Thursday, February 3, 2011

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت حضرت ابو درداء سے روایت ہے ' انہوں نے فرمایا کہ میں نبی کریم ۖ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔اتنے میں ابوبکر صدیق اپنی چادر کا کنارہ اٹھائے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ کا گھٹنا ننگا ہو گیا۔نبی ۖ نے فرمایا:''تمہارے دوست کسی سے لڑ کر آئے ہیں ۔پھر حضرت ابوبکر نے سلام کیااور کہا کہ میرے اور ابن خطاب کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا تھا۔میں نے جلدی سے انہیں سخت سست کہہ دیا۔پھر میں شرمندہ ہوا(اور ان سے معذرت کی)لیکن انہوں نے انکار کر دیااب میں آپ ۖ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔آپ ۖ نے فرمایا اے ابوبکر ! اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے'آپ ۖ نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔پھر ایسا ہوا کہ حضرت عمر شرمندہ ہوئے اور حضرت ابوبکر کے گھر پرآئے اور دریافت کیا کہ ابوبکر یہاں موجود ہیں؟گھر والوں نے جواب دیا:نہیں۔پھر حضرت عمر نبی ۖ کے پاس گئے اور انہیں سلام کیا۔انہیں دیکھ کر نبی ۖ کے چہرے کا رنگ ایسا متغیر ہوا کہ ابوبکر ڈر گئے اور دو زانو بیٹھ کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ۖ!اللہ کی قسم میں نے ہی زیادتی کی تھی۔اس وقت نبی ۖ نے فرمایا:'اے لوگو!اللہ نے مجھے تمہاری طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تو تم لوگوں نے مجھے جھوٹا کہہ دیا اور ابوبکر نے مجھے سچا کہا اور انہوں نے اپنے مال اور جان سے میری خدمت کی۔کیا تم میری خاطر میرے دوست کو ستانا چھوڑ سکتے ہو؟اور آپ ۖ نے یہ دو مرتبہ فرمایا۔اس ارشاد گرامی کی بعد حضرت ابو بکر کو پھر کسی نے نہیں ستایا۔
فوائد:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی انسان کے سامنے اسکی تعریف کرنا جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب اس کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہواگر اس کی تعریف سے اس کے اندر خود پسندی پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو اجتناب کرنا چاہئے (فتح الباری:٣١/٧)
٢:اس حدیث سے حضرت ابوبکر صدیق کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ جو حضرت ابوبکر صدیق سے عداوت رکھتا ہے وہ درحقیقت نبی کریم ۖ سے عداوت رکھتا ہے اور جو نبی ۖ سے عداوت رکھے گا تو عین اس کی عداوت اللہ سے ہو گی۔اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق سے محبت اللہ اور اس کے رسول ۖ کی محبت ہے۔
حوالہ:رواہ بخاری:٣٦٦١


حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی ۖنے انہیں غزوہ ذات السلاسل میں امیر بنا کر بھیجا تھا'وہ کہتے ہیں کہ جب میں واپس آپ ۖ کے پاس آیا تو میں نے عرض کیا کہ سب لوگوں میں سے کون شخص آپ کو زیادہ محبوب ہے؟آپ ۖ نے فرمایا:عائشہ رضی اللہ عنھا!میں نے عرض کیا مردوں میں سے کون؟آپ ۖ نے فرمایا ان کے والد گرامی(ابوبکر صدیق )میں نے پوچھا پھر کون؟فرمایا پھر عمر بن خطاب اس طرح درجہ بہ درجہ آپ ۖ نے کئی آدمیوں کے نام لئے۔(حوالہ:رواہ بخاری:٣٦٦٢)
فوائد:واقعہ یہ تھا کہ جس مہم میں حضرت عمرو بن عاص کو امیر بنا کر بھیجا گیا تھا اس دستے میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر بھی موجود تھے'اسی بنا پر حضرت عمروبن عاص کے دل میں خیال گزرا کہ شاید وہ ان سب سے افضل ہیں اسی لئے انہیں امیر بنا یا گیا ہے۔(فتح الباری:٣٢/٧)
 
٭حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے 'انہوں نے فرمایا کہ ایک عورت نبی ۖ کے پا س آئی تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ پھر آپ کے پاس آئے۔اس نے کہا کہ میںپھر آئوں اور آپ کو نہ پائوں'اس سے اس کی مراد وفات تھی۔آپ نے فرمایا اگر مجھے نہ پائو تو ابوبکر کے پاس چلے جانا۔(حوالہ:روا ہ بخاری:٣٦٥٩)
فوائد:اس حدیث سے رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر کے خلیفہ ہونے کااشارہ ملتا ہے،نیزاس میں ان شیعہ حضرات کی تردید ہے جو دعوٰی کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے حضرت علی اور حضرت عباس کو خلیفہ بنانے کی وصیت کی تھی۔(فتح الباری:٢٨/٧)
٭حضرت عمار سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ۖ کو اس وقت دیکھا جب آپ کے ساتھ پانچ غلاموں 'دو عورتوں اور حضرت ابوبکر کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
فوائد:حضرت عمار کا مطلب ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق آزاد لوگوں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے اسلام کا برسر عام اظہار کیا تھا ویسے بے شمار ایسے مسلمان موجود تھے جو اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھے(فتح الباری:٢٩/٢)

No comments:

Post a Comment