Wednesday, January 26, 2011

چہرے کا پردہ

سوال : ہمارے ہاں کچھ روشن خیال لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام میں عورت کیلئے چہرے کا پردہ ضروری نہیں ہے جب ان کے سامنے یہ آیت پیش کی جاتی ہے ۔ ” اے نبی ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادر کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ “ ( الاحزاب : 59 ) وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد چادر کو اپنے جسم پر لپیٹنا ہے جسے پنجابی میں بکل مارنا کہتے ہیں ۔ براہ کرم اس الجھن کو دور کریں ۔ ( محمد علی )

جواب : دراصل عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لئے عورت کے باقی تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے اگر اسے ننگا رکھنے کی اجازت دی جائے اور اسے شرعی حجاب سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تو حجاب کے احکام بے سود ہیں ، سوال میں آیت کریمہ کا جو معنی کیا گیا ہے یہ لغوی ، عقلی اور نقل کے اعتبار سے غلط ہے ، اب ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں ۔

لغوی لحاظ سےادناءکا معنی قریب کرنا ، جھکانا اور لٹکانا ہے ، قرآن میں یدنین کے بعد علی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کسی چیز کو اوپر سے لٹکا دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، جب اس کا معنی لٹکانا ہے تو اس کا معنی سر سے لٹکانا ہے جس میں چہرہ کا پردہ خود بخود آ جاتاہے ۔

عقلی اعتبار سے اس لئے غلط ہے کہ اگر کوئی شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے لڑکی کا چہرہ نہ دکھایا جائے باقی سارا جسم دکھا دیا جائے ، تو وہ اس پر اطمینان کا اظہار نہیں کرے گا یہ ممکن ہے کہ لڑکی کا صرف چہرہ دکھا دیا جائے تو وہ مطمئن ہو جائے ، جب یہ چیزیں ہمارے مشاہدہ میں ہیں تو چہرے کو پردے سے کیونکر خارج کہا جا سکتا ہے ۔

نقل کے اعتبار سے بھی یہ معنی درست نہیں ہے کیونکہ سورت احزاب5 ہجری میں نازل ہوئی ، اس کے بعد واقعہ افک 6ہجری میں پیش آیا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں کہ میں اسی جگہ بیٹھی رہی ، اتنے میں میری آنکھ لگ گئی ، حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ وہاں آئے ، اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا اور اونچی آواز سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا ، اتنے میں میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا ۔ ( صحیح بخاری ، المغازی : 1041 )

بہرحال روشن خیال لوگوں کا یہ مؤقف مبنی برحقیقت نہیں ہے کہ چہرے کا پردہ مطلوب نہیں ، بلکہ اس سلسلہ میں صحیح مؤقف یہی ہے کہ چہرے کا پردہ اسلام میں مطلوب ہے ، اسلامی معاشرتی زندگی کا بھی یہی تقاضا ہے

No comments:

Post a Comment