Tuesday, February 1, 2011

بھارت میں ہر سال لاکھوں بچیاں قتل

دنیائے قدیم کی جہالت جسے مٹانے کیلئے انبیاءمصلح بن کر آتے رہے آج پھر اس جہالت کو حقوق انسانیت کے علمبردار روشن خیالی کے نام پر فروغ دے رہے ہیں۔ صنف نازک سے متعلق نقطہ نظر جہالت کی اس منزل پر پہنچ چکا ہے کہ اس سے آگے صرف تباہی ہے یہ ابن آدم جو ترقی کی انتہا پر پہنچ چکا ہے، ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے سیاروں کو مسخر کر رہا ہے، زمین کے چھپے خزانے اور رازوں کو اپنے دماغ اور ذہانت کے بل بوتے پر منکشف کر رہا ہے زمین پر لمن الملک کے نقارے بجانے والا، اوج ثریا پر قدم رکھنے والا، درندگی کی انتہائی پستیوں میں گر چکا ہے، یہ اپنی ہی کونپلوں کو پنپنے نہیں دے رہا، اپنے ہی جیسے انسانوں کو مارتے مارتے اب وہ اپنی ہی بچیوں کو دنیا میں آنے سے قبل اور آنے کے بعد اس شیطانی سوچ کے تابع ہو کر مار رہا ہے کہ بچے دو ہی اچھے، انسان کو اپنی جان کے بعد جو چیز سب سے زیادہ محبوب ہوتی ہے وہ اس کی اولاد ہوتی ہے۔
اکثر اوقات اولاد کی محبت اپنے وجود سے بڑھ جاتی ہے ایک بوڑھا شخص زندگی بھر کی تگ و دو نے جس کی ہڈیوں کو گھلا کر رکھ دیا ہو اگر اس کا جواں سال بیٹا بستر مرگ پر پڑا ہو تو اس بوڑھے باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کاش کاتب تقدیر اس کی بقایا سانسیں اس کے بیٹے کے نام کر دے تا کہ وہ زندگی کی کچھ اور بہاریں دیکھ لے، لیکن جب انسان کا اپنے پیدا کرنے والے، رزق دینے والے رب سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تو وہ اپنے خالق و مالک سے منہ موڑ لیتا ہے، اس میں خدا کے سامنے جوابد ہی کا احساس باقی نہیں رہتا، تو وہ فطرت سے بغاوت پر اتر آتا ہے، فطرت اسے آواز دیتی ہے کہ وہ اسے سنے لیکن وہ بہرہ بن جاتا ہے، فطرت کے تقاضے مجسم ہو کر اس کے سامنے آتے ہیں کہ وہ اسے دیکھے لیکن دل کی آنکھیں بے نور ہو چکی ہوتی ہیں، ان بے نور آنکھوں اور قسی القلبی کے ساتھ وہ وحشت و درندگی کا پیکر بن کر جہاں لوگوں کے خون کی ندیاں بہاتا ہے وہیں معاشی خوف میں مبتلا ہو کر اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کا قتل کرتا ہے، بھلا یہ بات سوچی جا سکتی ہے کہ جن ہاتھوں نے سنبھال سنبھال کر اور اپنا خون جگر پلا پلا کر کلیوں کو غنچہ اور غنچے کو پھول بنایا وہی اسے بے دردی سے مسل کر رکھ دے گا۔
ماضی میں بھارت میں ایک تہائی لڑکیاں پیدائش سے قبل مار دی جاتی تھیں، ہندو عقیدے میں لڑکیوں کو بتوں کی بھینٹ چڑھا یا جاتا ہے، انیسویں صدی کے شروع کی شرح پیدائش کے مطابق بھارت میں چند گاؤں ایسے تھے جہاں بچیوں کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا ممبئی میں 1834ءمیں لڑکیوں کی تعداد 603 تھی۔ ایسا نہیں کہ وہاں لڑکیاں پیدا ہی نہیں ہوئیں۔ انہوں نے اس دنیا میں آنکھ ضروری کھولی، لیکن خوفناک طریقے سے انہیں قتل کر دیا گیا، کسی بچی کے منہ میں گیلا تولیہ ٹھونسا گیا اور کسی کو چھلکے والے چاول کھلائے گئے جو اس کی سانس والی نالی میں پھنس گئے، کسی کو زہریلا پاؤڈر دودھ میں ملا کر دیا گیا، کچھ کا گلا گھونٹ دیا گیا، اور کچھ بچیوں کو کھانے پینے کیلئے کچھ نہ دیا گیا تا کہ وہ فاقے سے مر جائیں۔
آج کے دور کے دانشور، تھنک ٹینک، عالی دماغ سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اگر اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو دنیا کے تمام معاشی و وسائل کو چٹ کر جائے گی، آبادی کے عفریت کو کنٹرول کرنا اس وقت اہم مسئلہ ہے، آبادی کی بڑھتی رفتار کے سامنے بند باندھنے کیلئے کم بچے خوشحال گھرانہ اور منصوبہ بندی و بہبود آبادی کے روشن خیال سحر زدہ نعرے ایجاد کےے گئے۔
رحم مادر میں بچوں کا قتل درخشاں مستقبل کی ضمانت سمجھا گیا، عرب کے جہلاءاپنی اولاد کو غیرت و حمیت، اپنی سرداری اور رواداری کیلئے قتل کرتے تھے، لیکن یہ روشن خیال معیشت اور وسائل کی کمی کی فکر میں اپنی اولاد کو قتل کر رہے ہیں۔ بچیوں کے قتل میں بھارت سرفہرست ہے، ایک طرف بھارت بڑے شد و مد سے یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ وہ دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی سب سے بڑی جمہوری مملکت ہے، اس کی معیشت کی روز افزوں ترقی اسے بہت جلد چین سے بھی آگے لے جائے گی، دوسری طرف بھارت اپنے جارحانہ عزائم کی خاطر اپنے اڑوس پڑوس کے چھوٹے ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے وجود میں ہضم کرنے اور اکھنڈ بھارت کے چانکیائی نظریہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لےے دن رات اسلحے کے ڈھیر لگا رہا ہے، روس، فرانس اور برطانیہ کے علاوہ اسرائیل سے جدید سے جدید اسلحہ خرید رہا ہے ابھی حال ہی میں اس نے اسرائیل سے دس ہزار کروڑ کے معاہدے کی منظوری دی ہے۔ اس معاہدے کے تحت دشمن کے طیاروں کو فضا میں 70 کلومیٹر کی دوری سے تباہ کرنے والے میزائل بنائے گا۔
ایک اور معاہدے کے تحت فوجی سیٹلائٹ اسرائیل کے تعاون سے خلاءمیں چھوڑے گا، اسی طرح امریکہ سے جوہری توانائی کے معاہدے سے جہاں وہ ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا وہیں این پی ٹی اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدوں سے باہر رہ کر اپنی ایٹمی قوت کو مضبوط کر کے سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ بھارت کے ان عزائم سے جہاں گردونواح کے ممالک خطرے کی بو سونگھ رہے ہیں وہیں ہندوستان کے اندر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر گجرات اور کشمیر سمیت عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے، اس سے بھی بڑھ کر بھارت کی جو اخلاقی پستی سامنے آئی ہے وہ بڑی تعداد میں بچیوں کا قتل عام ہے بھارتی مائیں اب یوں دعائیں کرتی ہیں :
پر بھو میں تیری بلتی کروں پیاں پڑوں بار بار
اگلے جنم موہے بیٹا نہ دیجیو نرکھ بچے چاہے دھار

یعنی بھگوان میں تجھ سے گزارش کرتی ہوں، آپکے قدموں میں گر کر التجا کرتی ہوں کہ چاہے مجھے جہنم میں ڈال دینا لیکن مجھے اگلے جنم میں بیٹی نہ دینا۔
بھارت میں ماضی سے حالت تک کا سفر کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آ رہا، شادی کے بعد ہندو مت میں عورت شوہر کی ملکیت بن جاتی ہے۔ ساری زندگی اس کی حیثیت کنیز اور دیوداسی کی ہوتی ہے اور شوہر کی موت کے ساتھ اسے زندہ درگور کر دیا جاتا، بلکہ آج کے تعلیم یافتہ ہندوستان میں بھی سستی موجود ہے۔ اس سے بڑھ کر بچیوں کو ممتا سے چھین کر موت کی نیند سلانا ایک اذیت ناک مرحلہ ہے، بھارت میں رہنے والی ماں کی حیثیت زندہ لاش کی سی ہے، اسے اپنی خوشی اور مسکراہٹ ہی قربان نہیں کرنا پڑ رہی، اکثر اپنے آنسو بھی قربان کرنا پڑ رہے ہیں، وہ اپنے ہی وجود کے ٹکڑوں کو ایسی موت مرتا دیکھ رہی ہےں کہ سنگدل سے سنگدل ماں بھی بلک بلک کو رو پڑے، لیکن وہ مجبور چپ سادھے دیواروں کو تکتی رہتی ہے۔ اس کی بے بسی دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے سوتے خشک ہو گئے ہیں۔ بھارت کی ہر عورت کے سینے میں بچیوں کے قتل کی ایسی ایسی المناک لرزہ خیز داستانیں دفن ہیں کہ اگر وہ منظر عام پر آ جائیں تو ساری دنیا کی فضا سوگوار ہو جائے۔
میرپور کی پچیس سالہ سرلا دیوی نے شوہر کے ایماءپر اپنا چھ ماہ کا حمل اس لےے ختم کرا دیا کہ رحم مادر میں بیٹی پرورش پا رہی تھی، اس نے سرد آہ بھر کر کہا : میری بچی ادھورے جسم کے ساتھ تقریبا روزانہ ہی میرے خواب میں آتی ہے، میری جانب ہاتھ بڑھاتی ہے لیکن جیسے ہی میں اسے اپنے ہاتھوں میں لینے کیلئے آگے بڑھتی ہوں وہ غائب ہو جاتی ہے، اس خواب نے میرا رہا سہا سکون بھی ختم کر دیا، مجھے اس گناہ کی سزا مل رہی ہے جو میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔ سرلا دیوی نے یہ بات بھارت کے ایک معروف میگزین انڈیا ٹوڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتائی، سرلا نے مزید کہا کہ میرے خاندان کی پچاس عورتوں کو جب علم ہوا کہ وہ بے بی کی ماں بنیں گی تو انہوں نے فوراً حمل ضائع کرا دئیے دس عورتوں کو بچیوں کے ساتھ اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونے پڑے، سرلا دیوی میرپور کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی ہے جہاں پانچ سو لڑکے اور صرف دس لڑکیاں ہیں، یہ صرف یو۔ پی کے ضلع میرپور کی جیتی جاگتی کہانی نہیں ہے۔ بھارت کے ایک ایک علاقے گاؤں یا گھر میں جنین کا قتل ہو رہا ہے۔
انڈیا ٹوڈے میں بھارتی خاتون صحافی دھال برگ نے تامل ناڈو کا ایک افسوسناک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لکشمی چار سالہ بیٹے کی ماں تھی کہ اس نے بیٹی کو جنم دیا، تین دن بچی زندہ رہی مگر ماں نے اسے لاوارثوں کی طرح بستر پر پڑے رہنے دیا، جب بچی بھوک سے نڈھال ہو کر زور زور سے رونے لگی تو لکشمی جھاڑیوں سے دودھ نکال کر لائی اس میں ارنڈی کا تیل ملا کر بچی کو پلایا، چند گھونٹ پینے کے بعد بچی کی ناک سے خون بہنے لگا اور وہ منٹوں میں مر گئی، لکشمی کی پڑوسنوں نے بچی کو اسکے گھر کے ایک کونے میں دفن کر کے لکشمی سے کہا تم نے اسے زندہ پیدا ہی کیوں کیا؟ جب 28 سالہ لکشمی سے پوچھا کہ ایک ماں ہوتے ہوئے تم نے کس طرح اپنی بچی کو اپنے ہاتھوں سے مار دیا؟ تو اس نے جواب دیا کہ ” جیسی تکالیف میں اٹھا رہی ہوں جو صعوبتیں میں برداشت کر رہی ہوں انہیں دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ بہتر ہو گا میں اپنی بیٹی کو ختم کر دوں تا کہ زندگی کے تمام جھنجھٹوںاسے ہمیشہ کیلئے نجات مل جائے، لکشمی نے مزید کہا : کہ اگر میرے ہاتھ میں رقم ہوتی تو میں الٹرا ساؤنڈ کرا کر اسے ختم کرا دیتی، اسے دنیا میں آنکھ کھولنے ہی نہ دیتی۔
25 سالہ پر بھاکی کہانی ان ہزاروں عورتوں کی طرح افسوسناک ہے جنہوں نے اپنے ہی جگر کے ٹکڑوں کو اس لےے قتل کیا کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی بچیاں ظالم دنیا میں آنکھیں کھولیں اور ساری زندگی روتی دھوتی رہیں، پر بھاکی شادی بیس سال کی عمر میں پچاس سالہ رنڈوے سے ہوئی، اکیس سال کی تھی کہ بیٹی کی ماں بنی، جب اس نے اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لےے کہا تو ڈاکٹر نے کہا : تمہاری بیٹی ہوتے ہی مر گئی، جب وہ ہسپتال سے خالی گود لےے اجڑی اجڑی باہر آئی تو ایک نرس نے اسے چپکے سے بتایا کہ تمہارے شوہر نے بچی کی ناک میں پانی ڈال کر اسے جان بوجھ کر مارا ہے، شوہر سے کچھ پوچھنے کی اس میں ہمت نہ تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کا شوہر لفظ بیٹی ہی سے نفرت کرتا ہے، وہ اس کا وجود کیسے برداشت کرتا، جب دو سال بعد وہ دوبارہ امید سے ہوئی اور اسے علم ہوا کہ اس بار بھی بیٹی پیدا ہوتی تو اس نے ڈاکٹر سے کہا میری بچی ختم کردو، یوں ایک بیٹی باپ نے قتل کی اور دوسری ماں نے۔
ریاست آندھرا پردیش میں ایک شخص نے اپنی نواسی کو زندہ دفن کر دیا۔ ضلع محبوب نگر کی پولیس کے سربراہ چادو سنہانے میڈیا کو بتایا کہ ایک عورت جس کا خاوند مہارا شٹر میں ملازمت کرتا ہے اس عورت کے ہاں آٹھویں بیٹی پیدا ہوئی تو بچی کے نانا نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر نوزائیدہ کی ماں کے مشورے پر بچی کو زندہ کھیتوں میں دفن کر دیا، جب کچھ دیر بعد رام کمار نامی ایک کسان اپنے کھیت گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک بچی کا ہاتھ زمین سے باہر نکلا ہوا ہے گاؤں والوں کی مدد سے اسے نکالا گیا اور ہسپتال داخل کرایا گیا پولیس کے مطابق بچی کافی کمزور تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا اسے پیدائش کے بعد دودھ ہی نہیں پلایا گیا۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے ایک ڈاکٹر نے 260 بچیوں کو پیدائش سے قبل ضائع کرنے کا اعتراف کیا ہے مذکورہ ڈاکٹر کو کچھ عرصہ قبل ناجائز اسقاط حمل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اس کے کلینک کے قریب زیر زمین ٹینک سے بچیوں کی باقیات بھی برآمد کی گئی ہیں، ڈاکٹر اے۔ کے سنگھ کے پاس الٹرا ساؤنڈ ٹیسٹ کیلئے لائسنس بھی نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ڈاکٹر سند یافتہ ہے، وہ اپنی بیوی کی مدد سے جو ایک قابل نرس ہے اسقاط جنین کرتا رہا، ایسے ہی ڈاکٹروں سے جنین کو ضائع کرانے والی عورتوں میں سے تین سو روزانہ موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment