Monday, January 31, 2011

اللہ کا صبر


عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما احد اصبر علی اذی سمعہ من اللہ یدعون لہ الو لد ثمی یعا فیہم ویرزقہم ( رواہ البخاری )

حضرت ا بو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تکلیف دہ بات سن کر صبر کرنے والا اللہ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہے مشرک کہتے ہیں اللہ کی ا ولاد ہے مگر وہ ان کی ان باتوں کے باوجود انہیں عافیت میں رکھتا ہے اور روزی عطا فرماتا ہے ۔ ( بخاری ) 
اللہ تعالیٰ بلند حوصلے اور عظیم مرتبے والا ہے بندوں کے بڑے بڑے گناہوں پر انہیں معاف کردیتا ہے ان کے عیب چھپاتا ہے قرآن پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت سے گناہوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ان سے در گزر کرتا ہے اور فرمایا جوکوئی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے وہ تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے لیکن جب اس کے بندے اس کی ذات میں کسی کو شریک بناتے ہیں توا سے یہ سخت ناگوار ہوتا ہے وہ ارشاد فرماتا ہے کہ انسان مجھے جھٹلاتا بھی ہے اور مجھے گالیاں بھی دیتا ہے ۔ حالانکہ اسے یہ حق نہیں پہنچتا ۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد زندہ کرکے اٹھایا نہیں جائے گا حالانکہ یہ کام میرے لئے مشکل نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میری اولاد ہے حالانکہ نہ میری اولاد ہے نہ والدین ۔

بخاری شریف کی اس روایت میں بھی اللہ نے یہی فرمایا ہے کہ اللہ سے زیادہ کوئی بھی صبر کرنے والا نہیں ہے ۔ اللہ کا شریک بنانے کے باوجود وہ صبر کرتا ہے اور اس کا حوصلہ بہت ہی بڑا ہے ۔ بندے فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی اولاد نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس قدر مہربان ہے کہ یہ سن کر بھی انہیں عافیت دیتا ہے اور انہیں رزق دیتا ہے ۔ دنیا میں کوئی شخص اگر کسی کی نافرمانی کی بنا پر ناراض ہوجائے تو وہ تمام وسائل روک لیتا ہے اور جس حد تک وہ تکلیف دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اپنے مخالف کو تکلیف دینے سے گریز نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ ہر شخص کی خبر گیری بھی کرتا ہے ۔ انہیں رزق بھی دیتا ہے اس کی اس عنایت پر غفلت کا شکار ہونے کے بجائے اس کی بندگی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے اور قیامت کے روز عذاب سے بچالے۔

مبلغ اور داعی کے اوصاف


دعوت: عربی لغت کے اعتبار سے ( دعا ) کا مصدر ہے ۔ جس کا لغوی معنیٰ نداء، طلب ، قرض ، مذہب اور نسب وغیرہ ہے ۔ نیز دعاۃ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو ہدایت یا ضلالت کی دعوت دیتے ہیں ۔ اس کا واحد ” داعی “ ہے ۔ اور اس کو داعیۃ بھی بولتے ہیں اور اس میں ” ۃ “ مبالغہ کے لیے ہے ۔

دعوت کا اصطلاحی مفہوم:

دائرہ اسلام میں داخل ہونے اور اس پر کاربند رہنے کی طلب کو دعوت کہتے ہیں ۔ انسانوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کی رحمت و سنت اور عدل و انصاف یہی رہا ہے کہ وہ اتمام حجت کئے بغیر کسی قوم کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا ۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا ( الاسرائ:15 ) ” جب تک ہم رسول مبعوث نہ کریں ہم عذاب نہیں دیتے ۔ “

بنابریں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انبیاءو رسل علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور معجزات کے ذریعے ان کی تائید فرمائی ۔ اور کتب نازل فرمائیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
رسلا مبشرین ومنذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل ( النسائ:165 ) ” رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تا کہ رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں حجت نہ رہے ۔ “

اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی تو تمام لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے لیے مبلغین کرام ، داعیان عظام مہیا فرماتا جو انہیں مقصد حیات سے آگاہ کرتے اور علی وجہ البصیرت بندگی رب سے آشنا کرتے تا کہ انہیں دو جہانوں کی سعادت نصیب ہو ۔ ان حقائق کی بدولت واضح ہوتا ہے کہ انسانوں کو خوردونوش سے بھی زیادہ دینی دعوت و تبلیغ کی ضرورت ہوتی ہے ۔

دعوت الی اللہ کا شرعی حکم:

ارشاد ربانی ہے: 
ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر واولئک ھم المفلحون( آل عمران: 104 ) 
” اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی دعوت اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ “ 
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ ( آل عمران: 110 ) 
” تم بہترین امت ہو جو انسانوں کے لیے نکالی گئی ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ “

ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ ( النحل: 125 ) 
” اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے وعظ کے ساتھ دعوت دیں ۔ “

نیز فرمایا: 
ومن احسن قولا ممن دعا الی اللّٰہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین ( فصلت:33 ) 
” اور کون ہے زیادہ اچھا قول میں اس شخص سے جس نے اللہ کی طرف دعوت دی اور نیک اعمال کےے اور کہا کہ بلاشبہ میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ “

احادیث نبویہ:

(( بلغوا عنی ولو آیۃ )) ( رواہ البخاری ) 
” میری طرف سے تبلیغ کرو خواہ ایک آیت ہی ہو ۔ “

نیز فرمایا کہ: 
(( لیبلغ الشاھد الغائب )) ( رواہ البخاری ) 
” جو حاضر ہے وہ غائب ( غیر حاضر ) تک ( دین کی ) تبلیغ کرے ۔ “

فرمایا: 
(( من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان )) ( رواہ مسلم ) 
” تم میں سے جو منکرات دیکھے اس کو چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے اگر استطاعت نہ ہو تو زبان کے ساتھ روکے اگر اتنی استطاعت بھی نہ ہو تو دل کے ساتھ ( برا جانے ) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے ۔ “

دعوت دین کا ذمہ دار کون ہے:

دعوت دین کی ذمہ داری ہر مسلمان مرد اور عورت پر عائد ہوتی ہے ۔ وہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں سے لوگوں کو روکے ۔ اتنی تبلیغ کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ داعی دینی علوم پر مکمل عبور رکھتا ہو ۔ ایسے شخص کو دین کی جزئیات پر بحث نہیں کرنی چاہیے ۔ اور نہ ان کی دعوت پیش کرنی چاہیے تا کہ یہ اپنی لاعلمیت کی بنا پر غلط بات نہ کہہ دے کہ جس پر عمل کرنے سے دوسرے لوگ گمراہ ہو جائیں اور ان کا وبال بھی اسی کے سر پر ہو ۔ کیونکہ یہ علماءکرام کے منصب کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے وسیع علم اور ایمانی بصیرت کی بنیاد پر دینی مسائل کی جزئیات کو بیان کریں اور دشمنان اسلام کی جزئیات کو بھی بیان کریں ۔ غلو پسندوں کے مبالغہ کا رد کریں ۔

دعوت کے اہداف اور اصول:

درج ذیل سطور میں دعوت کے اہداف اور اصول کا خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔
Œ مقصد تخلیق انسانیت کو پورا کرنا اور وہ ہے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنا جیسا کہ فرمان ربانی ہے: وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون
 اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس اور اس کے اسماءحسنی ، اس کی صفات جلیلہ اور اس کے افعال کاملہ کی معرفت اور پہچان اور شرک کی تمام صورتوں سے اجتناب کے لیے لوگوں کی رہنمائی کرنا ۔
Ž لوگوں کو دینی احکام کی تعلیمات دینا اور ان میں تفقہ فی الدین کا ملکہ پیدا کرنا تا کہ وہ علی وجہ البصیرت اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کر سکیں ۔
 انسانیت کو تباہی اور بربادی سے بچانا کیونکہ انسان محض اپنی عقل اور خواہش کے بل بوتے پر نقصان دہ امور سے محفوظ نہیں رہ سکتا ۔ یہ شریعت الٰہی کا خاصہ ہے کہ اس کے اصول و قوانین اور حلال و حرام کے ضابطے اپنے پیروکار کو صلاح و فلاح اور سعادت و عزت کی ضمانت فراہم کرتے ہیں ۔
 تا کہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اضافہ ہو ۔
 ‘ تا کہ عاملین دین کی تعداد میں اضافہ اور منحرفین اور نافرمان لوگوں کی تعدادمیں کمی ہو سکے ۔
 ’ اسلام کی خوبیوں کو اجاگر کرنا اور اس کی جامعیت اوربارگاہ الٰہی میں مقبولیت کو واضح کرنا اور آخری دین ہونے کی انفرادی شان کو ظاہر کرنا ۔

دعوت کے اسلوب:

اسلوب سے مراد دعوت و تبلیغ کا طریقہ کار ہے ۔ دینی دعوت و تبلیغ کے متعدد اور متنوع طریقے ہیں ۔ جو کہ مبلغین اور عوام کی مناسبت سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ بعض اوقات دعوت کا ایک انداز کسی انسان پر موثر ہوتا ہے جبکہ دوسرے انسان پر موثر نہیں ہو پاتا ۔ تبلیغ کا ایک طریقہ ایک دور میں بہت اثر انگیز ہوتا ہے جبکہ دوسرے دور میں وہی طریقہ کار گر نہیں ہوتا ۔ چنانچہ ایک مبلغ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان امور کو ملحوظ رکھے
اس ضمن میں فرمان الٰہی کس قدر جامع ہے: 
ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ھی احسن ان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہ وھو اعلم بالمھتدین ( النحل: 125 ) 
مبلغ کو دعوت و تبلیغ کے اسلوب اور طریقے سیکھنے کے لیے درج ذیل بنیادی مصادر سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ 
Œ
 قرآن 
 سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم Ž
 سیرت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین 
 سیرت تابعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ

دعوت الی اللہ کی فضیلت:

دعوت و تبلیغ جہاں پر امت مسلمہ کے ہر فرد پر فرض ہے وہاں بارگاہ الٰہی سے بے شمار انعامات جلیلہ کے حصول کا ذریعہ بھی ہے ۔ تبلیغ دین پاکباز انبیاءو رسل علیہم السلام کی ذمہ داری ہے ۔ جو کہ انذار وتبشیر کے اسلوب کے ساتھ انسانوں کو دین الٰہی کی دعوت دیتے رہے ۔ تاکہ اتمام حجت ہو جائے اور سید الانبیاءاور خاتم المرسلین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ منصبی بھی دینی دعوت و تبلیغ ہی تھی ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تاقیامت پیروکاروں کا منہج یہی تبلیغ ہے ۔
مبلغین اور دعاۃ کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہو گا کہ جس فریضہ کو انبیاءو رسل علیہم السلام ادا فرماتے تھے آج اللہ تعالیٰ نے وہ ان کے کندھوں پر ڈال دیا ہے اور وہ وادی ضلالت میں بھٹکنے والوں کو راہ نجات کی طرف بلاتے ہیں اور دل کے اندھوں کو بصیرت کا حامل بنا رہے ہیں ۔ ابلیس کے شکار زدہ کتنے ہی افراد کو مبلغین کرام نے تبلیغ سے نئی زندگی سے آشنا کر دیا ۔ اور کتنے ہی بھٹکتے ہوئے افراد کو راہ ہدایت دکھائی ۔ تبلیغ درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ بلکہ اکثر اوقات تقریر کا جہاد شمشیر کے جہاد سے زیادہ موثر ہوتا ہے ۔ دعوت حق بکثرت ذکر الٰہی کرنے اور درود و سلام پڑھنے کا اہم ذریعہ ہے کیونکہ کوئی خطبہ ، تقریر ، دینی لیکچر خواہ وہ کس قدر مختصر ہی کیوں نہ ہو ، ذکر الٰہی اور درود و سلام سے خالی نہ ہو گا اور یہ ایک داعی حق کے لیے کتنے شرف کی بات ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ کلمہ حق کہنے کی توفیق بخشے اور اس کے کلمہ خیر کو شرف قبولیت سے نوازے ۔

داعی کے اوصاف

ایک مبلغ کے لیے عام لوگوں کی نسبت زیادہ ضروری ہے کہ وہ اسلامی اوصاف ، دینی ، اخلاقی آداب سے متصف ہو کیونکہ داعی اور مبلغ کا باعمل ہونا دعوت و تبلیغ کے لیے موثر ہونے میں فیصلہ کن کردار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ درج ذیل سطور میں بعض اوصاف کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔

1 ۔ اخلاص:

اخلاص دین اسلام کی اساس و بنیاد ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اخلاص کا پابند بنایا ہے کوئی عمل خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کو ادا کرنے والا کس قدر قربانی کیوں نہ پیش کرے اگر اس میں اخلاص نہ ہو تو وہ مردود ہوتا ہے ۔ اس حدیث نبوی کا مطالعہ فرمائیں جس میں ان تین بدنصیب اشخاص کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کے ساتھ آتش جہنم کو بھڑکایا جائے گا ( العیاذ باللہ ) وہ قاری قرآن ، سخی اور مجاہد ہوں گے جنہوں نے اپنی جان و مال اور وقت کی قربانی پیش کی ہو گی جو انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے لیکن ان تینوں کی نیکیاں عدم اخلاص کی وجہ سے قبول نہ ہوں گی ۔

2 ۔ شرعی علم:

اخلاص اور علم شرعی ایک مبلغ اور داعی کا اصل سرمایہ ہوتا ہے جس کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے اس طرح سے فرمائی ہے: 
قل ھذہ سبیلی ادعو الی اللہ علی بصیرۃ ( یوسف: 108 ) ” کہہ دیجئے یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ دعوت دیتا ہوں ۔ “

یعنی امور دنیا یا خواہشات نفس کی طرف نہیں ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں اور بصیرت کے ساتھ دعوت حق پیش کرتا ہوں اور بصیرت شرعی علم کا نام ہے جو کتاب و سنت اور طریقہ سلف صالحین رحمہم اللہ تعالیٰ پر مبنی ہے ۔ پس دعوت حق علم سے عاری مجرد جوش و جذبہ کا نام نہیں بلکہ ایک مبلغ کے لیے از حد ضروری ہے کہ وہ دینی علوم سے بہرہ ور ہو ، صحیح عقیدہ ، سنت مطہرہ ، سیرت نبوی ، تاریخ اسلام اور دیگر دینی علوم و فنون کی معلومات رکھتا ہو اس کا وعظ و تقریر کتاب و سنت کے دلائل سے مزین ہو ۔
فرمان ربانی ہے: 
فذکر بالقرآن من یخاف وعید ( ق: 45 ) 
” قرآن کے ساتھ نصیحت کرو جو میری وعید سے ڈرتا ہے ۔ “

3 ۔ تقویٰ:

تقویٰ کی خوبی ایک مبلغ کا نفع مند زاد راہ اور میدان تبلیغ کی تمام مشکلات کا کامیاب علاج ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
وتزودوا فان خیر الزاد التقویٰ ( البقرۃ: 197 ) 
” اور زاد راہ پکڑو بلاشبہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے ۔ “

تبلیغ کا معاوضہ طلب نہ کرنا:

یہ تمام انبیاءکرام ورسل علیہ السلام کا طرہ امتیاز تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
ویاقوم لا اسالکم علیہ مالا ان اجری الا علی اللّٰہ ( ھود:29 ) 
” اے میری قوم میں تم سے اس ( تبلیغ ) پر مال نہیں مانگتا میرا اجر نہیں مگر اللہ پر ۔ “

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: 
ازھد فی الدنیا یحبک اللہ وازھد فیما فی ایدی الناس یحبوک ( ابوداود ) 
” دنیا سے بے نیازی کرو تو اللہ تمہارے ساتھ محبت کرے گا اور لوگوں کی چیزوں سے بے نیاز ہو جاؤ تو لوگ تمہارے ساتھ محبت کریں گے ۔ “ 
داعی حق کے لیے لازمی ہے کہ وہ آخرت کی کامیابی کو دنیا پر ترجیح دے اور لوگوں کی چیزوں سے امیدیں وابستہ نہ کرے ۔

نرم اسلوب اختیار کرے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: 
(( ان اللّٰہ یحب الرفق فی الامر کلہ )) ( صحیح البخاری ) 
” بے شک اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے ۔ “

اسی طرح فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: 
(( ان الرفق لا یکون فی شی الا زانہ ولا ینزع من شی الا شانہ )) ( مسلم ) 
” جس معاملے میں نرمی ہو وہ اسے مزین کر دیتی ہے اور اگر نرمی نکل جائے تو اسے بدنما کر دیتی ہے ۔ “

مجمع شناسی:

مبلغ کے لیے لازمی ہے کہ وہ مجمع شناس ہو ، سامعین کی علمی اور ذہنی استعداد کے مطابق گفتگو کرے جناب علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: 
(( حدثوا الناس بما یعرفون اتحبون ان یکذب اللہ ورسولہ )) ( بخاری ) 
” لوگوں کی معرفت کے مطابق ان سے گفتگو کرو ( وگرنہ ) کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی جائے ۔ “ 
جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 
(( ما انت بمحدث قوما حدیثا لا تبلغہ عقولھم الا کان لبعضھم فتنۃ )) ( مسلم ) 
” اگر تم کسی قوم کی ذہنی استعداد سے بالا گفتگو کرو تو ان میں سے بعض فتنے میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ “

مسلسل محاسبہ نفس:

مبلغ کا مسلسل محاسبہ نفس کرنا اور میدان دعوت میں اپنے وسائل و ذرائع اور نتائج و ثمرات پر بار بار نظرثانی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ مبلغ کو اپنے نقائص و عیوب پر نظر رکھنی چاہیے اور ان کو دور کرنے کے لیے جستجو کرتے رہنا چاہیے ۔
ارشاد ربانی ہے: 
یا یھا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ ولتنظر نفس ما قدمت لغد واتقوا اللّٰہ ان اللّٰہ خبیر بما تعملون ( الحشر:18 ) 
” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور ہر نفس دیکھے کہ اس نے کل ( آئندہ ) کے لیے کیا بھیجا ہے اللہ سے ڈرتے رہو اور یقینا اللہ تعالیٰ باخبر ہے جو تم عمل کرتے ہو ۔ “

تنظیم اوقات کار:

ہم اپنے مال و دولت کے متعلق جس قدر حریص ہیں اس سے بڑھ کر سلف صالحین رحمہم اللہ تعالیٰ اپنے اوقات زندگی کی حفاظت کرتے تھے کیونکہ لمحات زندگی ایسی دولت ہے جو جانے کے بعد لوٹا نہیں کرتے اور ہم سب وقت کی اہمیت کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی ہماری حالت تعجب خیز ہے کہ اوقات کار کی تنظیم و ترتیب کے بجائے فضول اور بے مقصد کاموں میں قیمتی لمحات زندگی ضائع اور برباد کر دیتے ہیں ۔

تالیف قلبی:

مبلغ کا فرض ہے کہ وہ عوام کی تالیف قلبی کے لیے ہاتھ کھلا رکھے اور اپنے اثر و رسوخ کے ساتھ ان کے مسائل اور معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتا رہے کیونکہ اس طرز عمل کا لوگوں پر بہت بڑا اچھا اثر پڑتا ہے ویسے بھی کرم نوازی ایمان کی ایک شاخ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کریم کرم کو پسند کرتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر غرباءاور نادار افراد اور نو مسلموں کے ساتھ خلق عظیم کا برتاؤ فرماتے تھے ۔

لوگوں سے میل جول:

لوگوں سے میل جول رکھنا اور خود ان کے پاس چل کر جانا اور انہیں دعوت اسلام دینا خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موسم حج میں بالخصوص اور عام دنوں میں بھی مکہ مکرمہ میں آنے والے عرب وفود سے ملاقاتیں کرتے اور ان کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتے تھے کیونکہ دینی دعوت کی مثال باران رحمت جیسی ہے جو ہر جگہ دوست اور دشمن پر برستی ہے ۔

پروٹوکول کی دیواریں:

پروٹوکول کی دیواریں کھڑی کرنا اور عوام کی دسترس سے باہر ہو جانا ان کے لیے ملاقات کا طریقہ مشکل بنا دینا ایک داعی حق کے لیے مناسب نہ ہوگا کیونکہ لوگوں کا جسمانی غذا سے زیادہ روحانی غذا کے حصول کے لیے مبلغ دین کو اہم معاملے کا ادراک کرتے ہوئے اپنے آپ کو عوام کے لیے نرم خو اور ان کے قریب تر کرنا چاہیے ۔ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کس قدر عظیم ہے کہ بسا اوقات کوئی لونڈی حاضر خدمت ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک پکڑ کر اپنے کام کاج کے لیے لے جاتی ۔

بلند ہمت ہونا:

ایک داعی کے شایان شان ہے کہ وہ بلند ہمت ، متحرک اور سخی ہو اور اپنے آپ کو امت کی خیر خواہی کا ذمہ دار سمجھے ۔ اعلیٰ اہداف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھے اس ضمن میں حد درجہ حریص ہونا ایک داعی حق کا طرہ امتیاز ہوتا ہے کیونکہ مومن خیر اور بھلائی سے کبھی بھی سیر نہیں ہوتا ۔ رحمن کے پاک باز بندوں کی شان قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے: 
والذین یقولون ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریاتنا قرۃ اعین واجعلنا للمتقین اماما ( الفرقان:74 ) اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق اور اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے ۔ آمین


صابر انبیاءکرام علیہ السلام



واسمٰعیل وادریس وذا الکفل کل من الصبرین oوادخلنہم فی رحمتنا انہم من الصالحین o ( الانبیاء )
” اور اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل سب صبر کرنے والے تھے ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کرلیا یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے “۔ 
تلاوت کردہ آیات میں اللہ نے تین اولوالعزم انبیاء کرام علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند ارجمند ہیں جنہیں پیدائش کے بعد اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے والدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ ویران وادی میں چھوڑ دیا تھا ۔ پانی کی تلاش میں اماں ہاجرہ کا صفا اور مروہ پر دوڑنا اور آب زمزم کا چشمہ اسی دور کی یاد گار ہیں جب ذرا چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو اللہ کے حکم سے باپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلادی قربانی اسی امتحان کی یاد گار ہے پھر اللہ کے حکم سے باپ بیٹے نے مل کر بیت اللہ کی تعمیر کی جو کہ ہمارا قبلہ ہے اور تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے جہاں ہر سال لاکھوں مسلمان حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے جاتے ہیں ۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر 136 سال تھی ان کی اولاد حجاز ، شام ، عراق ، فلسطین اورمصر تک پھیلی ........ حضرت ادریس علیہ السلام کا تذکرہ قرآن پاک میں سورۃ مریم اور سورۃ انبیاءمیں آیا ہے ۔سورۃ مریم میں ہے کہ آپ بلا شبہ سچے نبی تھے ہم نے ان کو بلند مقام عطا کیا ۔ صحیح ابن حبان کے مطابق آپ نے سب سے پہلے قلم استعمال کیا ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انبیاء علیہ السلام میں سے ایک نبی کو اللہ نے ایسا علم دیا تھا جو لکیریں کھینچ کر حساب لگاتے تھے جسے رمل وغیرہ کہتے ہیں ۔ معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت ادریس علیہ السلام سے چوتھے آسمان پر ہوئی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ حضرت نوح علیہ السلام کے جد امجد ہیں ان کا نام اخثوع اور ادریس لقب ہے ۔ آپ کی عمر 82سال تھی ........ذوالکفل علیہ السلام کے متعلق قرآن پاک میں ان کے نام کے سوا کچھ ذکر نہیں اور حدیث میں بھی کوئی تذکرہ نہیں ملتا صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ذو الکفل اللہ کے برگزیدہ نبی اور رسول تھے اور کسی قوم کو ہدایت کےلئے مبعوث ہوئے تھے ۔
البتہ تاریخی لحاظ سے جو کچھ معلومات ملتی ہیں ان کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ جب بنی اسرائیلی نبی حضرت الیسع بہت بوڑھے ہوگئے تو انہوں نے قوم سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں ایک ایسے شخص کو جوشب زندہ دار ، دن کو روزہ رکھنے والا اور کبھی غصہ نہ کرنے والا ہو اپنا نائب بنانا چاہتا ہوں تو ذو الکفل نے کہا میں حاضر ہوں تو انہوں نے آپ کو اپنا خلیفہ نامزد کردیا اسی لئے بعض مورخین کا خیال ہے کہ آپ نبی نہیں بلکہ ایک نیک اور مصلح شخص تھے ۔

اسلام کا شورائی نظام



اسلامی نظامِ حکومت اور اسلامی سیاست کا دوسرا بنیادی اصول ” شوریٰ “ ہے ۔ یعنی سربراہ ریاست کا تقرر بھی مسلمانوں کے معتمد نمائندوں پر مشتمل مجلس شوریٰ کرے گی ۔ اور تقرری کے بعد بھی تمام اہم فیصلے شوریٰ کی منظوری سے کئے جائیں گے ۔ آج کل مسلمان ماہرین سیاست شورائیت کو اسلامی جمہوریت کہتے ہیں ۔ عربی زبان و ادب اور حدیث و فقہ کی کتب میں لفظِ جمہور غلبے اور اکثریت کے معنوں میں آتا ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں ” فی الجمہور عن العرب “ کے الفاظ آئے ہیں ۔ ( ترمذی شریف ، ابواب الفتن باب ماجاءان الخلفاءمن قریش )
لیکن دور حاضر کی مروجہ جمہوریت کا مفہوم عربی ڈکشنری Dictionry سے نہیں لیا گیا بلکہ ” ڈیموکریسی Democracy کے یونانی لفظ سے لیا گیا ہے ۔ جسکے اصول و ضوابط اسلام کے سراسر خلاف ہیں ۔ اسلامی جمہوریت کی اصطلاح حرام تو نہیں ہے مگر غلط فہمی سے بچنے کیلئے صحیح اسلامی اصطلاح ” شورائیت “ ہے ۔ یہ اصطلاح قرآن و سنت اور خلفاءراشدین کے عین مطابق ہے اور اس سے عوام کے اندر مطلق العنان حاکمیت اور بے قید آزادی کا جاہلانہ تصور پیدا ہونے کا خدشہ بھی نہیں ہے ” سدباب الذریعہ “ یعنی غلط فہمیوں اور برائیوں کے دروازے کو بند کرنا ۔ “ شریعت کا مستقل قاعدہ ہے اس قاعدے کی رو سے جمہوریت کا استعمال قابل ترک ہے اور شورائیت ہی صحیح Correct اور مناسب اصطلاح ہے ۔
شوریٰ کے بارے میں آیات قرآنیہ :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(( فَبِمَا رَحمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنتَ لَہُم وَلَو کُنتَ فَظًّا غَلِیظَ القَلبِ لاَنفَضُّوا مِن حَولِکَ فَاعفُ عَنہُم وَاستَغفِر لَہُم وَشَاوِرہُم فِی الاَمرِ )) ( آل عمران : 159 ) 
” پس یہ اللہ کی رحمت ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نرم دل ہیں لیکن اگر آپ کرخت و سخت دل ہوتے تو لوگ تمہارے پاس سے متفرق و منتشر ہو جاتے ۔ پس ان کو ( جنہوں نے غزوہ احد میں مورچہ چھوڑ دیا تھا ) معاف کر دو اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت مانگو اور ان سے ہر اہم معاملہ میں مشورہ کرتے رہو ، پھر ( مشورے کے بعد ) جب تم نے عزم اور ارادہ کر لیا ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اس پر بھروسہ کرنے والوں سے ۔ “
ابن منظور اپنی معرکۃ الاراءتصنیف لسان العرب میں لکھتے ہیں ۔
(( الامر نقیض النہی.... والامر الحادثہ )) ( لسان العرب 26, 27/4 مادہ امر ) 
” امر نہی کا مقابل ہے یعنی حکم دینا اور امر کے معنی حادثہ اور واقعہ کے بھی آتے ہیں ۔ “
امام لغت کی اس تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ امر کے معنی حکم اور حکومت بھی آتے ہیں اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکومت کے معاملات میں اور اہم معاملات میں اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ کرتے رہو ۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ امام بغوی رحمہ اللہ ، ابن جوزی رحمہ اللہ ، امام قرطبی رحمہ اللہ ، ابن کثیر رحمہ اللہ اور علامہ آلوسی رحمہ اللہ سب نے اپنی تفاسیر میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ لینے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ امت کیلئے شورائیت کی سنت قائم ہو جائے تا کہ آئندہ امت آمریت کے راستے پر نہ چلے اور شورائیت کے شرعی قاعدے پر سختی کے ساتھ قائم رہے ۔

شوریٰ کے بارے میں احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم :

(( عن علی قال قلت یارسول اللہ ان نزل بنا امر لیس فیہ بیان امر ولا نھی فماتامرنی ؟ قال شاور فیہ الفقہاءالعابدین ولا تمض فیہ رای خاصۃ رواہ الطبرانی فی الاوسط ورجالہ موثقون ))( مجمع الزوائد178/1 )
” حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہمارے درمیان کوئی واقعہ رونما ہو جائے جس کے بارے میں نہ کوئی امر ہو اور نہ نہی ہو تو ایسے واقعہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ارشاد ہے ؟ فرمایا اس بارے میں عبادت گزار اور دیانت دار ماہرین شریعت سے مشورہ کر لیا کرو اور انفرادی رائے اختیار نہ کرو ۔ “
حضرت سہل بن سعد الساعدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشورہ کرنے والا کبھی حق سے محروم نہیں ہوتا اور اپنی ذاتی رائے کو کافی سمجھنے والا خوش پسند انسان کبھی سعید نہیں ہو سکتا ۔ ( تفسیر قرطبی251/4 سورۃ آل عمران )
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارے حکمران تم میں سے بہترین لوگ ہوں اور تمہارے دولت مند لوگ سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے طے کئے جاتے ہوں تو زمین کی پشت تمہارے لئے اس کے پیٹ سے بہتر ہو گی لیکن جب تمہارے حکمران تم میں سے بدترین لوگ ہوں گے اور تمہارے دولت مند بخیل ہوں گے اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو پھر زمین کا پیٹ تمہارے لئے اس کی پیٹھ سے بہتر ہو گا ۔ ( مشکوٰۃ شریف ، کتاب الرقاق ، باب تغیر الناس )
اس حدیث پاک میں عزت و آرام کی زندگی کیلئے تین چیزوں کو ضروری قرار دیا گیا ہے اور یہی تین چیزیں اسلامی ریاست اور صالح معاشرے کی بنیادی شرطیں ہیں ۔ صالح قیادت ، غریبوں کی کفالت اور شورائیت ۔
(( عن عائشۃ قالت ما رایت رجلا اکثر استشارۃ للرجال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )) (( ترمذی شریف کتاب الجھاد 241/1 ) 
” حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ لوگوں سے مشورہ کرنے والا ہو ۔ “
علامہ جلال الدین سیوطی متوفی نے ” الخصائص الکبریٰ “ میں ایک باب اس عنوان سے قائم کیا ہے ۔ ” باب اختصاصہ بوجوب المشورۃ “ یعنی مشاورت کا واجب ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی خلیفہ بننے کے بعد جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں کہا کہ اگر میں صحیح کام کروں تو میری اطاعت کرنا لیکن اگر میں غلط راستے کی طرف جاؤں تو مجھے ( صلاح مشورہ سے ) سیدھا کر دینا ۔
یوں تو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین شوریٰ کے واقعات سے بھرا پڑا ہے لیکن ہم صرف عہد نبوی کے تاریخی شورائی فیصلوں کے بارے میں ہی بحث کریں گے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ (( انی فیما لم یوح الی کاحدکم )) ( مجمع الزوائد کتاب المناقب 46/9 )
” جن معاملات میں وحی نہ آئی ہو ان میں مَیں تمہاری طرح کا انسان ہوں ۔ “
امام جصاص متوفی 370ھ فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشاورت کا حکم ان دینی امور کے بارے میں دیا گیا تھا جن کے متعلق اللہ کی طرف سے واضح ہدایت موجود نہ ہوتی تھی اور ان دنیوی اور انتظامی امور میں بھی مشاورت کا ہی حکم دیا گیا ہے جن کی بنیاد رائے اور ظنِ غالب پر ہوتی ہے ۔ ( احکام القرآن للجصائص40/2 )
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر غیر منصوص اور اہم معاملہ میں مشورہ فرمایا کرتے تھے خواہ وہ امور دینی احکام سے متعلق ہوں ، جنگ سے متعلق ہوں یا پھر ان کا تعلق انتظامی معاملات سے ہو ۔ یہاں پر دس تاریخی مثالیں بطور نمونہ پیش خدمت ہیں ۔ ان میں سے بعض مثالیں ایسی بھی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوریٰ کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے کو ترک کر دیا ۔
 

1 ۔ شورائے اذان 1ھ :

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مدنی دور کے آغاز میں لوگ نماز کے اوقات اپنے اندازے سے متعین کرتے تھے ۔ ایک دن اس کے لئے مشورہ کیا گیا کسی نے یہود کے بوق ( سینگھ میں پھونک مارنا ) کی تجویز دی اور کسی نے نصاریٰ کے ناقوس( بڑی گھنٹی ) کی رائے پیش کی ۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز دی کہ ایک شخص کو مقرر کیا جائے جو نماز کے اوقات میں بلند آواز سے لوگوں کو بلائے ۔ چنانچہ اسی پر فیصلہ ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا ۔ ( صحیح بخاری باب بدءالاذان 85/1 )
حضرت بلال نماز کے اوقات میں بلند آواز سے ” الصلوٰۃ جامعۃ “ کہا کرتے تھے لیکن بعد میں حضرت عبداللہ بن زید بن عبدِ ربہ رضی اللہ عنہ نے خواب میں آذان کے مروجہ الفاظ کسی سے سنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو انہی الفاظ کے ساتھ اذان دینے کا حکم دیا اور وحی بھی اس کی تائید میں آگئی ۔ چنانچہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اذان کا آغاز مشاورت سے ہوا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے کی تھی بعد میں بعض صحابہ کے خواب کے ذریعے ( مروجہ ) اذان مقرر ہوئی اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اہم امور میں مشاورت کرنا ایک شرعی طریقہ ہے ۔ ( فتح الباری219-20/2 )

2 ۔ شورائے بدر کبریٰ 2ھ :

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر ( راستے میں ) اپنے اصحاب رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے دی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی رائے سننے کیلئے خاموش رہے تو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر کہا : اگر آپ حکم دیں تو ہم دریا میں چھلانگ یا برک الغماد ( یمن ) تک اپنے گھوڑے دوڑانے کیلئے بھی تیار ہیں اس پر روانگی کا حکم ہوا ۔ اور فوج مقام بدر پر پہنچ کر مورچہ زن ہوگئی ۔ ( مسلم شریف ، کتاب الجھاد باب غزوۃ بدر )

3 ۔ شورائے اسارائے بدر 2 ھ :

بدر کے قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا اور فرمایا ان قیدیوں کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا فدیہ لے کر چھوڑ دیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری رائے تو یہ ہے کہ ان کی گردنیں اڑا دی جائیں اس لئے کہ یہ کفر کے امام اور اسلام دشمن سردار ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق فدیہ لے کر قیدیوں کو آزاد کر دیا ۔ ( ترمذی شریف کتاب الجھاد241/1 )
اب اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید میں قرآنی آیات نازل ہوئیں ملاحظہ ہو سورہ انفال کا نوواں رکوع ۔

4 ۔ شورائے احد 3ھ :

مولانا صفی الرحمان مبارکپوری نے اپنی مشہور کتاب ” الرحیق المختوم “ میں ذکر کیا ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفاعی حکمت عملی کے متعلق اپنی رائے پیش کی کہ مدینہ سے باہر نہ نکلیں بلکہ شہر کے اندر ہی قلعہ بند ہو جائیں لیکن بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے سخت اصرار کیا کہ جنگ شہر سے باہر جا کر موزوں ہو گی لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثریت کے اصرار کے سامنے اپنی رائے ترک کر دی اور آخری فیصلہ یہی ہوا کہ مدینہ سے باہر کھلے میدان میں معرکہ آرائی کی جائے ۔ ( الرحیق المختوم ، صفی الرحمن مبارکپوری ص 342 )

5 ۔ شورائے خندق 5ھ :

غزوہ احزاب ( خندق ) کے موقع پر بھی شوریٰ طلب کی گئی کہ باہر جا کر محاذ قائم کیا جائے یا شہر کے اندر مورچے بنائے جائیں ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا تو مسلمانوں کو یہ رائے پسند آئی چنانچہ اسی پر عمل کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا ۔ ( طبقات ابن سعد 66/2 سیرت ابن ہشام 224/3 )

6۔ شورائے مصالحت خندق میں5 ھ :

غزوہ خندق کے موقع پر جب محاصرہ سخت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عظفان کے لیڈروں عیینہ بن حصن اور حارث بن عوف کے ساتھ مدینہ کے باغات کے پھلوں کا ( ثلث ) دے کر مصالحت کی بات کی تو آخری فیصلہ سے قبل مشورہ کرنا ضروری سمجھا گیا انصار کے رہنماؤں میں سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر یہ خدا کا حکم ہے تو ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن اگر حکم نہیں ہے تو پھر ہم مصالحت پر تیار نہیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ اللہ کا حکم ہوتا تو میں آپ سے مشورہ نہ کرتا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے پر شوریٰ کی رائے کو ترجیح دی اور مصالحت کی بات چیت ختم کر دی ۔ ( الکامل لابن اثیر 181/2 سیرۃ حلبیۃ640/2 )

7 ۔ واقعہ افک کے متعلق شوریٰ 6ھ :

غزوہ بنو المصطلق کے سفر میں منافقین کے لیڈر عبداللہ بن ابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پر بہتان تراشی کی تھی اور مدینہ منورہ میں پروپیگنڈے کا ایک طوفان برپا کر دیا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ام المومنین سے علیحدگی اختیار کرنے کے متعلق مشورہ کیا اور پھر مسجد میں جا کر اجلاس عام میں کہا ۔
” اے مسلمانو ! کون مجھے معذور جانے گا ۔ اگر میں اس شخص کے خلاف کوئی قدم اٹھاؤں جس سے مجھے تکلیف پہنچی ہے میری بیوی کے بارے میں حالانکہ خدا کی قسم مجھے اپنی بیوی کے متعلق خیر کے علاوہ کچھ معلوم نہیں ہوا ۔ “
لیکن بعد میں سورۃ النور نازل ہوئی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی پاکدامنی واضح ہو گئی اور سازشیوں کو ناکامی ہوئی ۔ ( صحیح بخاری ، کتاب المغازی باب غزوۃ بنو المصطلق )
 

8 ۔ شورائے حدیبیہ :

غزوہ حدیبیہ کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ” غدیر الاشطاط “ کے مقام پر پہنچے تو مسلمانوں کے مخبر نے آ کر اطلاع دی کہ قریش مکہ نے اپنے حلیف قبائل کو جمع کر لیا ہے جو آپ کو بیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانو ! مجھے مشورہ دو کہ اب کیا اقدام کیا جائے یہ مناسب ہے کہ قریش کے ان دوستوں ( احابیش ) کے گھروں پر حملہ کیا جائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رائے دی کہ آپ کعبہ کی زیارت کی غرض سے آئے ہیں پس اسی کیلئے آگے بڑھئے جو بھی ہمیں روکے گا ہم اس سے لڑیں گے لیکن بعد میں صلح ہو گئی ۔ ( صحیح بخاری ، کتاب المغازی باب غزوۃ حدیبیہ )

9 ۔ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق شوریٰ 8ھ :

غزوہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین میں بنوہوازن کے 6000 ہزار قیدی گرفتار ہوئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے محاصرے سے واپس آ کر جعرانہ کے مقام پر کچھ دیر انتظار کیا تا کہ یہ لوگ ایمان قبول کر لیں تو ان کا مال اور قیدی دونوں واپس کر دئیے جائیں گے لیکن انہوں نے آنے میں دیر کی تو مال غنیمت تقسیم کر دیا گیا ۔ ( ابوداؤد شریف ، کتاب الجھاد 141-42/3 )
بعد میں جب طائف والے پشیمان ہو کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” شورائے عام “ بلائی اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدی رہا کر دئیے جائیں ۔ تم میں سے جو بطیب نفس اپنا قیدی آزاد کرنا چاہے تو مناسب ہو گا ورنہ ہم اسے معاوضہ دے کر آزاد کر دیں گے ۔ لوگوں نے کہا ہم بخوشی آزاد کرتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم واپس جا کر اپنے نمائندوں کو اپنی رائے دو ۔ نمائندوں نے بعد میں آ کر کہا سب راضی ہیں تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قیدی رہا کر دئیے ۔ ( بخاری شریف کتاب المغازی )

10۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے بارے میں شوریٰ 10 ھ :

حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بناتے وقت شوریٰ بلائی گئی تھی ۔ ارکان شوریٰ نے اپنی اپنی رائے پیش کی اور کافی غور و خوض کے بعد معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا گیا ۔ ( مجمع الزوائد ، کتاب المناقب 46/9






قیام پاکستان اور اس کے اہم تقاضے


مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان ، دنیا کے نقشے پر ایک منفرد محل وقوع ، جغرافیائی عوامل ، معدنی ذارئع ، نظریاتی تشخص اور ثقافتی وجود رکھتی ہے ۔ اگر اس خطے میں مسلم تاریخ کا کھوج لگایا جائے تو بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ اللہ کے بقول پاکستان تو اسی روز معرضِ وجود میں آ گیا تھا ، جب کسی مسلمان نے سب سے پہلے اس خطے پر قدم رکھا تھا ۔ 711ءمیں محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ برصغیر میں پہلی اسلامی ریاست کا آغاز ہوگیا ۔ اگرچہ اس سے پہلے عہدِ فاروقی میں مکران ( بلوچستان ) کے علاقے میں صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین رحمہ اللہ کی ایک جماعت قدم رنجہ فرما چکی تھی ۔ ان کی قبور آج بھی وہاں پر موجود ہیں ، جن کی نسبت سے پنج گور کا قصبہ معروف ہے ۔ صحاح ستہ کے ایک مجموعے کے مدون امام ابوداؤد رحمہ اللہ کا تعلق سجستان سے ہے ، جو اُس عہد میں بلوچستان کی جغرافیائی حدود میں تھا ۔ یوں برصغیر میں اسلامی سلطنت کو اصل قوت سندھ اور بلوچستان کے راستے سے فراہم ہوئی ہے ۔ امویوں اور عباسیوں نے سندھ میں اپنے گورنر مقرر کئے جس کے نتیجے میں282 سال تک عرب خاندانوں کی حکومت سندھ میں قائم رہی ۔ اس کے بعد مقامی سومرہ خاندان کی حکمرانی شروع ہوئی ۔ اس مقامی حکومت نے باطنی مذہب کو اپنا لیا ، جس کے باعث اس کی سیاسی وفاداریاں فاطمینِ مصر کے ساتھ قائم ہو گئیں ۔ اسی دور میں افغانستان میں غزنوی برسرِ اقتدار آئے ۔ ہندوستان میں اس زمانے میں جے پال کی حکومت تھی جو غزنویوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو روکنا چاہتا تھا مگر سبکتگین نے اسے غزنی کے قریب شکست دی اور نتیجۃً وہ صلح پر مجبور ہو گیا ۔ غزنوی سلطنت کی سرحدیں پشاور تک قائم ہوگئیں ۔ محمود غزنوی نے1022ءمیں پنجاب کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا اور لاہور کو پایہ تخت بنایا جہاں918 سال بعد بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ اللہ کی صدارت میں دوقومی نظرےے پر مبنی ایک اسلامی ریاست کے قیام کی قرارداد منظور ہوئی ۔


برصغیر کی ملتِ اسلامیہ ایک ہزار سالہ اقتدار کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں سیاسی اقتدار سے محروم ہو کر قعر مذلت میں گر گئی ۔ لیکن بہت جلد اس میں آزادی کی تحریکیں اٹھیں اور انہوں نے مسلمانوں کے تنِ خستہ میں ایک نئی روح ڈال دی ۔ تحریکِ مجاہدین نے ایک ولولہ تازہ دیا ۔ اکبر الٰہ آبادی کی شاعری نے مغربی تہذیب کا نقاب اتار دیا ۔ حالی کی مسدس نے ماضی کے جھروکوں سے مستقبل کی درخشندگی کی تصویر دکھائی ۔ اقبال نے ملت کی خاکستر میں چھپی چنگاریوں کو شعلہ جوالہ بنا دیا ۔ ملتِ اسلامیہ کی درماندگی پر فطرت کو رحم آ گیا اور بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ اللہ کی صورت میں وہ بطلِ جلیل اور مردِ حریت سامنے آیا جس نے ملی قیادت کے پرچم کو سربلند کر دیا ۔ بیسویں صدی کی ملتِ اسلامیہ کے پاس قائداعظم رحمہ اللہ سے بہتر سیاسی بصیرت اور تدبر رکھنے و الی کوئی اور شخصیت نہ تھی ۔ متوسط درجے کے کاٹھیاواڑی تاجروں کے سپوت نے انگریز کے پٹھوؤں اور ان کے کاسہ لیس جاگیرداروں کی دوغلی پالیسی کے باوجود منزل مراد کو حاصل کر لیا ۔ یہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ تھا ۔ 


نگہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پرسوز 

یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے 

( اقبال )

پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں ۔ یہ عرصہ قوموں کی زندگی میں کوئی معمولی اہمیت نہیں رکھتا ۔ کم از کم تین نسلیں اس میں پرورش پا چکی ہیں ۔ مگر قومی اور ملی سطح پر ابھی تک ہم بہت سی محرومیوں اور مایوسیوں کا شکار ہیں ۔ سولہ کروڑ کی آبادی کا موجودہ پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے ۔ اس کے زرعی اور معدنی وسائل ایسے ہیں کہ ہمیں خود انحصاری پر مبنی معیشت کو رواج دینا چاہئیے ۔ مگر ہماری معاشی صورتِ حال مسلسل قرضوں کے باعث مفلوج ہو چکی ہے ۔ مہنگائی کا عفریت منہ کھولے وسیع تر آبادیوں کو نگل رہا ہے ۔ ناخواندگی اور جہالت کی دلدل سے ہم ابھی تک باہر نہیں نکل سکے ۔ جمہوری کلچر ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ ہے مگر وقفے وقفے سے اس پر شب خون مارے جاتے ہیں ۔ اس کا باعث اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاں اداروں کی نہیں افراد کی حکومت ہے ، جو قومی تشکیل اور ملی مقاصد کے لیے کوئی مفید راہِ عمل نہیں ہے ۔ ہماری انتظامیہ قوم کی خدمت میں یکسر ناکام رہی ہے ۔ انتظامی اور عدالتی اداروں کے زخم خوردہ لوگ ابھی تک غلامانہ ذہنیت سے نجات حاصل نہیں کر سکے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی جس کی اس ملک کو سب سے زیادہ ضرورت ہے ، ابھی تک مفقود ہے ۔ نوجوان نسل بیروزگاری کے چنگل میں گرفتار ہے ، اسے نجات دلانے کا کیا راستہ ہے ، ہمیں اس کی چنداں فکر دکھائی نہیں دیتی ۔ معاشرے کے بعض طبقات میں انتہا پسندی کی علامتیں پائی جاتی ہیں ۔ ہم ایک امتِ وسط اور اعتدال کے رویوں کو حاصل کیوں نہیں کر سکے ، اس پر مسلسل توجہ کی ضرورت ہے ۔
ہماری مملکت کا ایک واضح دستور ہے جس کی حقیقی روح پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں صوبائی منافرت کے جراثیم ملی وجود کو بیمار کر رہے ہیں ۔ توانائی کا بحران ہماری قومی اور صنعتی کارکردگی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ، اس کے خاتمے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کیوں نہیں ہے ؟ معاشرے میں جرائم کی مسلسل بڑھتی ہوئی لہر کہیں رکنے کا نام نہیں لیتی ، اس کے اسباب و وجوہ پر غور کر کے اس کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر کاوش کیوں نہیں کی جاتی ؟ ہمارا تعلیمی نظام اعلیٰ معیارات سے بہت دور ہے ۔ تحقیق ہمارے تعلیمی نظام میں وہ اعتبار حاصل نہیں کر سکی جو کسی قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ثابت ہو سکتا ہے ؟ دینی مدارس میں جو نصابِ تعلیم پڑھایا جا رہا ہے ، اس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ سوچ اور تنگ نظری پیدا ہو رہی ہے ۔ اس میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ملی مقاصد کو بروئے کار لانے کی سوچ کیوں مفقود ہے ؟ فقہ کا تقابلی مطالعہ اور جدید تمدنی مسائل پر اجتہادی بصیرت پیدا کرنے کے ذرائع پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی ؟ اردو زبان ساٹھ سال گزرنے کے باوجود اپنا صحیح مقام حاصل نہیں کر سکی ۔ علاقائی زبانوں کی ترقی کے ساتھ اس قومی زبان کی سرپرستی نہ کرنے کی بنا پر ہم اپنی ملی تشکیل اور قومی مزاج سے محروم ہیں ۔ ذرائع ابلاغ نے اگرچہ ملک میں بہت ترقی کی ہے مگر وہ سولہ کروڑ افراد کو ایک متحد الفکر قوم بنانے کے فریضے سے غافل ہیں ۔ میڈیا شعور تو پیدا کر رہا ہے مگر اس کے نتیجے میں ذہنی انتشار میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ عورتوں کے حقوق معاشرے میں پامال ہیں اور کم عمر بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے ایک بہت بڑی تعداد میں قبل از وقت ملازمت کرنے پر مجبور ہیں ، جس کے باعث ان کی موزوں ذہنی تربیت پر ہماری کوئی توجہ نہیں ۔ ایسے گوناگوں اسباب کی وجہ سے ہمیں عالمی سطح پر سامراجی قوتیں خوف زدہ کر رہی ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور یہ معاذ اللہ بہت جلد اپنا وجود کھودے گی ۔ بہت سے عناصر اس قسم کی مایوسی پھیلا کر قوم میں بے عملی ، انتشار اور انار کی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
ہمارے نزدیک قومی سطح پر سب سے پہلے ہمیں اس مایوسی اور افسردگی کی فضا سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان خدا کے فضل و کرم سے ایک توانا قوم اور موزوں وسائلِ معیشت کا ملک ہے ، جس میں ترقی و تعمیر کے تمام تر امکانات موجود ہیں ۔ اس ملک کی جغرافیائی صورتِ حال پر توجہ کریں تو جا بجا قدرت کی فیاضیاں دکھائی دیں گی ۔ قومی اور ملی قیادت کا بحران اگر ختم ہو جائے تو ہم اپنے وسائل پر زندہ رہنے کی مکمل اور بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمیں جن اہداف پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، ان کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہئیے ۔
ہمیں سب سے پہلے نظریاتی تشخص کا دفاع کرنا چاہئیے ۔ قومیں معاشی بحران سے ختم نہیں ہوتیں مگر نظریاتی اور ثقافتی شناخت کھو کر تاریخ میں مرقع عبرت بن جاتی ہیں ۔ غربت بلاشبہ ہمارا بنیادی مسئلہ ہے مگر اس کا علاج معاشی ناہمواریوں کو ختم کر کے سادگی کے کلچر کو اپنانے میں مضمر ہے ۔ قومی سطح پر ہم ایک سادہ طرزِ زندگی کے خوگر نہیں رہے ۔ اس سلسلے میں حکام بالا اور خوش حال طبقے کو مثال قائم کرنا ہو گی ۔ ہمارے بہت سے وسائل غیر تعمیری کاموں پر صرف ہو رہے ہیں ۔ قرضوں کی معیشت کو ختم کر کے خود انحصاریت کے کلچر کو رواج دینا ہوگا ۔
جہالت اور خواندگی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ دوسرے تمام مسائل اس کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں ۔ قومی سطح پر بہت جلد ایسی تعلیمی پالیسی بنانا چاہئیے جس میں کم سے کم وقت میں مکمل خواندگی کی سطح کو حاصل کیا جاسکے ۔ قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنائے بغیر یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا ۔ بیسیوں قسم کے نصاب ہائے تعلیم کے بجائے قومی سطح کے ایک مربوط نصابِ تعلیم کو جو ہماری نظریاتی اور ثقافتی قدروں سے ہم آہنگ ہو ، فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ تعلیمی معیار اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ اساتذہ کی ہمہ وقت تربیت اور ان کی ذہنی آسودگی کا اہتمام نہ کیا جائے ۔ ہمارے ہاں اساتذہ کی علمی ، تدریسی اور تحقیقی ترقی کے لیے موزوں ادارے نہیں بنائے گئے ہیں ۔
دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کو اب سنجیدگی سے اپنے نصابات کی تشکیلِ جدید پر توجہ دینا ہو گی ، وگرنہ جس قسم کے ائمہ اور خطیب وہ پیدا کر رہے ہیں‘ نئی نسلیں ان سے مطمئن نہیں ہیں ۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور معاشرتی وحدت کا نقیب ہے ۔ ہم نے اس دینِ فطرت کو فقہی تنگ نائیوں کا شکار کر رکھا ہے اور یہ جدید تمدنی اور سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔ علمائے کرام اگر اخلاص اور شعور سے توجہ دیں گے تو وہ ایک ایسی راہِ عمل ترتیب دے سکتے ہیں ، جس سے ان کے علمی اور معاشرتی وقار میں اضافہ بھی ہو گا اورامت کی وحدت کے سامان بھی پیدا ہوں گے ، جن کی موجودہ ماحول میں اشد ضرورت ہے ۔
قومی وحدت کے فروغ میں ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے کردار کی اہمیت ہر صاحب نظر پر واضح ہے ۔ مگر ہمارے چینل حالاتِ حاضرہ پر تبصرے تو بہت اچھے کرتے ہیں لیکن قومی وحدت کے حصول کے لیے کوئی نمایاں خدمات انجام نہیں دے رہے ۔ ہمیں ابلاغ کے ان ذرائع سے یہ بھی اختلاف ہے کہ وہ تفریح کے مثبت پروگرام پیش کرنے کا تخلیقی شعور نہیں رکھتے ۔ ان کی کمرشل ضرورتوں کا احترام بجا مگر پروگراموں کی علمی اور ثقافتی سطح کو اپنے مخصوص نظریاتی تشخص کے حوالے سے پیش کرنا ، ایک قومی ضرورت ہے ۔ میڈیا کو اگر قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تو قوم کو بہت جلد مایوسیوں سے نکال کر عصری چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لائق بنایا جا سکتا ہے ۔
معاشی سطح پر نوجوانوں کو میٹرک کے بعد ایسی فنی اور ووکیشنل تعلیم فراہم کی جائے ، جس کے باعث وہ محض دفتروں میں ملازمت تلاش کرنے کے بجائے اپنی فنی مہارتوں کے ذریعے سے معاشرے کی خدمت کرنے کے ساتھ اپنے لیے باوقار معیشت کا انتظام بھی کریں ۔ اسی طرح گھریلو خواتین کے لیے بالخصوص دیہاتوں میں ایسے صنعت و حرفت کے منصوبے بروئے کار لائے جائیں جس سے ان خاندانوں کی معاشی کفالت میں مدد ملے اور قومی معیشت کو بھی اس سے سہارا ملے ۔ قوم کی سیاسی ، معاشی ، عدالتی اور تعلیمی اصلاح سے زیادہ اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس کا دستوری تقاضا ہے کہ ہم باشندگانِ وطن کو بہترین مسلمان بنائیں ۔ ان کی اخلاقی تربیت کے لیے تمام قسم کے تعلیمی ، دعوتی اور ابلاغی وسائل کو بروئے کار لائیں ۔ اس سلسلے میں ایک ملک میں عوامی کتب خانوں کو رواج دینا چاہئیے ۔ نیز بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کا ایک مستقل تعلیمی چینل ترتیب دینا چاہئیے جو ان کی دینی اور اخلاقی تربیت کے مقاصد کو پورا کر سکے ۔


پاکستان میں مایوسی کی جو لہر دکھائی دیتی ہے ، یہ عالمی استعمار اور اس کے مقامی گماشتوں کی پیدا کردہ ہے ۔ یہ ملک آج سے ساٹھ سال پہلے جن حالات میں معرضِ وجود میں آیا ، اس کی نسبت تو آج ہم بہت ترقی کر چکے ہیں ۔ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں ۔ ہمارے وسائلِ زندگی میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے ۔ ہم تعلیم اور ابلاغ کی منزلوں کو طے کر رہے ہیں ۔ ہمارا ایک روشن مستقبل ہے اور ہمیں انشاءاللہ اس وطن عزیز کو عالم اسلام کے لیے ایک ماڈل بنانا ہے اور امنِ عالم کے فروغ میں اپنا مثبت کردار انجام دینا ہے ۔ معاشرے میں ہر نوع کے ذمہ داران اٹھیں اور مملکت کی عزت اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں ۔ حکمرانوں اور قیادت کی اپنی ذمہ داریاں ہیں مگر علمائے کرام ، اساتذہ اور ابلاغ کے اداروں پر بھی اس تبدیلی کی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ ع

Saturday, January 29, 2011

ہندو دہشت گردی۔۔۔۔

سوامی اسیمانند کا اصلی نام نابا کمار ہے ۔یہ شخص مغربی بنگال کے کامارپکا ر نامی گاؤں میں پیدا ہوا اورطالبعلمی ہی کے زمانے آر ایس ایس کی پکار پر لبیک کہہ کر اس میں شامل ہو گیا ۔کالج کے زمانے جب نابا ایم ایس سی کی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر بردمان آیا تو سنگھ کے حوالے اسکی دلچسپیوںمیں خاصہ اضافہ ہو چکا تھا؁ ۱۹۷۷ءکے آتے آ تے نابا کمار آرایس ایس کا ہمہ وقتی کارکن بن چکا تھااورضلع پرولیا کے قبائلی علاقوں سنگھ پریوار کی ایک ذیلی تنظیم وسنواسی کلیان آشرم کیلئے کام کرنے لگاتھا۔؁ ۱۹۸۸ ء سے؁ ۱۹۹۳ ء تک نابا کمار انڈمان نکوبار میں ونواسی آشرم کی خدمت میں لگا رہا ۔ اس کے بعد سارے ملک کا دورہ کر کے ادیواسیوں کے درمیان ہندو دھرم کا پرچار کرتا ہواگجرات کے ڈانگ ضلع میں پہونچا اور شبری آشرم قائم کر کے وہیں بس گیا ۔سنگھ پریوار کے ساتھ اس کےسفر میں ایک سہانا موڑ اسوقت آیا جب اس کے گرو پرم آنند نے اسے اسیم آنند کے خطاب سے نوازہ ۔پرم آنند کے معنیٰ اولین مسرت کے ہوتے ہیں اور اسیم آنند بے انتہا سرور کو کہتے ہیں ۔یقیناً عرصۂ دراز تک نابا کمار نے سنگھ پریوار کو بے شمار خوشیوں سے نوازہ لیکن فی الحال یہ ان کے لئے وبالِ جان بنا ہوا ہے اور مسلمانوں کو خوش کررہا ہے ۔ دہلی کی تیس ہزاری کورٹ میں اسکے اقبالیہ بیان سے اس نے زبردست تہلکہ مچا رکھا ہے ۔اسیم آنند نے مالیگاؤں ، حیدرآباد اور اجمیر سمیت سمجھوتا ایکسپریس کے دھماکے میں اپنے ملوث ہونے کو تسلیم کر کے سنگھ پریوار کی نیند حرام کر دی ہے۔


سنگھ پریوار فی الحال اس قدر حواس باختہ ہے کہ طرح طرح کے متضاد بیانات دینے لگا ہے ۔ سنگھل کے مطابق کوئی اسیم آنند نے سرے سے کوئی بیان ہی نہیں دیا گیا یہ سب ذرائع ابلاغ کی جانب سے اڑائی جانے والی افواہیں ہیں۔اس طرح کا بچکانہ بیان دینے کی جرأت اشوک سنگھل کے علاوہ اور کون کر سکتا ہے؟ سنگھل جی جانتے ہیں کہ ان کے حاری حواریوں کی عقل مقؤف ہوچکی ہے اس لئے وہ ان کی ہر بے سر پیر کی منطق کو بلا چوں چرا قبول کر لیں گے۔بی جے پی کا ترجمان کبھی توکہتا ہے کہ کانگریس حکومت سمجھوتا ایکسپریس بم دھماکے کا الزام ہندوستانیوں کے سر ڈالکر کر پاکستان کی مدد کر رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی مہم کو کمزور کر رہی ہے گویا کہ اصل دہشت گردوں کو چھپانا اور بچانا نیز معصوم لوگوں کو بے بنیاد الزامات کے تحت جیل کی سلاخوں پیچھے ٹھونس کر پاکستان کے نام کی مالا جپتے رہنے سے دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی مہم تیز ہوتی ہے ۔اور کبھی روی شنکر پرساد فرماتے ہیں کہ یہ بدعنوانیوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کی سازش ہے جس میں سنگھ کو بلی کا بکرہ بنایا جارہا ہے۔ آر ایس ایس کے ترجمان رام مادھو کے مطابق یہ بیان سی بی آئی نے زبردستی کر کے لکھوایا ہے۔ سنگھ رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ اسیم آنند کا سنگھ سے کو ئی تعلق نہیں تھا حالانکہ سنگھ کے سر سنگھ چالک سے لیکر بی جے پی کے سارے بڑے رہنما اس کے آشرم پر برابر حاضری حاضری لگا چکے ہیں ۔ کل کو آر ایس ایس والے یہ بھی کہہ دیں گے ونواسی آشرم کا سنگھ سے کو ئی تعلق نہیں ہے اور اس جھوٹ کو دنیا کی ہرعدالت میں سچ ثابت کر دیا جائیگا ۔


اسیمانند کے مطابق اس نےچنچلگڈا جیل میں عبدالکلیم نامی نوجوان کے اخلاق سے متاثر ہوکر کفارہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ بات صحیح ہو سکتی ہے لیکن جو شخص اتنے سارے معصوموں کی ہلاکتوں سے متاثر نہیں ہوا ۔ سادھوی پرگیہ کی گرفتاری کے بعد عرصۂ دراز تک روپوش رہا اور گرفتار ہونے کے بعد قلیل عرصہ میں اچانک معجزاتی طور پر اس کا قلب منقلب ہو گیا یہ تسلیم کر لینا مشکل لگتا ہے ۔ممکن ہے اسیمانندوعدہ معاف گواہ بن گیا ہو اور کانگریس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہو۔اس نے اپنی ساری کہانی کا مرکزی کردار جس سنیل جوشی کو بنایا اسے ہلاک کیا جاچکا ہے ۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اسے خود پریوار نے پرلوک سِدھار (روانہ کر)دیا۔اسیم آنند کے مطابق اس کا کام سرمایہ مہیا کرنا تھا اور بم بنانے والے اور پھوڑنے والے اور لوگ تھےنیز ہر دھماکے کی اطلاع اسے اشارے سے یا بعد میں دی گئی ۔اس سے اسیمانند کا بلاواسطہ ملوث ہونا تو ثابت ہوتا ہے بلواسطہ نہیں ۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں ہندو دہشت گردوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ان کے مقدمے کو خود انتطامیہ اس قدر کمزور کردیتا ہے کہ عدالت کیلئے کوئی سزا تجویز کرنا ممکن نہیں ہو جاتاہے۔ عدالت کو بھی اس طرح کے مقدمات میں کم ہی دلچسپی ہوتی ہے۔بابری مسجد کے فیصلے ہندوستانی عدالتوں کی غیرجانبداری کی منہ بولتی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اسیما نند اس بات سے بھی واقف ہیں کہ وطنِ عزیز کا سیاسی نظام جن چار پیروں پر کھڑا ہوا ہے یعنی مقننہ ، عدلیہ، انتظامیہ اور جمہوریہ (عوام) ان سب کو ہندو دہشت گردوں کے خلاف اقدام کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے وگرنہ اس ملک میں ٓدوانی اور مودی جیسے لوگوں کا نام وزیراعظم کے طور پر نہ اچھالا جاتا اور انہیں ہر طرح کا تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔


یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بدعنوانی کے الزامات سے پریشان منموہن سرکار کو اس معاملے سے خاصی راحت ملی ہے ۔ ذرائع ابلاغ اسے خوب اچھال رہا ہے اور اس عوام کی توجہات بی جے پی اور سنگھ پریوار کی جانب مرکوز ہو رہی ہیں۔ گوہاٹی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی اجلاس میں کانگریس پر شدید تنقید کا امکان تھا لیکن اس کے عین ایک دن پہلے اس راز کا فاش ہوجانا یقیناً کسی کے پردۂ زنگاری میں چھپے ہونے کی نشاندہی کرتا ہے خیر وجہ جو بھی ہو اس سے قطع نظراگر ان دونوں شیطانوں کی آپسی سر پھٹول سے حقائق باہر آجاتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائی گئی افواہوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں تو یقیناً یہ نہایت خوش آئند بات ہوگی۔ لیکن ساری اٹھا پٹخ کا ٹھوس فائدہ اسی وقت ہوگا جب ان دھماکوں کے جھوٹے الزامات میں گرفتار مسلم نوجوان رہا کر دیئے جائیں۔ جن پولس افسران نے انہیں گرفتار کیا انہیں اپنے کئے کی قرار واقعی سزا دی جائے نیز جن سیاستدانوں نے نام نہاد مسلم دہشت گردی کی آگ پر سیاسی روٹیاں سینکیں ان کا سیاسی مستقبل اسی تنور میں جھونک دیا جائے ۔ جمہوری ہندوستان میں یہ معقول توقعات بھی نہ جانے کیوں خام خیالی محسوس ہوتی ہیں۔


ہیمنت کرکرے کی تفتیش سے لے کر اسیمانند کے اعتراف تک کے سفر کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہندوستان کا ہر مسلمان دہشت گرد نہ سہی ہر دہشت گرد مسلمان ضرور ہے ۔ اب یہ بات جگ ظاہر ہو گئی ہے کہ ہندوستانی دہشت گردی میں پیش پیش مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہیں ۔ ہمارے وطن ِ عزیز میں دہشت گردی کی دو بڑی قسمیں ہیں ایک سرکاری اور دوسرے عوامی ۔ سرکار کی باگ ڈور گذشستہ چند صدیوں سے مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے اس لئے سرکاری دہشت گردی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ آزادی کے بعد سے تمام تر سرکاری دہشت گردی کا سہرہ ہندوؤں کے سر بندھتا ہے اسی لئے کہ وہی حکومت کا کام کاج چلا رہے ہیں۔ سرکاری دہشت گردی کی ابتدا حیدرآباد کے خلاف پولس ایکشن سے ہوئی ۔ ہندوستان میں برپا ہونے والے اکثرو بیشتر فرقہ وارانہ فسادات یا تو حکومت کی سر پرستی میں کرائے گئے یا کم از کم حکومت نے فسادیوں کو تحفظ فراہم کیا اس کی سب سے بڑی مثال دہلی میں سکھوں کا قتلِ عام اور گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی ہے ۔ زمانے کے ساتھ حکومت نے ببانگ ِ دہل انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے نام سے ایک سرکاری مافیا کو بھی جنم دیا جنھیں قانون کو ہاتھ میں لے کر معصوم عوام کا خون بہانے کی اجازت دے دی گئی۔ انسل پلازہ کا واقعہ جس کا پردہ ایک ہندو وکیل فاش کر دیا اس کی ایک مثال تھا۔جامعہ ملیہ میں معصوم طلبا کی شہادت کا خون ابھی خشک نہیں ہوا ہے ۔گجرات میں اے ٹی ایس کمشنر ونجارہ حوالات میں بند ہے اور ہیمنت کر کرے کے قتل پر شکوک و شبہات کی دبیز چادر اسی ایک کڑی کے بکھرے ہوئے دانے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے عوامی احتجاج کو دبانے کی خاطر لال گڑھ میں جو کیا گیاوہ جگ ظاہر ہے ۔چھتیس گڑھ میں عوام کو غریب عوام اپنے گھروں سے بزورِ قوت بے خانماں کیا گیا اور انہیں سرکاری کیمپوں میں رکھ کر نہ صرف عسکری تربیت دی گئی بلکہ اسلحہ سے لیس کر کے نکسلیوں کے خلاف سلوا جودم کا نام دے کر اتارا گیا۔ ان حقائق کا راز فاش کرنے والے بین الاقوامی انعام یافتہ سماجی کارکن ڈاکٹربنائک سین کو عمر قید کی سزا سے نواز دیا گیا یہ سب سرکاری دہشت گردی کا ایک حصہ ہے۔ نسل نوجوانوں کے ساتھ کانگریس سے لے کر کمیونسٹوں تک نے جو کچھ کیا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔


عوامی دہشت گردی یا عسکریت پسندی کی چار شاخیں ہیں ۔علٰحیدگی پسند تحریکیں ان میں کشمیر کے علاوہ سب کی سب ہندو عوام کی جانب سےچلا ئی جا رہی ہیں۔ سکھوں کو بھی چونکہ سنگھ پریوار ہندو شمار کرتا ہے اس لئے یہ کہنا پڑے گا کہ پنجاب سے لے کر آسام تک اس طرح کی ساری علٰحیدگی پسند جماعتیں ہندو مذہب کے ماننے والے چلا رہے ہیں۔قسم دوم نکسلوادی عسکریت پسندی ہےاس کو بھی چلانے والے مسلمان نہیں بلکہ ہندوہی ہیں اس کے حامیوں میں بھی سرِ فہرست ارون دھتی رائے اور ڈاکٹر سین جیسے ہندووں کا نام آتا ہے۔ اس کے بعد ہندو فسطائی دہشت گردی ہے تو اس کی ابتداء آزادی سے قبل نواکھالی کے فسادات سے ہوگئی تھی اور اس کا سب عظیم مظہر مہاتما گاندھی کا قتل تھا۔ ناتھو رام گووڈسے نام نہاد اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والا براہمن ہندو تھا۔ اس کا تعلق نہ صرف ہندو مہا سبھا سے تھا بلکہ وہ آر ایس ایس کا بھی ممبر رہ چکا تھا۔ دہلی جانے سے قبل وہ بنفسِ نفیس دامودر ساورکر کی خدمت میں آشیرواد لینے کی خاطر حاضر ہو اتھا اور ساورکر نے اسے ‘‘یشسوی بھوو’’(کامیاب ہو کر لوٹو) کے دعائیہ کلمات کے ساتھ روانہ کیا تھا۔ اندرا گاندھی کو قتل کرنے والا محافظ مسلمان نہیں تھا اور راجیو گاندھی کو بھی مارنے والی دھانو بھی ہندو ہی تھی اسے اس مہم پر روانہ کرنے والا پربھا کرن بھی مسلمان نہیں تھا ۔ اسیمانند نے اگر کچھ ہندووں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی خبر دے دی تو یہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے۔


مسلمانوں کا نام اس دہشت گردی میں پہلی بار ؁ ۱۹۹۲ ء میں آیا یہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد کی بات ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سورت میں نہ صرف فسادات ہوئے اور مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی اور اس کی ویڈیو فلم بھی کر اسے پھیلایا گیا۔ اس ویڈیو کا ردعمل ممبئی میں ماتھاڈی کامگاروں کےقتل کی صورت میں رونما ہوا جو یقیناً قابلِ مذمت حرکت تھی اور مسلم قوم اور اس کے رہنما وں نے اس کی بھر پور مذمت کی اس کے باوجود مسلمانوں کو سبق سکھانے کی خاطر مرکزی وزیرِ دفاع شرد پوار،وزیرِ اعلیٰ سدھاکرنائک اور بال ٹھاکرے متحد ہوگئے اور سرکاری سرپرستی میں فسادات کرائے گئے جس میں تقریباً ایک ہزار افراد جان بحق ہوئےجن میں بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔اس کے بعد ماہِ مارچ میں مسلمانوں کا رد عمل سامنے آیا اور ممبئی میں پے در پے دھماکے ہوئے جس میں تقریباً ساڑھے تین سوافراد ہلاک ہوئے۔ اس دھماکے کو کرنے والے اصل مجرم پولس کے ہتھے آج تک نہیں چڑھے لیکن حکومت معصوم لوگوں کو برسوں سےقیدو بند میں رکھے ہوئے ہے۔ اس واقعہ کے بعد تقریباً دس سال امن رہا اس لئے کہ سارے لوگوں کی سمجھ میں آگیا کہ ظلم کے ببول پر امن کا پھول نہیں کھلتا۔


؁ ۲۰۰۱ء میں مرکزی حکومت کی باگ ڈور بی جے پی کے ہاتھ میں تھی اور ہندوستان کے تعلقات امریکہ سے بہتری کی جانب مائل تھے کہ ۱۱ستمبر کا حملہ ہو گیا اور اس کے بعد امریکہ بہادر کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بی جے پی نے اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا پر پابندی عائد کر دی۔ ؁ ۲۰۰۲ء میں دوبارہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے نریندر مودی نے فروری کے اندرگجرات فساد کروائے اور ستمبر میں اکشر دھام مندر پر حملہ کروا کر ہندو رائے دہندگان کو مزید خوفزدہ کر دیا ۔ اکشر دھام حملے کیلئے کشمیری مجاہدین کو ذمہ دار ٹہرایا گیا نتیجہ یہ ہوا کیشو بھائی کی ناراضگی اور واگھیلا کی بغاوت بھی بی جے پی کا کچھ بگاڑ نہ سکی دسمبر کے مہینے میں مودی نے غیر معمولی انتخابی کامیابی درج کروائی اور اس کے بعد دھماکوں کے لامتناہی سلسلے کا آغاز ہو گیا ۔ ہر دو سال بعد جب ایس آئی ایم پر سے پابندی ختم ہونے کا وقت آتا دھماکے رونما ہو جاتے اور ایس آئی ایم کو ذمہ دار ٹہرا دیا جاتا ۔ اکشر دھام کے دھماکوں کے بعد؁ ۲۰۰۴ء میں ممبئی گیٹ آف انڈیا کے دھماکے ہوئے اسی لئے ہوئے اور ؁ ۲۰۰۶ء میں ممبئی ٹرین دھماکوں کے بعد انڈین مجاہدین کی کہانی اسی لئے گھڑی گئی ۔ ؁ ۲۰۰۸ء کا ممبئی حملہ تاخیر سے ہوا تو اس بیچ ٹریبونل نے پابندی منسوخ کر دی جسے حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کر کے پھر لگوا دیا ۔حالیہ وارانسی میں ہونے والے ڈرامے بھی اسی کی کڑی ہیں ۔ گویا بی جے پی کی پرمپرا کو کانگریس حکومت بھی جاری رکھے ہوئے ہے ۔


کارگل کی جنگ اور پارلیمنٹ پر حملہ بی جے پی کی سیاسی ضرورت تھی اور اس لئے اس نے خود اس کا اہتمام کیا یہی وجہ ہیکہ پارلیمان پر حملہ گھنٹوں ٹی وی پر نشر ہوتا رہا لیکن کسی سیاستدان کا بال بیکا نہیں ہوا۔ ؁ ۲۰۰۴ء میں بی جے پی حکومت سے بے دخل ہو گئی اور ؁ ۲۰۰۵ء میں بم دھماکوں کا رخ ایودھیا،یوپی اور دہلی کی جانب پلٹا؁ ۲۰۰۶ء میں پھرایک بار ممبئی نشانہ بنا۔ان میں سےاکثر حملوں کے بعد جس تضاد بیانی کا مظاہرہ انتظامیہ کی جانب سے ہوا ہے اس سے شک کی سوئی اپنے آپ خود انہیں کی جانب گھوم جاتی ہے ۔


اسیمانند کے مطابق ؁ ۲۰۰۲ء میں اکشر دھام حملے کے بعد ہندووں کے اندر دہشت گردی کے جراثیم پروان چڑھنے لگے اور ؁ ۲۰۰۶ء کے بعد ان لوگوں نے مالیگاؤں حملے سے اپنی کارروائی کا آغاز کر دیا یہ بات پورا سچ نہیں ہے ۔ ؁ ۲۰۰۳ء میں پربھنی کی دو مساجد پر حملے ہوئے اور؁ ۲۰۰۴ء میں جالنہ اور پورنا میں مساجد پر حملے کئے گئے ۔ ؁ ۲۰۰۶ء کے اندر جالنہ ہی میں آر ایس ایس کا کارکن بم بناتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔یہ گویا ابتدا تھی اس کے بعد مالیگاوں، حیدرآباد اور اجمیر شریف سمیت سمجھوتا ایکسپریس کا اعتراف تو اسیمانند نے کر ہی لیا ہے اور نہ جانے کتنے ایسے حملے ہوں گے جو ہنوز صیغہ راز میں ہیں جنھیں اسیما نند چھپا رہا ہے یا جو خود اس سے بھی چھپے ہوئے ہیں۔اس کے باوجود جتنا کچھ باہر آچکا ہے وہ مسلمانوں کے سر سے اس جھوٹے کلنک کو مٹانے کیلئے کافی ہے جو سیاستدانوں نے انتظامیہ اورذرائع ابلاغ کی مدد سے
مسلمانوں کے سر پر لگا دیا تھا ۔ الحمد اللہ


مالیگاوں ؁۲۰۰۶ سے لیکر مالیگاوں ؁۲۰۰۸ کے درمیان ہندوستانی دہشت گردی کی تاریخ میں ایک عظیم تبدیلی واقع ہوئی ۔ بم دھماکوں کی ذمہ داری پاکستان اورسیمی سے ہٹ کر سنگھ اور سوامی کی جانب منسوب ہو گئی ۔ماہِ اکتوبر کے اندر اجمیرشریف کی چارج شیٹ میں جو الزامات راجھستان اے ٹی ایس نے سنگھ پریوار پر لگائے دسمبر میں سوامی اسیمانند نے انہیں اپنے اقبالیہ بیان میں تسلیم کرکے ان پر تصدیق کی مہر ثبت کردی گویا دو سال دھوم دھڑاکا دوسال تحقیقات اور دو ماہ میں تصدیق ۔ انتظامیہ نے اپنے سیاسی آقاؤں کیلئے ایک منظر نامہ لکھا اس پر اپنے دشمنوں سے عمل در آمد کروایا انہیں کھلنے اور کھیلنےکے بھرپور مواقع فراہم کیا۔ بلاواسطہ ان کاہر طرح سے تعاون کیا اور وقت آنے پر اس سارے کھیل کو سمیٹ دیا۔ جو لوگ دہشت گردی کے اسرارورموز تک رسائی چاہتے ہیں ان کیلئے ان واقعات میں بڑی نشانی ہے بشرطیکہ وہ عقل سے کام لیں ۔


ملک وملت میں کچھ سادہ لوح ایسے بھی ہیں جو ان واقعات کو محض اتفاق سمجھتے ہیں۔کچھ نیک دل لوگوں کے خیال میں ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا بنیادی سبب لاعلمی تھااب چونکہ حقائق سامنے آگئے ہیں اصلاح ہورہی ہے۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کے خیال میں ملک کا سارا انتظامیہ سنگھ پریوار کے زیرِ اثر ہے اور سیاسی اقتدار کسی بھی جماعت کے ہاتھ میں ہواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہوتا وہی ہےجوصہیونی طاقتیں چاہتی ہیں گویا بیچاری کانگریس پارٹی اگر معصوم نہیں تو مجبور ضرور ہے ۔ اگر یہ سب سچ ہوتاتو سادھوی پرگیہ کبھی بھی گرفتار نہ ہوتی ،سوامی اسیمانند کواپنے جرائم کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اس لئے کہ اسے گرفتار کرکے چنچلگڈا جیل تک لے جانے والا انتظامیہ کانگریس کے اشارے پر کام کررہا تھا۔ اگر وہ سوامی جی گرفتار کر کے آندھرانہیں لے جاتا تو نہ ان کی ملاقات عبدالکلیم سے ہوتی اورنہ کفارہ ادا کرنے کا خیال ان کے دل میں آتا۔اگر انتظامیہ سنگھ پریوارکی گرفت میں ہوتا توراجھستا ن اے ٹی ایس کی چارج شیٹ میں وہ سارے الزامات موجود ہی نہ ہوتے جن کا اعتراف اسیمانند نے کیا ہے۔ ایسے میں کیااب بھی یہ سوچنا دانشمندی کی علامت ہے کہ کانگریس کی مر کزی اور ریاستی حکومتیں واقعی اندھیرے میں تھیں اور اپنی لاعلمی کے سبب معصوم مسلم نو جوانوں کو گرفتار کر رہی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہیکہ مہاراشٹر ، آندھرا اور ہریانہ (جہاں سمجھوتا ایکسپریس کا دھماکہ ہوا )ان تینوںریاستوں میں کانگریس کے نہایت سیکولر قسم کے وزیر اعلیٰ حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے ۔ ولاس راؤ کو وسنت دادا پاٹل کی طرح فرقہ پرست کبھی بھی نہیں سمجھا گیا اور نہ وائی ایس آر پر نرسمھا راو ٔ کی مانند ہندونواز ہونے کا الزام لگایا گیا بلکہ ان کے بارے میں کہا جاتاہیکہ وہ ہندو نہیں بلکہ عیسائی تھے ۔ایک راجھستان میں بی جے پی کو حکومت تھی جو؁۲۰۰۸ میں ختم ہو گئی ۔ سیاسی رموزونکات سے واقفیت رکھنے والے تو کبھی بھی یہ نہیں مان سکتے کہ یہ سب لاعلمی کے باعث ہوا اور جہاں تک اتفا قات کا سوال ہے وہ خوابوں او ر خیالوں میں ہمیشہ ہی ہوتے ہیں، حقیقت میں کبھی کبالر ان کا ظہور ہوتا ہے لیکن سیاست میں کبھی نہیں ہوتے یہاں تو سب کچھ منصوبہ بند طریقہ پر ہوتا ہے۔ منصوبوں کا ناکام ہوجانا دیگر بات ہے لیکن اتفاق سےالل ٹپ یہاں کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تویہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کانگریس والوں نے جانتے بوجھتے اس ببول کے پودے کو پنپنے ہی کیوں دیا ؟ اس گلستان کے باغبانوں پر وہ پھولوں کی بارش کیوں کرتے رہے ؟ اس کے کانٹوں میں معصوم مسلم نوجوانوں کو الجھا کر زخمی کیوں کیا گیا؟ ان دکھیاروں کے زخموں پرببول کا کڑوا رس کیوں چھڑکاجاتا رہا؟ اور ایک وقت ِ خاص میں اس پیڑ کو جس کی دیکھ ریکھ بڑے جتن سے کی گئی تھی اکھاڑپھینکنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟


ان سارے سوالات کا واحد جواب ہے سیاسی مفاد!اپنی سیاسی ضرورت کے پیشِ نظر ہندو دہشت گردی کی آگ کو ہوا دی گئی اوراسکی نشوونما کی گئی اور اسی سیاسی فائدےکی خاطراس کا قلع قمع بھی کیا جارہا ہے ۔سنگھ پریوار اپنے نظریات و خیالات کی حد تک اول روز سے انتہا پسند رہا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر ہی اس کی ساری سیاست کا دارومدار رہاہے ۔ مسلم پر سنل لا ،گائے کشی ،کشمیر اور بابری مسجد کے سہارے یہ لوگ اپنی سیاسی دوکان چمکاتے رہے ہیں ۔ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان تناو پیدا کرنا اور اس کا فائدہ اٹھا کر فسادات برپا کر دینا یہ اس کا طریقہ کار رہا ہے۔کانگریس کی حکومتوں نے ہمیشہ ہی اس طرح کی صورتحال میں سنگھ کو تحفظ فراہم کیا ہے اس لئے کہ فرقہ وارانہ فسادات اکثر بیشتر کانگریس کیلئے مفید ثابت ہوتےرہے ہیں۔ ان کے ذریعہ اس نے مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کااحساس پیدا کر کے خود کو مسیحا کی حیثیت سے پیش کیا اور ان کےووٹ بنک پر اپنی گرفت مضبوط کی ۔ ہندورائے دہندگان کی ناراضگی کا اندیشہ کانگریسیوں کوسنگھ پریوار پر ہاتھ ڈالنے روکتا رہالیکن اس کے باوجود یہ دونوں ایک دوسرے کے سیاسی حریف تو رہے ہی ہیں ۔ سنگھ نے ہمیشہ ہی بی جے پی کی ہمنوائی کی جو فطری امر ہے سوائے ایک مرتبہ جموںکشمیرکے انتخاب کے جو استثنائی صورتحال تھی جس میں آر ایس ایس نے بی جے پی کے خلاف کانگریس کا ساتھ دیا اور اس کی بہت بڑی قیمت بی جے پی چکانی پڑی ۔اس لئے کانگریس کی ہمیشہ یہ کو شش رہی ہے کہ آرایس موجود تو رہے تاکہ وقتِ ضرورت کام آئے لیکن اس کے اثرات کو ایک حد سے آگےبڑھنے نہ دیا جائے۔ آر ایس ایس کے کارکنان کے اندر پائے جانے والےدہشت گردی کے رحجان کابم دھماکوں کی صورت میں اظہارمسلمانوں کیلئے یقیناً نقصان دہ تھا لیکن کانگریس کیلئے فائدہ بخش تھا ۔اس کے ذریعہ سے ایک طرف اس کی تباہ کاریوں کو بے نقاب کر کے بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف عوام میں غم و غصہ پیدا کرنا مقصود تھا اور دوسری جانب ان لوگوں کو بلیک میل کر کے اپنے سیاسی مفادات کا حصول سہل بنانا تھا۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے بلکہ پچھلے دنوں سہراب الدین کیس سے مودی کو بری کر کے کانگریس نے نیوکلیائی بل پر بی جے پی کی حمایت حاصل کی تھی اس طرح کی سیاسی سودے بازی میں کانگریس کو مہارت حاصل ہے۔ اسی لئے کانگریس والے جان بوجھ کر سنگھ کے ذریعہ ہونے والی دہشت گردی سے نہ صرف چشم پوشی کرتے رہے بلکہ اسکی پشت پناہی کرتے رہے۔اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان کی جانب سے صرفِ نظر کیا جائے دوسرے اپنے آدمی ان کی تنظیم میں گھسادیئے جائیں یا ان کے چند لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا جائے اور اپنے ایجنٹوں کے توسط سے ان کو ضروری اسلحہ وتربیت وغیرہ فراہم کیا جائے۔انتظامیہ کی جانب سے نرمی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان کی پذیرائی اس حکمتِ عملی کا ایک حصہ ہے ۔ لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب رسی کو کھینچ لیا جاتا ہے تو اپنے بھی پرائے ہوجاتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ونجارہ نے ساری قتل غٖارتگری نریندر مودی کے ایماء پر کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مودی کے اقتدار کے باوجود وہ جیل میں چکی پیس رہا ہے۔وزیرداخلہ امیت شاہ مودی کے اشارے پر کھیلتا رہا اور مودی نے اسی کو بلی چڑھا کر اپنے آپ کو بچا لیا۔


مہاراشٹرکوہندو نظریات کے حوالے گنگوتری کا مقام حاصل ہے اسلئے ہندوتوا کے سارے چشمے یہیں سے پھوٹتے ہیں اس لئے لاٹھی اور نیکر سے آگے بڑھ کر بندوق لیس فوجی یونیفارم میں ملبوس دہشت گردی کی ابتدا کیلئے بھی یہی سر زمین سب سے زیادہ موضوع تھی سو یہی ہوا ۔ مراٹھواڑہ کےپربھنی،جالنہ اور ناندیڑ سے اس کی ابتدا ہوئی۔وزیر اعلیٰ ولاس راؤ اسی علاقے کے رہنے والے تھے تو کیا ان کے مخبروں نے انہیں نہیں بتلایا ہو گا کہ یہ سب کس کا کیا دھرا ہے؟ ناندیڑ کا دھماکہ تو آر ایس ایس کے کارکن لکشمن راجکونڈوار کے گھر میں ہوا اور اس میں بم بناتے ہوئے اس کا بیٹا نریش اور ہمانشو پانسے نامی وی ایچ پی کا کارکن ہلاک ہوئے ۔ یہ معاملہ اپریل کے مہینے میں ہوا اس کے باوجود پولس نے ان سارے حقائق سے آنکھیں موند لیں اورچند ماہ بعد جب مالیگاؤں دھماکہ ہو اتو انتظامیہ کوسیمی کے علاوہ کوئی بھی نظر نہیں آیا ۔ آگے چل کرناندیڑ دھماکے میں ملوث ایک ملزم نے نارکو ٹسٹ میں ہمانشو کے جالنہ،پورنا اور پربھنی کے دھماکوں کا سوتر دھار قرار دیا اس کے باوجود مالیگاؤں سے گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کی رہائی عمل میں نہیں آئی یہاں تک کے وعدہ معاف گواہ ابرار احمد نے اپنا بیان بدل دیا اور اے ٹی ایس نے عدالت سے کہہ دیا کہ ان نوجوانوں کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں ہے پھر بھی وہ معصوم ہنوز جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی ہیں۔ کانگریس کی اس چال نے سنگھ پریوار کے اندر دہشت گردی کا رحجان رکھنے والے عنا صر کے حوصلہ بلند کر دیا۔وہ اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ انہوں نے انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں زبردست کامیابی حاصل کر لی ہےحالانکہ صورتحال اس کے بر عکس تھی حکومت ان احمقوں کو بے وقوف بنا رہی تھی۔ حقیقت تو یہ تھی کہ مالیگاؤں کے معاملے میں کانگریس کی سنگھ کے خلاف رچی جانے والی سازش میں مسلمانوں کو بلی کا بکرہ بنایا گیاتھا ۔اب ان دہشت گردوں نے یکے بعد دیگرے بڑھ چڑھ کر حملے شروع کر دیئے ،مکہ مسجد،اجمیر شریف اور سمجھوتا ایکسپریس وغیرہ وغیرہ ۔ حکومت ہر حملے کیلئے مسلمانو ں کو،انڈین مجاہدین کو ،لشکر طیبہ کو اور آئی ایس آئی کو موردِ الزام ٹہراتی رہی یہاں تک کہ مالیگاؤں کا دوسرا دھماکہ ہوا جس میں صرف پانچ لوگ جان بحق ہوئے اس پر خود سادھوی پرگیہ نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اور راموجی کالسنگرے سے فون پر پوچھا صرف تین لوگ کیا موٹر سائیکل بھیڑ میں نہیں کھڑی کی گئی تھی ؟جواب تھا ایسا کرنے کا موقع نہیں ملا۔سادھوی نہیں جانتی تھی کہ اس کا فون ٹیپ ہورہا ہے اور اسے ثبوت کے طور پر پیش کیا جانے والا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں سی بی آئی نے سادھوی پرگیہ کا فون ریکارڈ کیا؟ اور یہی فون کیوں ریکارڈ کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہیکہ سی بی آئی سادھوی کی تمام حرکات سے واقف تھی اور اس کا ہر فون ریکارڈ ہو رہا تھا لیکن حکومت زیادہ سے زیادہ شواہد جمع کرنے کیلئےاسے موقع دے رہی تھی۔ دھماکے ہو تے رہے،مسلم نوجوان گرفتار بھی کئے جا تےرہے ، ہندو دہشت گرد خوشی مناتےرہے کہ انہیں کامیابی پر کامیابی حاصل ہو تی جارہی ہے اور کانگریس پارٹی اپنے پاس زیادہ سے زیادہ شواہد جمع کرتی رہی تاکہ وقتِ ضرورت ان کا استعمال کیا جائے۔ ؁۲۰۰۹ کے انتخابات سے ایک سال قبل کانگریس نے محسوس کیا کہ شکنجہ کسنے کامناسب وقت آگیا ہے اب ہلکی آنچ پر اس کھچڑی کو چولہے پر چڑھا دینا چاہیےاس طرح مالیگاؤں کے دوسرے دھماکے نے ہوا کے رخ کو موڑ دیا ۔


سادھوی پرگیہ،کرنل پروہت اور شنکر اچاریہ دیانند پانڈے گرفتار کر لئے گئے ۔ابتدا میں گرفتار ہونے والے تین افراد میں سےسادھوی کا تعلق یقیناً سنگھ سے رہا ہے اور اس کے بے شمار ثبوت موجود ہیں۔اڈوانی سے لیکر راجناتھ سنگھ سب اس کی حمایت کر چکے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہیکہ کوئی پروہت اور پانڈے کے بارے میں ایک حرف بھی اپنی زبان پر نہیں لاتا ۔ آرایس ایس سے ان کے تعلق کو ثابت نہیں کیا جا سکتا بلکہ کرنل پروہت نے اپنے چند بیانات میں آرایس ایس کو ہندو راشٹر کے راستے کی رکاوٹ قرار دیا ہے ۔یہ بات اہم ہے کہ آر ایس ایس کے مر کزی رہنما اندریش کمار پر آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کا الزام اور تین کروڈ لینے کاانکشاف اسی شخص کا ہے ۔ دیا نند پانڈے اس لحاظ سے نہایت پر اسرار ہے کہ یہ شخص دہشت گردی کی ساری معلومات (تصویر اور آواز کے ساتھ) اپنے کمپیوٹر میں ریکارڈ کرتا رہا ۔ یہ اس قدرعظیم حماقت ہے جس کا ارتکاب ایک اسکول کا طالبِ علم بھی نہیں کر سکتا اور پھر طرہ یہ کہ اس کمپیوٹرکو بڑی آسانی سےپولس کے حوالے کر دیا گیا۔خیر ان دونوں سے قطع نظر اب اجمیر ۔حیدر آباد اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تانے بانےاس قدرپھیلے ہوئے ہیں کہ اس نے آر ایس ایس کے اچھے خاصے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جن کا تعلق چھتیس گڈھ ،مدھیہ پردیش، گجرات راجھستان اور مہاراشٹر سے ہے ۔ فی الحال سیدھے نشانے پر سنگھ کے اعلیٰ رہنما اندریش کمار اور سر سنگھ چالک موہن بھاگوت ہیں ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اندریش کمارکو جس پر آئی ایس آئی سے روپئے لینے کا الزام ہےسنیل جوشی کے قتل میں پھناک دیا جائے اور ممکن ہے اس کے ملوث ہونے کا ثبوت بھی پولس کے ہتھے چڑھ گیا ہو اس لئے کہ پچھلے دنوں ہرشدسولنکی نامی نوجوان کو جوشی کے قتل کے الزام میں گرفتار کرنے کا دعویٰ پولس کر چکی ہے ۔کل کو اگر سولنکی یہ کہہ دے کہ اس کام کیلئے اسے اندریش نے تیار کیا تھا توسنگھ پریوار کی عزت و ناموس ہندو سماج کے اندرکس بھاؤ میں نیلام ہوگی اس کا اندازہ کرنے کیلئے کسی ماہر جیوتش کی ضرورت نہیں ہے ۔کانگریس ایسا کرے گی یا نہیں اس کا فیصلہ اسکی سیاسی ضرورتوں پر منحصر ہے ۔


اس پس منظر میں یہ فرض کرلای جائے کہ اگر ناندیڑ دھماکے کے بعد کانگریس کی ریاستی حکومت نے اس زہریلےناگ کا سر کچل دیا ہوتا تو کیا ہوتا؟یقینی بات ہیکہ یہ بزدل دہشت گرد دم دبا کر بیٹھ جاتے ۔مسلم عوام ان دھماکوں کی ہلاکت بچ جاتی اور معصوم نوجوان جیل کی صعوبتوں کا شکار نہ ہوتے لیکن کانگریس کا کیا فائدہ ہوتا؟ سچ تو یہ ہیکہ آج ان معصوموں کے خون سے کانگریس پارٹی اپنی مسلم نوازی اور سنگھ پریوار کی ملک دشمنی رقم کر رہی ہے ۔سمجھوتہ کے معاملے میں پاکستان کے ذریعہ آنے والی رسوائی کیلئے سنگھ پریوار کو قصوروار ٹہرایا جائیگا اور بی جے پی اس کا نکار نہ کر سکے گی ۔ آگے چل کر وہ ان سارے شواہد کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا جائے گاجو دیا نند پانڈے کے کمپیوٹر میں فلم بندہیں ۔کانگریس ان کے ذریعہ سنگھ پریوار کوبلیک میل کر کےاسے اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرےگی اور عوام میں اپنی نیک نامی کا ڈنکا بجائے گی ۔ ؁۲۰۰۶ میں شروع ہونے والا ڈرامہ ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچا ہے بلکہ کھیل جاری ہے ۔ اس کی الماری سے بہت سارے ڈھانچوں کو باہر آنا باقی ہے جنھیں وقتاً فوقتاً حسبِ ضرورت باہرلایا جاتا رہیگا تاکہ اس سے سیاسی حریفوں کو مدافعت پر مجبور کر کےاور خود کو اقدامی پوزیشن میں رکھا جاسکے۔انتخابی سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کا یہ سب سے کامیاب ومجرد نسخہ ہے ۔


جمہوریت کی گاڑی ایک پہیہ پر نہیں چلتی اس کیلئے کم از کم دو پہیوں کا ہونا ضروری ہے اسی لئے وی پی سنگھ نے کہا تھا کہ ہم کانگریس کو پوری طرح ختم کرنا نہیں چاہتے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ عوام کے سامنے کم از کم دو سیکولر متبادل موجود رہیں ۔ اگر کانگریس ختم ہو جائے دوسرا متبادل بی جے پی ہوگی اوراس کے اقتدار میں آنے کے امکانات موجود رہیں گے ۔ لیکن کانگریس پارٹی کی سوچ اس سے مختلف رہی ہے ۔ وہ یاتواپنے سیکولر متبادل کو نگل جانے کی کوشش کرتی ہے یا اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتی ہے ۔ کانگریس پارٹی کی تاریخ اس حقیقت کی غماز ہےاس لئے کہ کانگریس کو بی جے پی کی بنسبت دوسری سیکولر جماعتوں سےزیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ بی جے پی شکست دینا آسان تر سمجھتی ہے اسی لئے وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہتی کہ صہیونی فکر کا خاتمہ ہوجائے وہ اسےکمزورحالت میں باقی رکھنا چاہتی ہے ۔ اسی حکمتِ عملی کے پیشِ نظر اس نے بڑی خوبی کے ساتھ سنگھ پریوار کو دہشت گردی کے مایاجال پھنسا لیا ہے تاکہ اقتدار پر اپنی گرفت کو قائم و دائم رکھا جاسکے۔وکی لیکس میں راہل گاندھی کا بیان اسی جانب اشارہ کرتاہے 

ڈاکٹر سلیم خان