Monday, January 31, 2011

اسلام کا شورائی نظام



اسلامی نظامِ حکومت اور اسلامی سیاست کا دوسرا بنیادی اصول ” شوریٰ “ ہے ۔ یعنی سربراہ ریاست کا تقرر بھی مسلمانوں کے معتمد نمائندوں پر مشتمل مجلس شوریٰ کرے گی ۔ اور تقرری کے بعد بھی تمام اہم فیصلے شوریٰ کی منظوری سے کئے جائیں گے ۔ آج کل مسلمان ماہرین سیاست شورائیت کو اسلامی جمہوریت کہتے ہیں ۔ عربی زبان و ادب اور حدیث و فقہ کی کتب میں لفظِ جمہور غلبے اور اکثریت کے معنوں میں آتا ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں ” فی الجمہور عن العرب “ کے الفاظ آئے ہیں ۔ ( ترمذی شریف ، ابواب الفتن باب ماجاءان الخلفاءمن قریش )
لیکن دور حاضر کی مروجہ جمہوریت کا مفہوم عربی ڈکشنری Dictionry سے نہیں لیا گیا بلکہ ” ڈیموکریسی Democracy کے یونانی لفظ سے لیا گیا ہے ۔ جسکے اصول و ضوابط اسلام کے سراسر خلاف ہیں ۔ اسلامی جمہوریت کی اصطلاح حرام تو نہیں ہے مگر غلط فہمی سے بچنے کیلئے صحیح اسلامی اصطلاح ” شورائیت “ ہے ۔ یہ اصطلاح قرآن و سنت اور خلفاءراشدین کے عین مطابق ہے اور اس سے عوام کے اندر مطلق العنان حاکمیت اور بے قید آزادی کا جاہلانہ تصور پیدا ہونے کا خدشہ بھی نہیں ہے ” سدباب الذریعہ “ یعنی غلط فہمیوں اور برائیوں کے دروازے کو بند کرنا ۔ “ شریعت کا مستقل قاعدہ ہے اس قاعدے کی رو سے جمہوریت کا استعمال قابل ترک ہے اور شورائیت ہی صحیح Correct اور مناسب اصطلاح ہے ۔
شوریٰ کے بارے میں آیات قرآنیہ :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(( فَبِمَا رَحمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنتَ لَہُم وَلَو کُنتَ فَظًّا غَلِیظَ القَلبِ لاَنفَضُّوا مِن حَولِکَ فَاعفُ عَنہُم وَاستَغفِر لَہُم وَشَاوِرہُم فِی الاَمرِ )) ( آل عمران : 159 ) 
” پس یہ اللہ کی رحمت ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نرم دل ہیں لیکن اگر آپ کرخت و سخت دل ہوتے تو لوگ تمہارے پاس سے متفرق و منتشر ہو جاتے ۔ پس ان کو ( جنہوں نے غزوہ احد میں مورچہ چھوڑ دیا تھا ) معاف کر دو اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت مانگو اور ان سے ہر اہم معاملہ میں مشورہ کرتے رہو ، پھر ( مشورے کے بعد ) جب تم نے عزم اور ارادہ کر لیا ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اس پر بھروسہ کرنے والوں سے ۔ “
ابن منظور اپنی معرکۃ الاراءتصنیف لسان العرب میں لکھتے ہیں ۔
(( الامر نقیض النہی.... والامر الحادثہ )) ( لسان العرب 26, 27/4 مادہ امر ) 
” امر نہی کا مقابل ہے یعنی حکم دینا اور امر کے معنی حادثہ اور واقعہ کے بھی آتے ہیں ۔ “
امام لغت کی اس تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ امر کے معنی حکم اور حکومت بھی آتے ہیں اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکومت کے معاملات میں اور اہم معاملات میں اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ کرتے رہو ۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ امام بغوی رحمہ اللہ ، ابن جوزی رحمہ اللہ ، امام قرطبی رحمہ اللہ ، ابن کثیر رحمہ اللہ اور علامہ آلوسی رحمہ اللہ سب نے اپنی تفاسیر میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ لینے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ امت کیلئے شورائیت کی سنت قائم ہو جائے تا کہ آئندہ امت آمریت کے راستے پر نہ چلے اور شورائیت کے شرعی قاعدے پر سختی کے ساتھ قائم رہے ۔

شوریٰ کے بارے میں احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم :

(( عن علی قال قلت یارسول اللہ ان نزل بنا امر لیس فیہ بیان امر ولا نھی فماتامرنی ؟ قال شاور فیہ الفقہاءالعابدین ولا تمض فیہ رای خاصۃ رواہ الطبرانی فی الاوسط ورجالہ موثقون ))( مجمع الزوائد178/1 )
” حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہمارے درمیان کوئی واقعہ رونما ہو جائے جس کے بارے میں نہ کوئی امر ہو اور نہ نہی ہو تو ایسے واقعہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ارشاد ہے ؟ فرمایا اس بارے میں عبادت گزار اور دیانت دار ماہرین شریعت سے مشورہ کر لیا کرو اور انفرادی رائے اختیار نہ کرو ۔ “
حضرت سہل بن سعد الساعدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشورہ کرنے والا کبھی حق سے محروم نہیں ہوتا اور اپنی ذاتی رائے کو کافی سمجھنے والا خوش پسند انسان کبھی سعید نہیں ہو سکتا ۔ ( تفسیر قرطبی251/4 سورۃ آل عمران )
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارے حکمران تم میں سے بہترین لوگ ہوں اور تمہارے دولت مند لوگ سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے طے کئے جاتے ہوں تو زمین کی پشت تمہارے لئے اس کے پیٹ سے بہتر ہو گی لیکن جب تمہارے حکمران تم میں سے بدترین لوگ ہوں گے اور تمہارے دولت مند بخیل ہوں گے اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو پھر زمین کا پیٹ تمہارے لئے اس کی پیٹھ سے بہتر ہو گا ۔ ( مشکوٰۃ شریف ، کتاب الرقاق ، باب تغیر الناس )
اس حدیث پاک میں عزت و آرام کی زندگی کیلئے تین چیزوں کو ضروری قرار دیا گیا ہے اور یہی تین چیزیں اسلامی ریاست اور صالح معاشرے کی بنیادی شرطیں ہیں ۔ صالح قیادت ، غریبوں کی کفالت اور شورائیت ۔
(( عن عائشۃ قالت ما رایت رجلا اکثر استشارۃ للرجال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )) (( ترمذی شریف کتاب الجھاد 241/1 ) 
” حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ لوگوں سے مشورہ کرنے والا ہو ۔ “
علامہ جلال الدین سیوطی متوفی نے ” الخصائص الکبریٰ “ میں ایک باب اس عنوان سے قائم کیا ہے ۔ ” باب اختصاصہ بوجوب المشورۃ “ یعنی مشاورت کا واجب ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی خلیفہ بننے کے بعد جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں کہا کہ اگر میں صحیح کام کروں تو میری اطاعت کرنا لیکن اگر میں غلط راستے کی طرف جاؤں تو مجھے ( صلاح مشورہ سے ) سیدھا کر دینا ۔
یوں تو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین شوریٰ کے واقعات سے بھرا پڑا ہے لیکن ہم صرف عہد نبوی کے تاریخی شورائی فیصلوں کے بارے میں ہی بحث کریں گے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ (( انی فیما لم یوح الی کاحدکم )) ( مجمع الزوائد کتاب المناقب 46/9 )
” جن معاملات میں وحی نہ آئی ہو ان میں مَیں تمہاری طرح کا انسان ہوں ۔ “
امام جصاص متوفی 370ھ فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشاورت کا حکم ان دینی امور کے بارے میں دیا گیا تھا جن کے متعلق اللہ کی طرف سے واضح ہدایت موجود نہ ہوتی تھی اور ان دنیوی اور انتظامی امور میں بھی مشاورت کا ہی حکم دیا گیا ہے جن کی بنیاد رائے اور ظنِ غالب پر ہوتی ہے ۔ ( احکام القرآن للجصائص40/2 )
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر غیر منصوص اور اہم معاملہ میں مشورہ فرمایا کرتے تھے خواہ وہ امور دینی احکام سے متعلق ہوں ، جنگ سے متعلق ہوں یا پھر ان کا تعلق انتظامی معاملات سے ہو ۔ یہاں پر دس تاریخی مثالیں بطور نمونہ پیش خدمت ہیں ۔ ان میں سے بعض مثالیں ایسی بھی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوریٰ کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے کو ترک کر دیا ۔
 

1 ۔ شورائے اذان 1ھ :

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مدنی دور کے آغاز میں لوگ نماز کے اوقات اپنے اندازے سے متعین کرتے تھے ۔ ایک دن اس کے لئے مشورہ کیا گیا کسی نے یہود کے بوق ( سینگھ میں پھونک مارنا ) کی تجویز دی اور کسی نے نصاریٰ کے ناقوس( بڑی گھنٹی ) کی رائے پیش کی ۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز دی کہ ایک شخص کو مقرر کیا جائے جو نماز کے اوقات میں بلند آواز سے لوگوں کو بلائے ۔ چنانچہ اسی پر فیصلہ ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا ۔ ( صحیح بخاری باب بدءالاذان 85/1 )
حضرت بلال نماز کے اوقات میں بلند آواز سے ” الصلوٰۃ جامعۃ “ کہا کرتے تھے لیکن بعد میں حضرت عبداللہ بن زید بن عبدِ ربہ رضی اللہ عنہ نے خواب میں آذان کے مروجہ الفاظ کسی سے سنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو انہی الفاظ کے ساتھ اذان دینے کا حکم دیا اور وحی بھی اس کی تائید میں آگئی ۔ چنانچہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اذان کا آغاز مشاورت سے ہوا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے کی تھی بعد میں بعض صحابہ کے خواب کے ذریعے ( مروجہ ) اذان مقرر ہوئی اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اہم امور میں مشاورت کرنا ایک شرعی طریقہ ہے ۔ ( فتح الباری219-20/2 )

2 ۔ شورائے بدر کبریٰ 2ھ :

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر ( راستے میں ) اپنے اصحاب رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے دی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی رائے سننے کیلئے خاموش رہے تو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر کہا : اگر آپ حکم دیں تو ہم دریا میں چھلانگ یا برک الغماد ( یمن ) تک اپنے گھوڑے دوڑانے کیلئے بھی تیار ہیں اس پر روانگی کا حکم ہوا ۔ اور فوج مقام بدر پر پہنچ کر مورچہ زن ہوگئی ۔ ( مسلم شریف ، کتاب الجھاد باب غزوۃ بدر )

3 ۔ شورائے اسارائے بدر 2 ھ :

بدر کے قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا اور فرمایا ان قیدیوں کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا فدیہ لے کر چھوڑ دیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری رائے تو یہ ہے کہ ان کی گردنیں اڑا دی جائیں اس لئے کہ یہ کفر کے امام اور اسلام دشمن سردار ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق فدیہ لے کر قیدیوں کو آزاد کر دیا ۔ ( ترمذی شریف کتاب الجھاد241/1 )
اب اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید میں قرآنی آیات نازل ہوئیں ملاحظہ ہو سورہ انفال کا نوواں رکوع ۔

4 ۔ شورائے احد 3ھ :

مولانا صفی الرحمان مبارکپوری نے اپنی مشہور کتاب ” الرحیق المختوم “ میں ذکر کیا ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفاعی حکمت عملی کے متعلق اپنی رائے پیش کی کہ مدینہ سے باہر نہ نکلیں بلکہ شہر کے اندر ہی قلعہ بند ہو جائیں لیکن بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے سخت اصرار کیا کہ جنگ شہر سے باہر جا کر موزوں ہو گی لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثریت کے اصرار کے سامنے اپنی رائے ترک کر دی اور آخری فیصلہ یہی ہوا کہ مدینہ سے باہر کھلے میدان میں معرکہ آرائی کی جائے ۔ ( الرحیق المختوم ، صفی الرحمن مبارکپوری ص 342 )

5 ۔ شورائے خندق 5ھ :

غزوہ احزاب ( خندق ) کے موقع پر بھی شوریٰ طلب کی گئی کہ باہر جا کر محاذ قائم کیا جائے یا شہر کے اندر مورچے بنائے جائیں ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا تو مسلمانوں کو یہ رائے پسند آئی چنانچہ اسی پر عمل کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا ۔ ( طبقات ابن سعد 66/2 سیرت ابن ہشام 224/3 )

6۔ شورائے مصالحت خندق میں5 ھ :

غزوہ خندق کے موقع پر جب محاصرہ سخت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عظفان کے لیڈروں عیینہ بن حصن اور حارث بن عوف کے ساتھ مدینہ کے باغات کے پھلوں کا ( ثلث ) دے کر مصالحت کی بات کی تو آخری فیصلہ سے قبل مشورہ کرنا ضروری سمجھا گیا انصار کے رہنماؤں میں سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر یہ خدا کا حکم ہے تو ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن اگر حکم نہیں ہے تو پھر ہم مصالحت پر تیار نہیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ اللہ کا حکم ہوتا تو میں آپ سے مشورہ نہ کرتا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے پر شوریٰ کی رائے کو ترجیح دی اور مصالحت کی بات چیت ختم کر دی ۔ ( الکامل لابن اثیر 181/2 سیرۃ حلبیۃ640/2 )

7 ۔ واقعہ افک کے متعلق شوریٰ 6ھ :

غزوہ بنو المصطلق کے سفر میں منافقین کے لیڈر عبداللہ بن ابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پر بہتان تراشی کی تھی اور مدینہ منورہ میں پروپیگنڈے کا ایک طوفان برپا کر دیا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ام المومنین سے علیحدگی اختیار کرنے کے متعلق مشورہ کیا اور پھر مسجد میں جا کر اجلاس عام میں کہا ۔
” اے مسلمانو ! کون مجھے معذور جانے گا ۔ اگر میں اس شخص کے خلاف کوئی قدم اٹھاؤں جس سے مجھے تکلیف پہنچی ہے میری بیوی کے بارے میں حالانکہ خدا کی قسم مجھے اپنی بیوی کے متعلق خیر کے علاوہ کچھ معلوم نہیں ہوا ۔ “
لیکن بعد میں سورۃ النور نازل ہوئی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی پاکدامنی واضح ہو گئی اور سازشیوں کو ناکامی ہوئی ۔ ( صحیح بخاری ، کتاب المغازی باب غزوۃ بنو المصطلق )
 

8 ۔ شورائے حدیبیہ :

غزوہ حدیبیہ کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ” غدیر الاشطاط “ کے مقام پر پہنچے تو مسلمانوں کے مخبر نے آ کر اطلاع دی کہ قریش مکہ نے اپنے حلیف قبائل کو جمع کر لیا ہے جو آپ کو بیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانو ! مجھے مشورہ دو کہ اب کیا اقدام کیا جائے یہ مناسب ہے کہ قریش کے ان دوستوں ( احابیش ) کے گھروں پر حملہ کیا جائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رائے دی کہ آپ کعبہ کی زیارت کی غرض سے آئے ہیں پس اسی کیلئے آگے بڑھئے جو بھی ہمیں روکے گا ہم اس سے لڑیں گے لیکن بعد میں صلح ہو گئی ۔ ( صحیح بخاری ، کتاب المغازی باب غزوۃ حدیبیہ )

9 ۔ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق شوریٰ 8ھ :

غزوہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین میں بنوہوازن کے 6000 ہزار قیدی گرفتار ہوئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے محاصرے سے واپس آ کر جعرانہ کے مقام پر کچھ دیر انتظار کیا تا کہ یہ لوگ ایمان قبول کر لیں تو ان کا مال اور قیدی دونوں واپس کر دئیے جائیں گے لیکن انہوں نے آنے میں دیر کی تو مال غنیمت تقسیم کر دیا گیا ۔ ( ابوداؤد شریف ، کتاب الجھاد 141-42/3 )
بعد میں جب طائف والے پشیمان ہو کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” شورائے عام “ بلائی اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدی رہا کر دئیے جائیں ۔ تم میں سے جو بطیب نفس اپنا قیدی آزاد کرنا چاہے تو مناسب ہو گا ورنہ ہم اسے معاوضہ دے کر آزاد کر دیں گے ۔ لوگوں نے کہا ہم بخوشی آزاد کرتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم واپس جا کر اپنے نمائندوں کو اپنی رائے دو ۔ نمائندوں نے بعد میں آ کر کہا سب راضی ہیں تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قیدی رہا کر دئیے ۔ ( بخاری شریف کتاب المغازی )

10۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے بارے میں شوریٰ 10 ھ :

حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بناتے وقت شوریٰ بلائی گئی تھی ۔ ارکان شوریٰ نے اپنی اپنی رائے پیش کی اور کافی غور و خوض کے بعد معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا گیا ۔ ( مجمع الزوائد ، کتاب المناقب 46/9






No comments:

Post a Comment