Tuesday, January 4, 2011

خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت

علامہ اقبال فرماتے ہیں ۔

آں آمن الناس برمولائے ما
آں حکیم اول سہنائے ما
ہمت او کشت ملت راچوں ابر
ثانی اسلام و غار بدر و قبر

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے ۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے دیرینہ دوست اور سفر و حضر کے ساتھی تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان کیا ۔ تو سب سے پہلے آپ کو یہ شرف حاصل ہوا ۔ کہ آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی ۔ آپ کے بارے میں علمائے اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے ۔

افضل البشر بعد الانبیاءبالتحقیق
سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

اور1428 سال سے علمائے اسلام اس کا اعلان کر رہے ہیں ۔ اور یہ اعلان ابدالاباد تک ہوتا رہے گا ۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف مالی تعاون کیا ۔ بلکہ ہر مشکل وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاون و مددگار رہے ۔ ہجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے ۔ تمام غزوات میں آپ شریک ہوئے ، اور یہ حقیقت ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیر اول تھے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بہت سے فضائل و مناقب بیان فرمائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ابوبکر فی الجنۃ ( ترمذی )
” ابوبکر جنت میں ہیں ۔ “

اور یہ بھی فرمان نبوی ہے :
” میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہے ۔ “ ( ترمذی

قرآن مجید میں ہے :
ثاني اثنين اذ ھما في الغار اذ يقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا فانزل اللہ سکينتہ عليہہ ( التوبہ : 40 )
” دو میں سے دوسرا جب غار میں اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا ، کہ غمگین مت ہو بے شک خدا ہمارے ساتھ ہے ۔ پھر اللہ نے اس پر سکینہ نازل فرمایا ۔ “
جمہور ائمہ کرام اور مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ صاحب سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی قول ہے ۔

ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ان من امن الناس صحبتہ ومالہ ابوبکر رضی اللہ عنہ
” حقوق صحبت کی ادائیگی اور مال خرچ کرنے میں تمام لوگوں سے بڑھ کر احسان مجھ پر بلاشبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ “

پھر ارشاد فرمایا :
ولو کنت متخذا اخلیلا غیر ربی لا تخذت ابابکر خلیلا (بخاری و مسلم )
” اگر میں اپنے رب کے سوا کسی اور کو خلیل بناتا ، تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بناتا ۔ “

ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
انت صاحبی فی الغار وصاحبی علی الحوض ( بخاری )
” تم غار میں میرے رفیق تھے اور حوض کوثر پر میرے رفیق ہوگے ۔ “
جامع ترمذی میں امام ترمذی نے اور تاریخ الخلفاءمیں امام سیوطی رحمہ اللہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے ۔ کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہم سب کے سردار اور ہم سب سے بہتر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ پیارے تھے ۔ غزوہ تبوک رجب9 ہجری میں پیش آیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ کے لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے چندہ کی اپیل کی ۔ ہر صحابی نے اپنی طاقت کے مطابق اس غزوہ کے لئے مالی تعاون کیا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

جس وقت غزوہ تبوک کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی تعاون کی اپیل کی ۔ اس وقت میرے پاس بہت مال تھا ۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ سکتا ہوں تو وہ یہی موقع ہے ۔ چنانچہ میں گھر گیا ۔ اور اپنا نصف مال لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا ۔
عمر رضی اللہ عنہ ! اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نصف مال آپ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا ہے ۔ اور نصف مال اپنے اہل و عیال کے لئے چھوڑ آیا ہوں ۔
اس کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تشریف لائے ۔ ان کے پاس جو کچھ تھا ۔ وہ سب لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کبھی بھی بازی نہیں لے جا سکتا ۔ علامہ اقبال نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو اس شعر میں نظم کیا ہے ۔
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے ہے خدا کا رسول بس

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 12 ربیع الاول 11 ھجری کو وصال فرمایا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں جھوٹے نبی پیدا ہو چکے تھے ۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال فرمایا تو کئی اور فرقے اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔

ایک تو جھوٹے مدعیان نبوت تھے ۔ ان کے علاوہ ایک گروہ ایسا پیدا ہوا ۔ جس نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ۔ اور ساتھ ایک اور گروہ سامنے آیا ۔ جنہوں نے دین اسلام سے انحراف کیا ۔ یعنی مرتدین اسلام ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے یہ بڑا سخت وقت تھا ۔ آپ نے ان سب فتنوں کا بڑی بہادری ، شجاعت اور فہم و بصیرت سے مقابلہ کیا ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔
لقد قمنا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقاما کنا نھلک فیہ لولا ان اللہ من علینا بابی بکر
” ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے حالات میں گھر گئے تھے ۔ کہ اگر اللہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے ۔ “
عرف عام میں اگرچہ خلفائے راشدین میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو زیادہ شہرت حاصل ہے ۔ لیکن حق یہ ہے کہ اگر خلیفہ اول نے پورے عرب کو ایک اسلام کے عَلَم کے نیچے لا کر نہ جمع کر دیا ہوتا ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو عظیم کارنامے انجام دئیے ۔ ان کے لئے راہ ہموار نہیں ہو سکتی تھی ۔ ( صدیق اکبر از مولانا سعید احمد اکبر آبادی ص 11 ۔ مطبوعہ دہلی 1957ء )

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت سوا دو برس ہے ۔ اور اس قلیل مدت میں آپ نے جو عظیم الشان کارنامے انجام دئیے ۔ ان کی مثال تاریخ اسلام میں مشکل ہی سے ملے گی ۔ مولانا طالب الہاشمی مرحوم لکھتے ہیں کہ : ” حضرت ابوبکر صدیق کی مدت خلافت صرف سوا دو برس ہے لیکن اس قلیل مدت میں انہوں نے جو عظیم الشان کارنامے انجام دئیے ۔ ان کا حال پڑھ کر انسان ورطہ حیرت میں غرق ہو جاتا ہے ۔ انہیں اپنے دور خلافت کا بیشتر حصہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نمٹنے میں صرف کرنا پڑا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ ملکی نظم و نسق سے غافل نہیں رہے فی الحقیقت انہوں نے اپنی قوت ایمانی ، تدبر و فراست اور عزم و ہمت کی بدولت نوزائیدہ خلافت اسلامیہ کو اتنی مستحکم بنیادوں پر قائم کر دیا ۔ جس پر ان کے اولوالعزم جانشین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک عظیم الشان تعمیر کر دی ۔ ( سیرت خلیفۃ الرسول : ص 477 )

علم و فضل کے اعتبار سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے جامع الکمالات تھے ۔ تفسیر ، حدیث ، علم تفسیر ، علم الانساب ، شعر و سخن ، حکایت ، تحریر و کتابت میں انہیں مہارت تامہ حاصل تھی ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عظیم الشان کارنامہ ” جمع قرآن مجید “ ہے ۔ موطا امام مالک میں ہے کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ قرآن مجید کے تمام اجزاءکو جمع کر کے ایک کاغذ پر یک جا جمع کرنے کا اہتمام کریں ۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ۔

وفات :
7 جمادی الثانی 13 ہجری کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے غسل کیا ۔ اس دن سردی بہت زیادہ تھی ۔ جس کی وجہ سے بخار ہو گیا ۔ 15 دن مسلسل بخار رہا ۔ 22 جمادی الثانی 13 ہجری بروز دو شنبہ مغرب اور عشاءکے درمیان انتقال کیا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ اور حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کئے گئے ۔ وفات کے وقت عمر 63 سال تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات پر ارشاد فرمایا : ” آج خلافت نبوت کا انقطاع ہو گیا ۔ “

دعا کریں ، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے چچا ابو عامر رضی اللہ عنہ کا پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ نے پہلے پانی منگوایا ، وضو کیا پھر ہاتھ اٹھائے اور دعا کی ۔ ” اے اللہ ! ابو عامر عبید کو معاف کر دے اور قیامت کے دن اسے بے شمار لوگوں پر برتری عطا فرما ۔ “ ( صحیح بخاری ، المغازی : 4323 )

اس روایت میں کوئی تعزیت کا موقع نہیں ہے بلکہ انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی اپیل کرنا ، آپ نے ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ، اس حدیث سے تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا مسئلہ کشید کرنا محل نظر ہے ۔ ( واللہ اعلم )

No comments:

Post a Comment