ کیا عجب اللہ انہیں اسلام نصیب کر دے ناگہاں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، پرانے مسلمان تھے عموماً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور دین اسلام کی تعلیم سیکھتے رہتے تھے اور مسائل دریافت کیا کرتے تھے، آج بھی حسب عادت آتے ہی سوالات شروع کئے اور آگے بڑھ بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس وقت ایک اہم امر دینی میں پوری طرح مشغول تھے ان کیطرف توجہ نہ فرمائی بلکہ ذرا گراں خاطر گزرا اور پیشانی پر بل پڑ گئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان اور اعلیٰ اخلاق کے لائق یہ بات نہ تھی کہ اس نابینا سے جو ہمارے خوف سے دوڑتا بھاگتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں علم دین سیکھنے کے لئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منہ پھیر لیں اور ان کی طرف متوجہ ہیں جو سرکش ہیں اور مغرور و متکبر ہیں، بہت ممکن ہے کہ یہی پاک ہو جائے اور اللہ کی باتیں سن کر برائیوں سے بچ جائے اور احکام کی تعمیل میں تیار ہو جائے، یہ کیا کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان بے پرواہ لوگوں کی جانب تمام تر توجہ فرما لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ان کو راہ راست پر لاکھڑا کرنا ضروری تھوڑے ہی ہے؟ وہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہ مانیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے اعمال کی پکڑ ہرگز نہیں، مطلب یہ ہے کہ تبلیغ دین میں شریف و ضعیف، فقیر و غنی، آزاد و غلام ، مرد و عورت، چھوٹے بڑے سب برابر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو یکساں نصیحت کیا کریں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، وہ اگر کسی کو راہ راست سے دور رکھے تو اس کی حکمت وہی جانتا ہے جسے اپنی راہ لگا لے اسے بھی وہی خوب جانتا ہے، حضرت ابن ام مکتوم کے آنے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مخاطب ابی بن خلف تھا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابن ام مکتوم کی بڑی تکریم اور آؤ بھگت کیا کرتے تھے (مسند ابو یعلی) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے ابن ام مکتوم کو قادسیہ کی لڑائی میں دیکھا ہے، زرہ پہنے ہوئے تھے اور سیاہ جھنڈا لئے ہوئے تھے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب یہ آئے اور کہنے لگے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھلائی کی باتیں سکھایئے اس وقت رؤساء قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پوری توجہ نہ فرمائی انہیں سمجھاتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہو میری بات ٹھیک ہے وہ کہتے جاتے تھے ہاں حضرت درست ہے، ان لوگوں میں عتبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی کوشش تھی اور پوری حرص تھی کہ کس طرح یہ لوگ دین حق کو قبول کرلیں ادھر یہ آ گئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کی کوئی آیت مجھے سنایئے اور اللہ کی باتیں سکھایئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ان کی بات ذرا بے موقع لگی اور منہ پھیر لیا اور ادھر ہی متوجہ رہے، جب ان سے باتیں پوری کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر جانے لگے تو آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور سر نیچا ہو گیا اور یہ آیتیں اتریں، پھر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور پوری توجہ سے کان لگا کر ان کی باتیں سنا کرتے تھے آتے جاتے ہر وقت پوچھتے کہ کچھ کام ہے کچھ حاجت ہے کچھ کہتے ہو کچھ مانگتے ہو؟ (ابن جریر وغیرہ) یہ روایت غریب اور منکر ہے اور اس کی سند میں بھی کلام ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بلال رات رہتے رہئے اذان دیا کرتے ہیں تو تم سحری کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو یہ وہ نابینا ہیں جن کے بارے میں عبس وتولی ان جاء الاعمی اتری تھی، یہ بھی موذن تھے بینائی میں نقصان تھا جب لوگ صبح صادق دیکھ لیتے اور اطلاع کرتے کہ صبح ہوئی تب یہ اذان کہا کرتے تھے (ابن ابی حاتم) ابن ام مکتوم کا مشہور نام تو عبد اللہ ہے بعض نے کہا ہے ان کا نام عمرو ہے، واللہ اعلم!

حضرت فاطمہ الزھراء (رضی اللہ عنہا

حضرت فاطمہ الزھراء (رضی اللہ عنہا) کی فضیلت

سعودی عرب کا اردو روزنامہ "اردو نیوز" جمعہ کے روز ایک سپلیمنٹ بنام "روشنی" شائع کرتا ہے جو دینی مضامین پر مشتمل ہوتا ہے اور اردو داں گھرانوں میں شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ آج (11-07-2008) کے "روشنی" سپلیمنٹ سے ایک قابل غور و فکر مضمون کے اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
***

مضمون ؛ حضرت فاطمہ الزھراء (رضی اللہ عنہا) ، کائنات کی 4 مثالی خواتین میں سے ایک
مضمون نگارہ ؛ آمنہ کوثر۔

عصرِ حاضر میں عورت کی آزادی نے وہ بھیانک صورتیں اختیار کر لی ہیں جس کے تصور سے انسانیت لرزہ براندام ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ عورت شوہر کے گھر کی ملکہ اور زینت سمجھی جاتی تھی اور آج وہ شمعِ محفل ہے۔
پردہ کو خیرباد کہہ دینے اور حیا کو رخصت کرنے کے جو بدنتائج ہمیں نظر آتے ہیں اس سے نسوانی آزادی کے حامی بھی نفرت کرتے جا رہے ہیں لیکن اب یہ بڑھتا ہوا سیلاب رک نہیں سکتا۔

مذہب نے عورت کی کیا حیثیت قرار دی تھی ، محافظان دین و ملت نے نسوانی حقوق کا معیار مقرر کرنے میں کس قدر عدل پروری سے کام لیا تھا ، تدبیر منزل کی کیا صورتیں تجویز کی تھیں ، اولاد کی نشو و نما میں "ماں" کو کیا مخصوص درجہ دیا تھا اور گھر میں رکھ کر عورت کے کیا مشاغل قرار دئے تھے ، ان تمام موضوعات پر اگر قلم فرسائی کی جائے تو مستقل کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ اس موضوع پر ہمارے اہلِ قلم نے جو جہاد قلم کیا ہے وہ خودپسند طبقہ کے انتباہ کے لئے کافی ہے۔

فخرِ کائنات کی پارہء تن حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی پاکیزہ زندگی کا مختصر تعارف موجودہ دور کی بہنوں کے لئے اسوہ حسنہ ہے تاکہ وہ ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی صلاحیت پیدا کریں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ؛ انسانیت کی عروج پر پہنچنے والے مرد تو بےشمار ہیں مگر خواتین صرف 4 ہیں۔
آسیہ (رضی اللہ عنہا)
مریم (علیہا السلام)
خدیجۃ الکبریٰ (رضی اللہ عنہا)
فاطمہ الزہرا (رضی اللہ عنہا)

اول الذکر نے فرعون جیسے دشمنِ توحید کی رفیقہ حیات بن کر بھی اپنے عقیدے کو باقی رکھا اور شوہر کا کفر و عناد ان کے توحید میں ذرہ برابر فرق پیدا نہ کر سکا۔
حضرت مریم علیہا السلام کی عصمت و طہارت پیش خیمہ تھی کہ ان کی گود میں روح اللہ کی نشو و نما ہوگی۔

ان خواتین کے بعد ایک وہ خاتون ہیں جو سرچشمہ عصمت و طہارت ہیں اور جن کی نسل کی بقا کا خدا ذمہ دار ہے۔ ان کی نسل شام ابد تک باقی رہے گی اور دنیا کا چپہ چپہ سادات سے معمور رہے گا۔
حضرت آسیہ ہوں یا حضرت مریم ، دونوں کو فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا جیسے نہ باپ ملے ، نہ شوہر ملا ، نہ فرزند عطا ہوئے لہذا فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کو وہ فضیلت عطا ہوئی جو دنیا کی کسی عورت کو حاصل نہیں۔

جب آپ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ثابت ہے تو ان کی طرز زندگی کو اپنانا بھی ثابت ہو جاتا ہے۔
اگر عورت کی آزادی کے لئے مرد کے مساوی حقوق کے دئے جانے کا کوئی تصور ہوتا تو اس نظریہ کی سب سے بڑی حامی سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا ہو سکتی تھیں لیکن ان کا حجاب میں رہنا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی دراصل دنیا و آخرت کی سعادت کا ضامن ہے۔

اللہ تعالی کا محبوب کام

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک دفعہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے تو (دیکھا کہ) میرے پاس کوئی عورت (بیٹھی) تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کی یہ فلاں عورت ہے جس کی نماز (کی کثرت) کا حال مشہور ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خبردار! تم وہ اعمال کیا کرو جن کی (ہمیشہ کرنے کی) تم کو طاقت ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا حتیٰ کہ تم خود (عبادت کرنے سے) تھک جاؤ۔‘‘
پھر فرمایا:
’’اللہ کے نزدیک (سب سے) زیادہ محبوب وہ دین (کام) ہوتا ہے جس پر اس کا کرنے والا ہمیشگی کرے۔‘‘
(صحیح بخاری شریف کے منتخب واقعات.... صفحہ

Tuesday, February 1, 2011

ویڈیو نعت : سوہنی وہ شان والا ، رحمت بن کے آیا

ویڈیو نعت : محمد مصطفی آئے ، بہار آئی

ویڈیو نعت : آمنہ دا لال ھے صاحب باکمال ھے

ویڈیو حمد: پروردگار عالم تیرا ہی ہے سہارا

ویڈیو نعت : طیبہ کا سفر کیسا لگے گا

کامیابی کا راز

قد افلح المومنون o الذين ھم في صلاتہم خاشعونo والذين ھم عن اللغو معرضونo والذين ھم للزکوۃ فاعلونo ( المومنون )
” یقینا ایمان داروں نے کامیابی ( نجات ) حاصل کر لی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں ۔ “
سورۃ مومنون کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی نجات کا راز بیان فرمایا ہے ، افلح ماضی کا صیغہ ہے جس سے مراد دنیا و آخرت کی کامیابی ہے ۔ جس نے دنیا میں کامیابی پالی وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے اور جو آخرت میں نجات پا گیا وہ تو بہت بڑے نصیب والا ہے ، کیونکہ اصل کامیابی تو آخرت میں اللہ کے عذاب سے نجات حاصل کرنا ہے ، نجات کن لوگوں کو ملتی ہے جن میں یہ صفات پائی جائیں ایک یہ کہ وہ پوری توجہ اور انہماک سے نماز ادا کرتے ہیں ۔ جو بے ہودہ باتوں سے منہ موڑ لیتے ہیں اور جو باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ان کے علاوہ بھی کچھ صفات ہیں جن کا تذکرہ اگلے دروس میں کیا جائے گا ۔
تلاوت کردہ آیات میں جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں سب سے پہلے نماز توجہ سے ادا کرنا ہے خشوع عاجزی کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے کہ نماز پڑھنے والا نماز کی حالت میں بلاوجہ اپنے اعضاءکو حرکت نہ دے اور دلجمعی سے نماز ادا کرے ۔ دل میں قسم قسم کے خیالات اور وسوسے نہ لائے اگر وسوسے آجائیں تو ان کی رو میں نہ بہہ جائے بلکہ الفاظ اور ان کے معانی پر توجہ دے جو وہ نماز میں پڑھ رہا ہے اس طرح توجہ بھی ہو گی اور وسوسے بھی جاتے رہیں گے ۔ دوسری خوبی لغویات سے پرہیز کرنا ہے ، لغو ہر وہ بات یا کام ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا دینی نقصان کا احتمال ہو ، لغوبات یا کام کرنے والے کا احترام اٹھ جاتا ہے اور قیامت کے دن رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ تیسری خوبی یہ ہے کہ وہ باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں پورا حساب کرتے ، اپنے مال کی پوری زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر سال ادا کرتے ہیں ایسے مومن دنیا میں بھی کامیاب ہیں اور آخرت میں بھی نجات پائیں گے

وینزویلا میں مسلمان

لاطینی امریکہ کے تیل سے مالا مال اس ملک میں مسلمانوں کی جڑیں پندرہویں صدی تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ عصرِ حاضر کے شواھد اور تاریخی مصادر جو کہ لاطینی امریکہ کے اکثر ملکوں خصوصاً برازیل کے عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہیں ، ان سے پتہ چلتا ہے ، کہ مسلمانوں نے کولمبس سے پہلے براعظم امریکا کو ایجاد کیا تھا ، جب آٹھ مسلمانوں نے لشبونہ سپین سے دسویں صدی میں سمندری سفر شروع کیا ، جو بحر ظلمات ( جس کا اطلاق مسلمانوں کے ہاں المحیط الاطلسی پر ہوتا ہے ) سے آگے کی دنیا کی تلاش میں نکلے ، بالآخر وہ جنوبی امریکا کے ساحل پر اترے ۔ اس بات کا اقرار بہت سے مستشرقین نے کیا ہے اور اکثر مصنفین نے بھی اس کی تائید کی ہے ۔ اور عربی مؤرخ مہدی نے اس بات کا ذکر اپنی کتاب ” العرب فی امریکا “ میں کیا ہے کہ ” فرامارکوس دی نایز “ نے نیو میکسیکو اور اریزونا جیسے مشہور و معروف علاقے 1539ءمیں ایجاد کےے تھے ، اس سفر میں اس کا گائیڈ اور سمندری سفر کا ماہر ایک مراکشی اسطفان نامی مسلمان ہی تھا ، جسے امریکا کے اصلی ریڈ انڈین باشندوں نے قتل کر دیا ، جنہوں نے اس سے پہلے کسی سفید فام آدمی کو نہ دیکھا تھا ۔

وینزویلا نام کی وجہ تسمیہ :

وینزویلا نام کا بھی ایک قصہ ہے وہ اس طرح کہ جب کرسٹوفر کولمبس نے تیسری مرتبہ اس علاقے کی طرف سفر کیا ، جس میں اس کے ساتھ ایک اسپانوی ، امیریکو ، فیسبوتو نامی آدمی بھی تھا ، جب انہوں نے وینزویلا کی سرزمین پر قدم رکھا تو انہوں نے بعض ایسے گھر دیکھے جو پانی کی چھوٹی چھوٹی ندیوں اور نہروں پر بنائے گئے تھے ۔ جنہیں اسپانوی زبان میں فالنسیا کہا جاتا ہے ، تو اس طرح اس علاقے کا نام وینزویلا ( یعنی : فلنسیا ) رکھ دیا گیا ، جب کولمبس اپنے اس سفر سے واپس لوٹا ، تو اس نے ایک رپورٹ لکھی جس میں اس نے وینزویلا میں جن چیزوں کا مشاہدہ کیا تھا ان کے بارے میں لکھا کہ وینزویلا ایک ایسی سرزمین ہے جو ہر قسم کی معدنیات سونے اور مصالحہ جات وغیرہ سے مالا مال ہے اور اس کے رہائشی نہایت خوش اخلاق اور اچھے ہیں جنہیں آسانی سے عیسائیت کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے ۔
کولمبس کی اس رپورٹ خصوصاً معدنیات سونے وغیرہ کے ذکر کے لالچ میں آ کر پرتگالیوں اور اسپانیوں کو پندرہویں صدی کے آکر میں اس براعظم کی طرف سفر کرنے اور وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ، اور پرتگالی و اسپانوی استعماری ، مغربی افریقہ اور اس کے سواحل سے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو کھینچ کر وینزویلا لے گئے تا کہ وہ وہاں ان کے بڑے بڑے پراجیکٹس اور اس ملک کی مال و دولت کے حصول میں مزدور کا کردار ادا کر سکیں ۔ اسی طرح بہت سارے اسپانوی مسلمانوں کو بھی وہاں لایا گیا جو اپنے مذہب کو چھپائے ہوئے تھے ، جنہیں لاطینی امریکا کی غلاموں کی خرید و فروخت کی منڈیوں میں بیچ دیا گیا ، لیکن انیسویں صدی کے اوائل میں جب یورپی استعمار ، انقلاب اور آزادی کی موجوں سے ٹوٹنے لگا جو کہ اس براعظم کے بہت سے ملکوں پر قابض تھا ، تو اس دوران فرانسیسکو دیمراندا جو ایک وینزویلی باشندہ تھا اس نے روحانی باپ کا کردار ادا کیا ، پھر اس کا پیش رو سیمون دی بولیفار جسے وینزویلی عوام اپنا قائد اور ہیرو سمجھتی ہے بلکہ پورا لاطینی امریکا کولمبیا سے لے کر پیرو اور ایکوا ڈور سے لی کر بولیویا تک سب اسے اپنا آزادی دلانے والا رہنما مانتے ہیں ، جس نے پورے لاطینی امریکہ کا ایک متحد و یکجا قوم کا خواب دیکھا تھا ۔

اسپانوی استعمار پر انقلاب :

اسپانوی استعمار جو کہ 1520ءمیں شروع ہوا تھا اسے اس بولیفار نامی شخص نے ہی 1821ءمیں ایک انقلاب کے ذریعے ختم کر دیا ، اس طرح وینزویلا ایک مستقل ملک کی حیثیت سے ابھر کر دنیا کے نقشے پر سامنے آیا ۔ اور اس ملک کا سرکاری نام بھی بولیفاری وینزویلا رکھ دیا گیا ، اور آج اس ملک کی کرنسی ، اہم سڑکیں ، سکول و کالج اور یونیورسٹیاں اسی قائد کے نام سے منسوب ہیں ، اس طرح لاطینی امریکا کے ملکوں کے بہت سارے لیڈران اور انقلابی حضرات اس بولیفار کے نظرےے سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ، جن میں سرفہرست حیفارا ، فیڈل کا سترو اور وینزویلا کے حالیہ صدر ھوگو شاویز وغیرہ ہیں ، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکثر انقلابی ، لیڈر اور قائدین حضرات ان مسلمان غلاموں کے انقلابات سے متاثر ہوئے جو انہوں نے برازیل میں پرتگالی استعمار کے خلاف کےے ، ان میں سب سے خطرناک انقلاب مالیز جو 1835ءمیں واقع ہوا تھا ، ان متاثرین میں خود بولیفار بھی ہیں ۔ مسلمانوں کی پہلی نسل جنہیں غلام بنا کر وینزویلا لایا گیا تھا وہ معاشرے میں گھل مل گئے ، باقی بچے کھچے مسلمان جنہوں نے اپنے دین و عقیدے کی حفاظت کی تھی انہیں متعصب اسپانوی عیسائی ظلم و استبداد کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ، آج وینزویلی قوم میں اسلام اور مسلمانوں کے صرف چند آثار و نقوش نظر آئیں گے جو اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ لوگ مسلم قوم اور ان کی لڑی سے ان کے پوتے و دوہتے ہیں ۔

نئی ھجرتیں :

سیاسی ، اقتصادی اور معاشی مشکلات جن کا عرب اور عالم اسلام کو سامنا کرنا پڑا ، خصوصا دو عالمی جنگوں اور ان کے نتیجے میں درپیش مصائب مشکلات جن میں سرفہرست 1948ءمیں ارض مقدس فلسطین پر متشدد یہودیوں کا غاصبانہ قبضہ جیسے اسباب نے بہت سارے مسلمانوں اور عیسائیوں کو وینزویلا کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ، ان میں اکثریت شام ، لبنان اور فلسطین کے لوگوں کی ہے ، ایک اندازے کے مطابق شامی لوگوں کی تعداد 5 لاکھ ، دوسرے نمبر پر لبنانی جن کی تعداد 3 لاکھ ، جبکہ تیسرے نمبر پر فلسطینی لوگ ہیں جو تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ ہیں ، اس کے علاوہ دیگر عرب اور مختلف اسلامی ممالک کے لوگ بھی خاص تعداد میں آباد ہیں ، جن کے اعداد و شمارکا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے ، اسی طرح لاطینی امریکا ہی کے بعض ممالک خصوصاً ترینداد ، برازیل اور چلی وغیرہ سے بھی کافی تعداد میں لوگ وینزویلا آ کر آباد ہو رہے ہیں ۔

اقتصادی لحاظ سے مسلمانوں کی اہمیت :

یہ عرب اپنی ابتدائی زندگی میں تو بازاروں اور منڈیوں میں چل پھر کر اشیاءفروخت کیا کرتے تھے ، بہت کم عرصے میں یہ لوگ بزنس مین اور بڑے بڑے تاجر بن گئے ، آج وہ ملک کی بڑی بڑی مختلف کمپنیوں اور خریداری مراکز کے مالک ہیں اور اقتصادی لحاظ سے ان کا بہت بڑا وزن ہے ۔ ان کے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور وینزویلی معاشرے کے ہر میدان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، آج ان میں بہت سے لوگ جج ، وکلاء ، ڈاکٹرز ، انجینئرز اور یونیورسٹیوں میں پروفیسر وغیرہ ہیں ، اس سلسلے میں ہم نے پروفیسر لریانو ( جن سے فیضیاب ہونے والے طلبہ کی بے شمار تعداد ہے ) سے وینزویلا میں موجود مسلمانوں کے احوال کے بارے میں سوال کیا ، تو انہوں نے جواب میں کہا کہ میں ایک وینزویلی ہوں ، میں کراکاس شہر میں موجود مسلمانوں کی مسجد کے قریب رہتا ہوں ، میرے بہت سے مسلمان اور عرب دوست ہیں ، اور وہاں مسلمانوں کی بڑی مضبوط تنظیم بھی ہے جسے وینزویلی عوام قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، جنہیں ہم وینزویلی قوم کا ایک جزءسمجھتے ہیں جو کبھی جدا ہونے والا نہیں ۔ اور مسلمانوں کی اکثریت کراکاس ، مراکیبو ، ماتورین اور برشیلونہ جیسے شہروں میں رہائش پذیر ہے ، جبکہ فلسطینیوں کی اکثریت فالینسیا شہر میں آباد ہے ۔ ان کا وہاں ایک اسلامی مرکز اور مسجد ہے ، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں بہت سے لوگ عرب قومیت پرست ہیں ، جس کا منفی اثر مسجد اور اس سے منسلک لوگوں پر پڑ رہا ہے ، اور یہ چیز وینزویلا میں اسلام کی نشر و اشاعت میں رکاوٹ بن رہی ہے ۔
اسی طرح وینزویلا میں بڑی تعدادمیں خیراتی تنظیمیں ، اسلامی مراکز کلب ، اور عربی مدرسے وغیرہ موجود ہیں ، مساجد اور مختلف مقامات پر باجماعت نماز پڑھنے کی جگہیں مخصوص ہیں ، دارالحکومت کراکاس ، بلکہ پورے لاطینی امریکہ میں سب سے بڑی جامع مسجد شیخ ابراھیم بن عبدالعزیز الابراھیم ہے جس کی تکمیل اور افتتاح رسمی طور پر 21 اپریل 1993ءکو ہوا ۔ جو وہاں رہائش پذیر مسلمانوں کے مطالبے اور ان کی دینی ضروریات کی بنا پر کراکاس میں بنائی گئی تا کہ اس سے ان کے ایمان و عقیدہ اور اجتماعیت کو تقویت حاصل ہو ۔ جو جمہوریہ ، وینزویلا کے ایک حاکم کارلوس اندریز بیریز کے سعودی عرب کے دورے کا نتیجہ ہے ، جنہوں نے اپنے دورے کے اختتام پر دارالحکومت کراکاس میں مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کیلئے 5000 پانچ ہزار میٹر مربع پلاٹ دینے کا وعدہ کیا ، جس کی تعمیر کی ذمہ داری مؤسسہ ابراھیم بن عبدالعزیز آل ابراھیم الخیریہ ( سعودی عرب ) نے لی ۔ یہ مرکز و مسجد لاطینی امریکہ میں سب سے بڑی اور اہم مسجد ہونے کی وجہ سے مذکورہ مؤسسۃ نے خصوصی اور جدید طرز کی تعمیر کا اہتمام کیا ، اور اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر وینزویلا کے صدر نے مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ : اسے مسلمان صرف عبادت و اعتکاف کا مرکز ہی نہ سمجھیں بلکہ یہ ایک وینزویلی عوام اور امت مسلمہ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے ، انہوں نے یہ بات اسلام کا مقام اور اس کا ادب و احترام کرتے ہوئے کہی ، اور یہ مرکز اسلام کی نشر و اشاعت اور مسلمانوں کے امور کا اس ملک میں بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔

مسلمانوں میں عدم یکجہتی اور تعصب :

بدقسمتی سے وینزویلا میں بھی مسلمانوں کے درمیان دعوتی میدان میں اختلاف پایا جاتا ہے ، اسلامی مراکز ، خیراتی ادارے ، مدارس و مساجد کے انتظامی امور اور ان کی سرپرستی حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تعصب و حسد ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح کے مکروہ و ناپسندیدہ اعمال اسلام اور مسلمانوں کیلئے برے اثرات مرتب کر رہے ہیں ، جبکہ وینزویلا میں مسلمانوں کا آپس میں اتحاد اور تمام دعوتی اداروں کا اتفاق ان کی اس ملک میں بقاءکا ضامن ہے ، کیونکہ مسلمانوں کو وینزویلا میں دعوتی لحاظ سے کوئی مشکل درپیش نہیں ہے اگر کوئی مشکل ہے تو وہ صرف مسلمانوں کے آپس کے اختلافات ، اور عدم یکجہتی ہے جس کی بنا پر وہ متحد ہو کر ایک قوت بن کر ابھرنے سے قاصر ہیں ، اسی لیے وہ اقتصادی ، سیاسی ، ثقافتی ہر لحاظ سے پیچھے ہیں ۔ اگر ان میں علاقائی ، لسانی اور قومیت کا تعصب نہ ہو تو وہ وینزویلا میں ہر میدان میں ترقی کر سکتے ہیں اور دین کی نشر و اشاعت کا کام منظم طریقے سے کیا جا سکتا ہے ۔ اس میں بعض خفیہ عناصر بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جو ان ملکوں سے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں ، جس طرح کہ پہلے بھی ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ ہو چکا ہے ، جنہیں لاطینی امریکا سے ان کے مذہب و عقیدہ اور ان کے اسلامی تشخص کو ختم کیا گیا ، اور بھیڑیا بھی اسی بکری کو کھاتا ہے جو اپنے ریوڑ سے جدا ہو جاتی ہے ۔

وینزویلا ایک نظر میں :

وینزویلا پیٹرول سے مالا مال ملک ہے ، یہ پیٹرول برآمد کرنے والے ملکوں میں تیسرے نمبر پر ہے ، جس کی یومیہ پیداوار بتیس 32 لاکھ بیرل ہے ، اور باقی قدرتی معدنیات اس کے علاوہ ہیں ۔
یہ جنوبی امریکا کے شمال میں واقع ہے ، جس کی حدود بحر کاریبی اور محیط اٹلنٹی کے ساتھ ملتی ہےں ، وینزویلا کے عوام مختلف رنگ و نسل کے افراد پر مشتمل ہے ، وہاں کے باسیوں میں زیادہ تر لوگ اسپانوی ، اٹالوی ، پرتگالی ، عربی ، جرمن اور افریقی ہیں ، اس کے علاوہ وہاں کے اصل قدیم رہائشی ہیں ۔
یہاں 1811ءتک اسپانیہ کا استعمار رہا ، اور 1819ءمیں اس نے کولمبیا کبریٰ ، نیو غرناطہ کے ساتھ اتحاد کیا ، لیکن یہ اتحاد زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا ، بالآخر 1830ءمیں وینزویلا اس اتحاد سے علیحدہ ہو گیا ۔
1961 ءمیں دستور نے ایک فیڈرل حکومت کے قیام کا اعلان کیا ، جو آج تک جاری و ساری ہے ۔
اس کا حدود اربعہ 912150 کلومیٹر مربع ہے ۔
اس میں بہت سے خوبصورت اور قدرتی مناظر والے علاقے ہیں اور دنیا کی سب سے بلند آبشار اور جنوبی امریکا کا سب سے بڑا مارا کاییبو نامی دریا بھی واقع ہے ۔
2004 ءکی مردم شماری کے مطابق یہاں کے رہائشیوں کی تعداد 25017387ہے ۔
اس کا دارالحکومت کراکاس اور اہم شہر فالنسیا ، برشیلونۃ ماراکییبو ، مراکی ، ماتورین ہیں ۔
یہاں کی سرکاری زبانی اسپانوی ہے اور اس کی کرنسی کا نام ( بیزو ) ہے ۔
یہاں کی معیشت کا زیادہ تر انحصار پیٹرول ، قدرتی گیس ، سونا وغیرہ پر ہے ۔ اور وینزویلا پیٹرول سے مالا مال ہونے کے باوجود وہاں کے عوام غربت کی لائن سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ، جن کی تعداد 1998ءمیں ٪47 فیصد تھی ۔

بھارت میں ہر سال لاکھوں بچیاں قتل

دنیائے قدیم کی جہالت جسے مٹانے کیلئے انبیاءمصلح بن کر آتے رہے آج پھر اس جہالت کو حقوق انسانیت کے علمبردار روشن خیالی کے نام پر فروغ دے رہے ہیں۔ صنف نازک سے متعلق نقطہ نظر جہالت کی اس منزل پر پہنچ چکا ہے کہ اس سے آگے صرف تباہی ہے یہ ابن آدم جو ترقی کی انتہا پر پہنچ چکا ہے، ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے سیاروں کو مسخر کر رہا ہے، زمین کے چھپے خزانے اور رازوں کو اپنے دماغ اور ذہانت کے بل بوتے پر منکشف کر رہا ہے زمین پر لمن الملک کے نقارے بجانے والا، اوج ثریا پر قدم رکھنے والا، درندگی کی انتہائی پستیوں میں گر چکا ہے، یہ اپنی ہی کونپلوں کو پنپنے نہیں دے رہا، اپنے ہی جیسے انسانوں کو مارتے مارتے اب وہ اپنی ہی بچیوں کو دنیا میں آنے سے قبل اور آنے کے بعد اس شیطانی سوچ کے تابع ہو کر مار رہا ہے کہ بچے دو ہی اچھے، انسان کو اپنی جان کے بعد جو چیز سب سے زیادہ محبوب ہوتی ہے وہ اس کی اولاد ہوتی ہے۔
اکثر اوقات اولاد کی محبت اپنے وجود سے بڑھ جاتی ہے ایک بوڑھا شخص زندگی بھر کی تگ و دو نے جس کی ہڈیوں کو گھلا کر رکھ دیا ہو اگر اس کا جواں سال بیٹا بستر مرگ پر پڑا ہو تو اس بوڑھے باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کاش کاتب تقدیر اس کی بقایا سانسیں اس کے بیٹے کے نام کر دے تا کہ وہ زندگی کی کچھ اور بہاریں دیکھ لے، لیکن جب انسان کا اپنے پیدا کرنے والے، رزق دینے والے رب سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تو وہ اپنے خالق و مالک سے منہ موڑ لیتا ہے، اس میں خدا کے سامنے جوابد ہی کا احساس باقی نہیں رہتا، تو وہ فطرت سے بغاوت پر اتر آتا ہے، فطرت اسے آواز دیتی ہے کہ وہ اسے سنے لیکن وہ بہرہ بن جاتا ہے، فطرت کے تقاضے مجسم ہو کر اس کے سامنے آتے ہیں کہ وہ اسے دیکھے لیکن دل کی آنکھیں بے نور ہو چکی ہوتی ہیں، ان بے نور آنکھوں اور قسی القلبی کے ساتھ وہ وحشت و درندگی کا پیکر بن کر جہاں لوگوں کے خون کی ندیاں بہاتا ہے وہیں معاشی خوف میں مبتلا ہو کر اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کا قتل کرتا ہے، بھلا یہ بات سوچی جا سکتی ہے کہ جن ہاتھوں نے سنبھال سنبھال کر اور اپنا خون جگر پلا پلا کر کلیوں کو غنچہ اور غنچے کو پھول بنایا وہی اسے بے دردی سے مسل کر رکھ دے گا۔
ماضی میں بھارت میں ایک تہائی لڑکیاں پیدائش سے قبل مار دی جاتی تھیں، ہندو عقیدے میں لڑکیوں کو بتوں کی بھینٹ چڑھا یا جاتا ہے، انیسویں صدی کے شروع کی شرح پیدائش کے مطابق بھارت میں چند گاؤں ایسے تھے جہاں بچیوں کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا ممبئی میں 1834ءمیں لڑکیوں کی تعداد 603 تھی۔ ایسا نہیں کہ وہاں لڑکیاں پیدا ہی نہیں ہوئیں۔ انہوں نے اس دنیا میں آنکھ ضروری کھولی، لیکن خوفناک طریقے سے انہیں قتل کر دیا گیا، کسی بچی کے منہ میں گیلا تولیہ ٹھونسا گیا اور کسی کو چھلکے والے چاول کھلائے گئے جو اس کی سانس والی نالی میں پھنس گئے، کسی کو زہریلا پاؤڈر دودھ میں ملا کر دیا گیا، کچھ کا گلا گھونٹ دیا گیا، اور کچھ بچیوں کو کھانے پینے کیلئے کچھ نہ دیا گیا تا کہ وہ فاقے سے مر جائیں۔
آج کے دور کے دانشور، تھنک ٹینک، عالی دماغ سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اگر اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو دنیا کے تمام معاشی و وسائل کو چٹ کر جائے گی، آبادی کے عفریت کو کنٹرول کرنا اس وقت اہم مسئلہ ہے، آبادی کی بڑھتی رفتار کے سامنے بند باندھنے کیلئے کم بچے خوشحال گھرانہ اور منصوبہ بندی و بہبود آبادی کے روشن خیال سحر زدہ نعرے ایجاد کےے گئے۔
رحم مادر میں بچوں کا قتل درخشاں مستقبل کی ضمانت سمجھا گیا، عرب کے جہلاءاپنی اولاد کو غیرت و حمیت، اپنی سرداری اور رواداری کیلئے قتل کرتے تھے، لیکن یہ روشن خیال معیشت اور وسائل کی کمی کی فکر میں اپنی اولاد کو قتل کر رہے ہیں۔ بچیوں کے قتل میں بھارت سرفہرست ہے، ایک طرف بھارت بڑے شد و مد سے یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ وہ دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی سب سے بڑی جمہوری مملکت ہے، اس کی معیشت کی روز افزوں ترقی اسے بہت جلد چین سے بھی آگے لے جائے گی، دوسری طرف بھارت اپنے جارحانہ عزائم کی خاطر اپنے اڑوس پڑوس کے چھوٹے ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے وجود میں ہضم کرنے اور اکھنڈ بھارت کے چانکیائی نظریہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لےے دن رات اسلحے کے ڈھیر لگا رہا ہے، روس، فرانس اور برطانیہ کے علاوہ اسرائیل سے جدید سے جدید اسلحہ خرید رہا ہے ابھی حال ہی میں اس نے اسرائیل سے دس ہزار کروڑ کے معاہدے کی منظوری دی ہے۔ اس معاہدے کے تحت دشمن کے طیاروں کو فضا میں 70 کلومیٹر کی دوری سے تباہ کرنے والے میزائل بنائے گا۔
ایک اور معاہدے کے تحت فوجی سیٹلائٹ اسرائیل کے تعاون سے خلاءمیں چھوڑے گا، اسی طرح امریکہ سے جوہری توانائی کے معاہدے سے جہاں وہ ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا وہیں این پی ٹی اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدوں سے باہر رہ کر اپنی ایٹمی قوت کو مضبوط کر کے سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ بھارت کے ان عزائم سے جہاں گردونواح کے ممالک خطرے کی بو سونگھ رہے ہیں وہیں ہندوستان کے اندر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر گجرات اور کشمیر سمیت عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے، اس سے بھی بڑھ کر بھارت کی جو اخلاقی پستی سامنے آئی ہے وہ بڑی تعداد میں بچیوں کا قتل عام ہے بھارتی مائیں اب یوں دعائیں کرتی ہیں :
پر بھو میں تیری بلتی کروں پیاں پڑوں بار بار
اگلے جنم موہے بیٹا نہ دیجیو نرکھ بچے چاہے دھار

یعنی بھگوان میں تجھ سے گزارش کرتی ہوں، آپکے قدموں میں گر کر التجا کرتی ہوں کہ چاہے مجھے جہنم میں ڈال دینا لیکن مجھے اگلے جنم میں بیٹی نہ دینا۔
بھارت میں ماضی سے حالت تک کا سفر کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آ رہا، شادی کے بعد ہندو مت میں عورت شوہر کی ملکیت بن جاتی ہے۔ ساری زندگی اس کی حیثیت کنیز اور دیوداسی کی ہوتی ہے اور شوہر کی موت کے ساتھ اسے زندہ درگور کر دیا جاتا، بلکہ آج کے تعلیم یافتہ ہندوستان میں بھی سستی موجود ہے۔ اس سے بڑھ کر بچیوں کو ممتا سے چھین کر موت کی نیند سلانا ایک اذیت ناک مرحلہ ہے، بھارت میں رہنے والی ماں کی حیثیت زندہ لاش کی سی ہے، اسے اپنی خوشی اور مسکراہٹ ہی قربان نہیں کرنا پڑ رہی، اکثر اپنے آنسو بھی قربان کرنا پڑ رہے ہیں، وہ اپنے ہی وجود کے ٹکڑوں کو ایسی موت مرتا دیکھ رہی ہےں کہ سنگدل سے سنگدل ماں بھی بلک بلک کو رو پڑے، لیکن وہ مجبور چپ سادھے دیواروں کو تکتی رہتی ہے۔ اس کی بے بسی دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے سوتے خشک ہو گئے ہیں۔ بھارت کی ہر عورت کے سینے میں بچیوں کے قتل کی ایسی ایسی المناک لرزہ خیز داستانیں دفن ہیں کہ اگر وہ منظر عام پر آ جائیں تو ساری دنیا کی فضا سوگوار ہو جائے۔
میرپور کی پچیس سالہ سرلا دیوی نے شوہر کے ایماءپر اپنا چھ ماہ کا حمل اس لےے ختم کرا دیا کہ رحم مادر میں بیٹی پرورش پا رہی تھی، اس نے سرد آہ بھر کر کہا : میری بچی ادھورے جسم کے ساتھ تقریبا روزانہ ہی میرے خواب میں آتی ہے، میری جانب ہاتھ بڑھاتی ہے لیکن جیسے ہی میں اسے اپنے ہاتھوں میں لینے کیلئے آگے بڑھتی ہوں وہ غائب ہو جاتی ہے، اس خواب نے میرا رہا سہا سکون بھی ختم کر دیا، مجھے اس گناہ کی سزا مل رہی ہے جو میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔ سرلا دیوی نے یہ بات بھارت کے ایک معروف میگزین انڈیا ٹوڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتائی، سرلا نے مزید کہا کہ میرے خاندان کی پچاس عورتوں کو جب علم ہوا کہ وہ بے بی کی ماں بنیں گی تو انہوں نے فوراً حمل ضائع کرا دئیے دس عورتوں کو بچیوں کے ساتھ اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونے پڑے، سرلا دیوی میرپور کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی ہے جہاں پانچ سو لڑکے اور صرف دس لڑکیاں ہیں، یہ صرف یو۔ پی کے ضلع میرپور کی جیتی جاگتی کہانی نہیں ہے۔ بھارت کے ایک ایک علاقے گاؤں یا گھر میں جنین کا قتل ہو رہا ہے۔
انڈیا ٹوڈے میں بھارتی خاتون صحافی دھال برگ نے تامل ناڈو کا ایک افسوسناک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لکشمی چار سالہ بیٹے کی ماں تھی کہ اس نے بیٹی کو جنم دیا، تین دن بچی زندہ رہی مگر ماں نے اسے لاوارثوں کی طرح بستر پر پڑے رہنے دیا، جب بچی بھوک سے نڈھال ہو کر زور زور سے رونے لگی تو لکشمی جھاڑیوں سے دودھ نکال کر لائی اس میں ارنڈی کا تیل ملا کر بچی کو پلایا، چند گھونٹ پینے کے بعد بچی کی ناک سے خون بہنے لگا اور وہ منٹوں میں مر گئی، لکشمی کی پڑوسنوں نے بچی کو اسکے گھر کے ایک کونے میں دفن کر کے لکشمی سے کہا تم نے اسے زندہ پیدا ہی کیوں کیا؟ جب 28 سالہ لکشمی سے پوچھا کہ ایک ماں ہوتے ہوئے تم نے کس طرح اپنی بچی کو اپنے ہاتھوں سے مار دیا؟ تو اس نے جواب دیا کہ ” جیسی تکالیف میں اٹھا رہی ہوں جو صعوبتیں میں برداشت کر رہی ہوں انہیں دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ بہتر ہو گا میں اپنی بیٹی کو ختم کر دوں تا کہ زندگی کے تمام جھنجھٹوںاسے ہمیشہ کیلئے نجات مل جائے، لکشمی نے مزید کہا : کہ اگر میرے ہاتھ میں رقم ہوتی تو میں الٹرا ساؤنڈ کرا کر اسے ختم کرا دیتی، اسے دنیا میں آنکھ کھولنے ہی نہ دیتی۔
25 سالہ پر بھاکی کہانی ان ہزاروں عورتوں کی طرح افسوسناک ہے جنہوں نے اپنے ہی جگر کے ٹکڑوں کو اس لےے قتل کیا کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی بچیاں ظالم دنیا میں آنکھیں کھولیں اور ساری زندگی روتی دھوتی رہیں، پر بھاکی شادی بیس سال کی عمر میں پچاس سالہ رنڈوے سے ہوئی، اکیس سال کی تھی کہ بیٹی کی ماں بنی، جب اس نے اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لےے کہا تو ڈاکٹر نے کہا : تمہاری بیٹی ہوتے ہی مر گئی، جب وہ ہسپتال سے خالی گود لےے اجڑی اجڑی باہر آئی تو ایک نرس نے اسے چپکے سے بتایا کہ تمہارے شوہر نے بچی کی ناک میں پانی ڈال کر اسے جان بوجھ کر مارا ہے، شوہر سے کچھ پوچھنے کی اس میں ہمت نہ تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کا شوہر لفظ بیٹی ہی سے نفرت کرتا ہے، وہ اس کا وجود کیسے برداشت کرتا، جب دو سال بعد وہ دوبارہ امید سے ہوئی اور اسے علم ہوا کہ اس بار بھی بیٹی پیدا ہوتی تو اس نے ڈاکٹر سے کہا میری بچی ختم کردو، یوں ایک بیٹی باپ نے قتل کی اور دوسری ماں نے۔
ریاست آندھرا پردیش میں ایک شخص نے اپنی نواسی کو زندہ دفن کر دیا۔ ضلع محبوب نگر کی پولیس کے سربراہ چادو سنہانے میڈیا کو بتایا کہ ایک عورت جس کا خاوند مہارا شٹر میں ملازمت کرتا ہے اس عورت کے ہاں آٹھویں بیٹی پیدا ہوئی تو بچی کے نانا نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر نوزائیدہ کی ماں کے مشورے پر بچی کو زندہ کھیتوں میں دفن کر دیا، جب کچھ دیر بعد رام کمار نامی ایک کسان اپنے کھیت گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک بچی کا ہاتھ زمین سے باہر نکلا ہوا ہے گاؤں والوں کی مدد سے اسے نکالا گیا اور ہسپتال داخل کرایا گیا پولیس کے مطابق بچی کافی کمزور تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا اسے پیدائش کے بعد دودھ ہی نہیں پلایا گیا۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے ایک ڈاکٹر نے 260 بچیوں کو پیدائش سے قبل ضائع کرنے کا اعتراف کیا ہے مذکورہ ڈاکٹر کو کچھ عرصہ قبل ناجائز اسقاط حمل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اس کے کلینک کے قریب زیر زمین ٹینک سے بچیوں کی باقیات بھی برآمد کی گئی ہیں، ڈاکٹر اے۔ کے سنگھ کے پاس الٹرا ساؤنڈ ٹیسٹ کیلئے لائسنس بھی نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ڈاکٹر سند یافتہ ہے، وہ اپنی بیوی کی مدد سے جو ایک قابل نرس ہے اسقاط جنین کرتا رہا، ایسے ہی ڈاکٹروں سے جنین کو ضائع کرانے والی عورتوں میں سے تین سو روزانہ موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

اسلام میں کھیل / تفریح کی اجازت ...!

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے :
'' اپنے دلوں کو وقتاً فوقتاً لذت و آرام پہنچایا کرو ۔''

اسی لیے بلند پایا صحابی حضرت معاذ بن جبل(رضی اللہ عنہ) فرمایا کرتے تھے :
'' میں اپنے سونے پر بھی اللہ تعالیٰ سے اسی طرح اجر چاہتا ہوں جس طرح اپنی بیداری پر ۔ ''

اصولی طور پر اسلام نے ہر اس کھیل کی اجازت دی ہے جس سے کسی شرعی ممانعت کا ارتکاب نہ کرنا پڑتا ہو ۔ اور جو انسانی نسل کے لیے مہلک اور محزب اخلاق نہ ہوں۔
چنانچہ خود رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی اور صحابہ(رضوان اللہ عنہم) کے عمل سے کشتی ، تیراکی ، گھوڑ دوڑ میں مقابلہ ، کھلونے سازی ، دوڑ مقابلہ ، علمی مقابلہ وغیرہ کی اجازت کا ثبوت حدیث کی کتابوں سے ملتا ہے ۔

البتہ ایسے کھیل کود کی ممانعت ہے ...
٭ جس میں شرط رکھ کر اسے قمار بازی کا وسیلہ بنا لیا گیا ہو۔
٭ جس میں مرد و عورت کے درمیان اختلاط لازم آتا ہو۔
٭ ستر پوشی کی شرائط جس میں ملحوظ نہ رکھی جاتی ہو۔
٭ جس میں مشغول ہو کر نماز اور دوسرے فرائض سے انسان غافل ہو جاتا ہو۔
٭ جس میں خود اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا جاتا ہو۔ (مثلاً : فری اسٹائل کشتی)
٭ جس میں کسی ذی روح جانور کو تختہ ئ مشق بنایا جاتا ہو۔ (مثلاً : بیلوں اور دیگر جانوروں کے درمیان جان لیوا مقابلے)

اس کے علاوہ بھی ... جہاں تک عام گانے ، فحش گانے ، بے حیائی پر مبنی فلمیں ، انٹرنیٹ کی فحش تصاویر / فلمیں ، ساز و آواز کی دنیا کا تعلق ہے ... تو یہ تمام انسانی نسل کے لیے وبائی مرض کی طرح ہیں اور بلاشبہ اسلام میں یہ سب ناجائز ہیں !
اسلام نے اچھے کھیلوں اور تفریحات کی اجازت دی ہے ... لیکن ، زندگی محض کھیل کود کی نذر کر دینا کسی عاقل کا کام نہیں ہو سکتا۔ کامیاب شخص تو وہی ہے جو زندگی کے لمحات کو بامقصد کاموں میں احتیاط کے ساتھ گزارے ۔