Tuesday, February 1, 2011

وینزویلا میں مسلمان

لاطینی امریکہ کے تیل سے مالا مال اس ملک میں مسلمانوں کی جڑیں پندرہویں صدی تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ عصرِ حاضر کے شواھد اور تاریخی مصادر جو کہ لاطینی امریکہ کے اکثر ملکوں خصوصاً برازیل کے عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہیں ، ان سے پتہ چلتا ہے ، کہ مسلمانوں نے کولمبس سے پہلے براعظم امریکا کو ایجاد کیا تھا ، جب آٹھ مسلمانوں نے لشبونہ سپین سے دسویں صدی میں سمندری سفر شروع کیا ، جو بحر ظلمات ( جس کا اطلاق مسلمانوں کے ہاں المحیط الاطلسی پر ہوتا ہے ) سے آگے کی دنیا کی تلاش میں نکلے ، بالآخر وہ جنوبی امریکا کے ساحل پر اترے ۔ اس بات کا اقرار بہت سے مستشرقین نے کیا ہے اور اکثر مصنفین نے بھی اس کی تائید کی ہے ۔ اور عربی مؤرخ مہدی نے اس بات کا ذکر اپنی کتاب ” العرب فی امریکا “ میں کیا ہے کہ ” فرامارکوس دی نایز “ نے نیو میکسیکو اور اریزونا جیسے مشہور و معروف علاقے 1539ءمیں ایجاد کےے تھے ، اس سفر میں اس کا گائیڈ اور سمندری سفر کا ماہر ایک مراکشی اسطفان نامی مسلمان ہی تھا ، جسے امریکا کے اصلی ریڈ انڈین باشندوں نے قتل کر دیا ، جنہوں نے اس سے پہلے کسی سفید فام آدمی کو نہ دیکھا تھا ۔

وینزویلا نام کی وجہ تسمیہ :

وینزویلا نام کا بھی ایک قصہ ہے وہ اس طرح کہ جب کرسٹوفر کولمبس نے تیسری مرتبہ اس علاقے کی طرف سفر کیا ، جس میں اس کے ساتھ ایک اسپانوی ، امیریکو ، فیسبوتو نامی آدمی بھی تھا ، جب انہوں نے وینزویلا کی سرزمین پر قدم رکھا تو انہوں نے بعض ایسے گھر دیکھے جو پانی کی چھوٹی چھوٹی ندیوں اور نہروں پر بنائے گئے تھے ۔ جنہیں اسپانوی زبان میں فالنسیا کہا جاتا ہے ، تو اس طرح اس علاقے کا نام وینزویلا ( یعنی : فلنسیا ) رکھ دیا گیا ، جب کولمبس اپنے اس سفر سے واپس لوٹا ، تو اس نے ایک رپورٹ لکھی جس میں اس نے وینزویلا میں جن چیزوں کا مشاہدہ کیا تھا ان کے بارے میں لکھا کہ وینزویلا ایک ایسی سرزمین ہے جو ہر قسم کی معدنیات سونے اور مصالحہ جات وغیرہ سے مالا مال ہے اور اس کے رہائشی نہایت خوش اخلاق اور اچھے ہیں جنہیں آسانی سے عیسائیت کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے ۔
کولمبس کی اس رپورٹ خصوصاً معدنیات سونے وغیرہ کے ذکر کے لالچ میں آ کر پرتگالیوں اور اسپانیوں کو پندرہویں صدی کے آکر میں اس براعظم کی طرف سفر کرنے اور وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ، اور پرتگالی و اسپانوی استعماری ، مغربی افریقہ اور اس کے سواحل سے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو کھینچ کر وینزویلا لے گئے تا کہ وہ وہاں ان کے بڑے بڑے پراجیکٹس اور اس ملک کی مال و دولت کے حصول میں مزدور کا کردار ادا کر سکیں ۔ اسی طرح بہت سارے اسپانوی مسلمانوں کو بھی وہاں لایا گیا جو اپنے مذہب کو چھپائے ہوئے تھے ، جنہیں لاطینی امریکا کی غلاموں کی خرید و فروخت کی منڈیوں میں بیچ دیا گیا ، لیکن انیسویں صدی کے اوائل میں جب یورپی استعمار ، انقلاب اور آزادی کی موجوں سے ٹوٹنے لگا جو کہ اس براعظم کے بہت سے ملکوں پر قابض تھا ، تو اس دوران فرانسیسکو دیمراندا جو ایک وینزویلی باشندہ تھا اس نے روحانی باپ کا کردار ادا کیا ، پھر اس کا پیش رو سیمون دی بولیفار جسے وینزویلی عوام اپنا قائد اور ہیرو سمجھتی ہے بلکہ پورا لاطینی امریکا کولمبیا سے لے کر پیرو اور ایکوا ڈور سے لی کر بولیویا تک سب اسے اپنا آزادی دلانے والا رہنما مانتے ہیں ، جس نے پورے لاطینی امریکہ کا ایک متحد و یکجا قوم کا خواب دیکھا تھا ۔

اسپانوی استعمار پر انقلاب :

اسپانوی استعمار جو کہ 1520ءمیں شروع ہوا تھا اسے اس بولیفار نامی شخص نے ہی 1821ءمیں ایک انقلاب کے ذریعے ختم کر دیا ، اس طرح وینزویلا ایک مستقل ملک کی حیثیت سے ابھر کر دنیا کے نقشے پر سامنے آیا ۔ اور اس ملک کا سرکاری نام بھی بولیفاری وینزویلا رکھ دیا گیا ، اور آج اس ملک کی کرنسی ، اہم سڑکیں ، سکول و کالج اور یونیورسٹیاں اسی قائد کے نام سے منسوب ہیں ، اس طرح لاطینی امریکا کے ملکوں کے بہت سارے لیڈران اور انقلابی حضرات اس بولیفار کے نظرےے سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ، جن میں سرفہرست حیفارا ، فیڈل کا سترو اور وینزویلا کے حالیہ صدر ھوگو شاویز وغیرہ ہیں ، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکثر انقلابی ، لیڈر اور قائدین حضرات ان مسلمان غلاموں کے انقلابات سے متاثر ہوئے جو انہوں نے برازیل میں پرتگالی استعمار کے خلاف کےے ، ان میں سب سے خطرناک انقلاب مالیز جو 1835ءمیں واقع ہوا تھا ، ان متاثرین میں خود بولیفار بھی ہیں ۔ مسلمانوں کی پہلی نسل جنہیں غلام بنا کر وینزویلا لایا گیا تھا وہ معاشرے میں گھل مل گئے ، باقی بچے کھچے مسلمان جنہوں نے اپنے دین و عقیدے کی حفاظت کی تھی انہیں متعصب اسپانوی عیسائی ظلم و استبداد کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ، آج وینزویلی قوم میں اسلام اور مسلمانوں کے صرف چند آثار و نقوش نظر آئیں گے جو اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ لوگ مسلم قوم اور ان کی لڑی سے ان کے پوتے و دوہتے ہیں ۔

نئی ھجرتیں :

سیاسی ، اقتصادی اور معاشی مشکلات جن کا عرب اور عالم اسلام کو سامنا کرنا پڑا ، خصوصا دو عالمی جنگوں اور ان کے نتیجے میں درپیش مصائب مشکلات جن میں سرفہرست 1948ءمیں ارض مقدس فلسطین پر متشدد یہودیوں کا غاصبانہ قبضہ جیسے اسباب نے بہت سارے مسلمانوں اور عیسائیوں کو وینزویلا کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ، ان میں اکثریت شام ، لبنان اور فلسطین کے لوگوں کی ہے ، ایک اندازے کے مطابق شامی لوگوں کی تعداد 5 لاکھ ، دوسرے نمبر پر لبنانی جن کی تعداد 3 لاکھ ، جبکہ تیسرے نمبر پر فلسطینی لوگ ہیں جو تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ ہیں ، اس کے علاوہ دیگر عرب اور مختلف اسلامی ممالک کے لوگ بھی خاص تعداد میں آباد ہیں ، جن کے اعداد و شمارکا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے ، اسی طرح لاطینی امریکا ہی کے بعض ممالک خصوصاً ترینداد ، برازیل اور چلی وغیرہ سے بھی کافی تعداد میں لوگ وینزویلا آ کر آباد ہو رہے ہیں ۔

اقتصادی لحاظ سے مسلمانوں کی اہمیت :

یہ عرب اپنی ابتدائی زندگی میں تو بازاروں اور منڈیوں میں چل پھر کر اشیاءفروخت کیا کرتے تھے ، بہت کم عرصے میں یہ لوگ بزنس مین اور بڑے بڑے تاجر بن گئے ، آج وہ ملک کی بڑی بڑی مختلف کمپنیوں اور خریداری مراکز کے مالک ہیں اور اقتصادی لحاظ سے ان کا بہت بڑا وزن ہے ۔ ان کے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور وینزویلی معاشرے کے ہر میدان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، آج ان میں بہت سے لوگ جج ، وکلاء ، ڈاکٹرز ، انجینئرز اور یونیورسٹیوں میں پروفیسر وغیرہ ہیں ، اس سلسلے میں ہم نے پروفیسر لریانو ( جن سے فیضیاب ہونے والے طلبہ کی بے شمار تعداد ہے ) سے وینزویلا میں موجود مسلمانوں کے احوال کے بارے میں سوال کیا ، تو انہوں نے جواب میں کہا کہ میں ایک وینزویلی ہوں ، میں کراکاس شہر میں موجود مسلمانوں کی مسجد کے قریب رہتا ہوں ، میرے بہت سے مسلمان اور عرب دوست ہیں ، اور وہاں مسلمانوں کی بڑی مضبوط تنظیم بھی ہے جسے وینزویلی عوام قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، جنہیں ہم وینزویلی قوم کا ایک جزءسمجھتے ہیں جو کبھی جدا ہونے والا نہیں ۔ اور مسلمانوں کی اکثریت کراکاس ، مراکیبو ، ماتورین اور برشیلونہ جیسے شہروں میں رہائش پذیر ہے ، جبکہ فلسطینیوں کی اکثریت فالینسیا شہر میں آباد ہے ۔ ان کا وہاں ایک اسلامی مرکز اور مسجد ہے ، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں بہت سے لوگ عرب قومیت پرست ہیں ، جس کا منفی اثر مسجد اور اس سے منسلک لوگوں پر پڑ رہا ہے ، اور یہ چیز وینزویلا میں اسلام کی نشر و اشاعت میں رکاوٹ بن رہی ہے ۔
اسی طرح وینزویلا میں بڑی تعدادمیں خیراتی تنظیمیں ، اسلامی مراکز کلب ، اور عربی مدرسے وغیرہ موجود ہیں ، مساجد اور مختلف مقامات پر باجماعت نماز پڑھنے کی جگہیں مخصوص ہیں ، دارالحکومت کراکاس ، بلکہ پورے لاطینی امریکہ میں سب سے بڑی جامع مسجد شیخ ابراھیم بن عبدالعزیز الابراھیم ہے جس کی تکمیل اور افتتاح رسمی طور پر 21 اپریل 1993ءکو ہوا ۔ جو وہاں رہائش پذیر مسلمانوں کے مطالبے اور ان کی دینی ضروریات کی بنا پر کراکاس میں بنائی گئی تا کہ اس سے ان کے ایمان و عقیدہ اور اجتماعیت کو تقویت حاصل ہو ۔ جو جمہوریہ ، وینزویلا کے ایک حاکم کارلوس اندریز بیریز کے سعودی عرب کے دورے کا نتیجہ ہے ، جنہوں نے اپنے دورے کے اختتام پر دارالحکومت کراکاس میں مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کیلئے 5000 پانچ ہزار میٹر مربع پلاٹ دینے کا وعدہ کیا ، جس کی تعمیر کی ذمہ داری مؤسسہ ابراھیم بن عبدالعزیز آل ابراھیم الخیریہ ( سعودی عرب ) نے لی ۔ یہ مرکز و مسجد لاطینی امریکہ میں سب سے بڑی اور اہم مسجد ہونے کی وجہ سے مذکورہ مؤسسۃ نے خصوصی اور جدید طرز کی تعمیر کا اہتمام کیا ، اور اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر وینزویلا کے صدر نے مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ : اسے مسلمان صرف عبادت و اعتکاف کا مرکز ہی نہ سمجھیں بلکہ یہ ایک وینزویلی عوام اور امت مسلمہ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے ، انہوں نے یہ بات اسلام کا مقام اور اس کا ادب و احترام کرتے ہوئے کہی ، اور یہ مرکز اسلام کی نشر و اشاعت اور مسلمانوں کے امور کا اس ملک میں بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔

مسلمانوں میں عدم یکجہتی اور تعصب :

بدقسمتی سے وینزویلا میں بھی مسلمانوں کے درمیان دعوتی میدان میں اختلاف پایا جاتا ہے ، اسلامی مراکز ، خیراتی ادارے ، مدارس و مساجد کے انتظامی امور اور ان کی سرپرستی حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تعصب و حسد ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح کے مکروہ و ناپسندیدہ اعمال اسلام اور مسلمانوں کیلئے برے اثرات مرتب کر رہے ہیں ، جبکہ وینزویلا میں مسلمانوں کا آپس میں اتحاد اور تمام دعوتی اداروں کا اتفاق ان کی اس ملک میں بقاءکا ضامن ہے ، کیونکہ مسلمانوں کو وینزویلا میں دعوتی لحاظ سے کوئی مشکل درپیش نہیں ہے اگر کوئی مشکل ہے تو وہ صرف مسلمانوں کے آپس کے اختلافات ، اور عدم یکجہتی ہے جس کی بنا پر وہ متحد ہو کر ایک قوت بن کر ابھرنے سے قاصر ہیں ، اسی لیے وہ اقتصادی ، سیاسی ، ثقافتی ہر لحاظ سے پیچھے ہیں ۔ اگر ان میں علاقائی ، لسانی اور قومیت کا تعصب نہ ہو تو وہ وینزویلا میں ہر میدان میں ترقی کر سکتے ہیں اور دین کی نشر و اشاعت کا کام منظم طریقے سے کیا جا سکتا ہے ۔ اس میں بعض خفیہ عناصر بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جو ان ملکوں سے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں ، جس طرح کہ پہلے بھی ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ ہو چکا ہے ، جنہیں لاطینی امریکا سے ان کے مذہب و عقیدہ اور ان کے اسلامی تشخص کو ختم کیا گیا ، اور بھیڑیا بھی اسی بکری کو کھاتا ہے جو اپنے ریوڑ سے جدا ہو جاتی ہے ۔

وینزویلا ایک نظر میں :

وینزویلا پیٹرول سے مالا مال ملک ہے ، یہ پیٹرول برآمد کرنے والے ملکوں میں تیسرے نمبر پر ہے ، جس کی یومیہ پیداوار بتیس 32 لاکھ بیرل ہے ، اور باقی قدرتی معدنیات اس کے علاوہ ہیں ۔
یہ جنوبی امریکا کے شمال میں واقع ہے ، جس کی حدود بحر کاریبی اور محیط اٹلنٹی کے ساتھ ملتی ہےں ، وینزویلا کے عوام مختلف رنگ و نسل کے افراد پر مشتمل ہے ، وہاں کے باسیوں میں زیادہ تر لوگ اسپانوی ، اٹالوی ، پرتگالی ، عربی ، جرمن اور افریقی ہیں ، اس کے علاوہ وہاں کے اصل قدیم رہائشی ہیں ۔
یہاں 1811ءتک اسپانیہ کا استعمار رہا ، اور 1819ءمیں اس نے کولمبیا کبریٰ ، نیو غرناطہ کے ساتھ اتحاد کیا ، لیکن یہ اتحاد زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا ، بالآخر 1830ءمیں وینزویلا اس اتحاد سے علیحدہ ہو گیا ۔
1961 ءمیں دستور نے ایک فیڈرل حکومت کے قیام کا اعلان کیا ، جو آج تک جاری و ساری ہے ۔
اس کا حدود اربعہ 912150 کلومیٹر مربع ہے ۔
اس میں بہت سے خوبصورت اور قدرتی مناظر والے علاقے ہیں اور دنیا کی سب سے بلند آبشار اور جنوبی امریکا کا سب سے بڑا مارا کاییبو نامی دریا بھی واقع ہے ۔
2004 ءکی مردم شماری کے مطابق یہاں کے رہائشیوں کی تعداد 25017387ہے ۔
اس کا دارالحکومت کراکاس اور اہم شہر فالنسیا ، برشیلونۃ ماراکییبو ، مراکی ، ماتورین ہیں ۔
یہاں کی سرکاری زبانی اسپانوی ہے اور اس کی کرنسی کا نام ( بیزو ) ہے ۔
یہاں کی معیشت کا زیادہ تر انحصار پیٹرول ، قدرتی گیس ، سونا وغیرہ پر ہے ۔ اور وینزویلا پیٹرول سے مالا مال ہونے کے باوجود وہاں کے عوام غربت کی لائن سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ، جن کی تعداد 1998ءمیں ٪47 فیصد تھی ۔

No comments:

Post a Comment