Tuesday, January 25, 2011

اختلاف اور اخلاق

خلاف اور اختلاف معروف الفاظ ہیں اور غالباً ان کے مفاہیم بھی معروف ہیں ، لغوی طور پر اختلاف کا اصل مادہ """ خَلَفَ """ ہے ، اس کو لغت میں یوں بیان کیا جاتا ہے :::
خَلَفَ ، یَخلِفُ ، خِلاف ٌ ، مُخلاف ٌ ، اور ،
باب """ اِفتَعلَ "" سے ، اَختَلفَ ، یَختلفُ ، اِختلافٌ ، مُختَلِفٌ ، ہے
مفہوم کے اعتبار سے دونوں کا ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں کہ ::: """ الخِلاف ھو ضد الاتفاق و ھو ان یذھبَ احدُھُما اِلیٰ ما یُخلاف الآخر ::: خلاف ، اتفاق کی ضد ہے اور وہ یہ ہے کہ دو (اشخاص یا جاندار اور ذی عقل چیزوں )میں سے ایک اُس طرف جائے جو دُوسرے کے خلاف ہو """
پس خلاف اور اختلاف میں لغوی طور پر کوئی اختلاف نہیں اور اسی طرح اصطلاحی استعمال میں بھی کوئی خِلاف نہیں ،
اس کے ہم معنی الفاظ میں """ فرق ، اور ، افتراق """ ، """ نزعٌ ، اور ، اِنتَزاعٌ """ ہیں ،
اللہ سبحانہ ُ و تعالیٰ کے کلام پاک میں ان تینوں کے مذکورہ بالا مفاہیم کے مطابق استعمال کی مثالیں میسر ہیں جو اس بات کی تائید ہیں کہ اصطلاحی طور پر بھی اِن کے مفاہیم میں کوئی فرق نہیں ،
اور یہ بھی بہت واضح ہوتا ہے کہ اختلاف ، تفرقہ ، تنازع ، اللہ کو ناپسند ہیں اور اللہ کی ناراضگی کے اسباب میں سے ہیں ، اور دُنیا اور آخرت کی ذلت اور عذاب کے اسباب میں سے ہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الكِتَابَ بِالحَقِّ لِيَحكُمَ بَينَ النَّاسِ فِيمَا اختَلَفُوا فِيهِ وَمَا اختَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعدِ مَا جَاءتهُمُ البَيِّنَاتُ بَغياً بَينَهُم فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اختَلَفُوا فِيهِ مِنَ الحَقِّ بِإِذنِهِ وَاللّهُ يَهدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّستَقِيمٍ :::
پہلے سب ہی لوگ ایک اُمت تھےتو اللہ نے نبی بھیجے ، خوشخبریاں دینے والے اور ڈرانے والے اور اُن کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ، حق کے ساتھ ، تا کہ وہ نبی اُس کے بارے میں (اس کتاب کے ذریعے ) فیصلے کریں جِس میں لوگوں کا اختلاف ہے ، اور اُس (جو کچھ ) اُنہیں دیا گیا اُس میں انہوں نے اس وقت اختلاف کیا جب کہ ان کے پاس واضح روشن دلائل آ چکے ، انہوں نے(یہ اِختلاف ) آپس میں بغاوت کرتے ہوئے کیا ، تو اللہ نے اِیمان لانے والوں کو اپنی اجازت سے حق میں سے اُس کے بارے میں ہدایت فرمائی جس میں لوگوں نے اختلاف کیا ، اور اللہ جسے چاہے اِستقامت والے راستے کی ہدایت دیتا ہے ))))) سورت البقرة /آیت ۲۱۳ ،

اللہ پاک کے اس مذکورہ بالا فرمان میں """ اِختلاف """ کی مذمت بہت واضح ہے ، یہ صرف ایک موقع نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی مذمت اور بھی کئی دفعہ فرمائی ، مثلاً :::
((((( وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعدِ مَا جَاءهُمُ العِلمُ بَغياً بَينَهُم وَلَولَا كَلِمَةٌ سَبَقَت مِن رَّبِّكَ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَينَهُم وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الكِتَابَ مِن بَعدِهِم لَفِي شَكٍّ مِّنهُ مُرِيبٍ :::
اور وہ (سابقہ اُمتیں )اُن کے پاس عِلم آنے کے بعد ہی ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے فرقوں میں تقسیم ہوئے، اور اگر اللہ کی طرف سے ایک (حساب ، اور جزا و سزا کے لیے )مقررہ وقت کی بات نہ ہوچکی ہوتی تو فیصلہ ہو جاتا ، اور بے شک جنہیں اِن (اختلاف کرنے فرقوں میں بٹ جانے والوں) کے بعد کتاب کی وراثت ملی وہ بھی اُس کے بارے میں شک کا شکار ہیں )))))) سورت الشُوریٰ /آیت 14،

ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ آیت مبارکہ میں """ لَفِي شَكٍّ مِّنهُ مُرِيبٍ """" میں مذکور """ مِّنهُ """ میں سے """ ہُ""" سے مراد مُحمد (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) ہیں ، بہر حال اس سے مراد وہ کتاب لی جائے جو سابقہ لوگوں امتوں کو دی گئی اور جس کا ذکر کیا گیا ، یا رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارکہ لی جائے ، بہر صورت اختلاف کو ایک مذموم عمل کے طور پر ذکر کیا گیا ،

اس نا پسندیدہ کام کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیےجائز نہ رکھتے ہوئے حُکم فرمایا ((((( وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُوا ::: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور الگ الگ مت ہو ))))) سورت آل عمران / آیت103

اور اس مذموم عمل یعنی اِختلاف اور گرو ہ بندی کی بہت وضاحت کے ساتھ مذمت فرماتے ہوئے ، اُس سے منع فرماتے ہوئے اور اس کا خوفناک نتیجہ بتاتے ہوئے اِرشاد فرمایا ((((( وَلاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواوَاختَلَفُوا مِن بَعدِ مَا جَاءهُمُ البَيِّنَاتُ وَأُولَـئِكَ لَهُم عَذَابٌ عَظِيمٌ ::
: اور تُم لوگ اُن کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اُن کے پاس روشن نشانیاں آ جانے کے بعد (بھی)گروہوں میں بَٹ گئے اور اختلاف کیا اور وہی ہیں جِن کے لیے بڑا عذاب ہے ))))) سورت آل عمران/آیت105،

اللہ سبُحانہ و تعالیٰ نے ہمیں مزید یہ بھی بتایا کہ اختلاف اور گروہ بندی کا عذاب صرف آخرت میں ہی نہ ہو گا بلکہ دُنیا میں بھی ذلت و رسوائی کا سبب ہو گا ، پس فرمایا ((((( وَأَطِيعُوا اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَتَذهَبَ رِيحُكُم وَاصبِرُوا إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ :::
اور اللہ کی تابع فرمانی کرو اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) کی تابع فرمانی کرو اور تنازع مت کرو ورنہ تُم لوگ ناکام ہو جاؤ گے اور تُم لوگوں کی ہوا اُکھڑ جائے گی اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ))))) سورت الأنفال / آیت46،

اختلاف ، تنازع اور گروہ بندی کے منفی نتائج کے باوجود کئی اور ایسے ہی منفی نتائج والوں کاموں کی طرح اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے اپنی مکمل بے عیب حکمت سے مقرر فرمایا کہ سابقہ امتوں کی طرح مسلمانوں میں بھی یہ مذموم عمل پایا جائے گا ، اور اس کی خبر بھی فرمائی ، ((((( وَلَو شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُختَلِفِينَ O إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّكَ وَ لِذَلِكَ خَلَقَهُم وَ تَمَّت كَلِمَةُ رَبِّكَ لأَملأنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجمَعِينَ:::
اور اگر آپ کا رب چاہتا تو سارے ہی لوگوں کو ایک ہی اُمت بنا دیتا (لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا ) اور وہ ابھی تک مُختلف ہیں O سوائے اُن کے جِس پر آپ کے رب نے رحمت کی (اور اختلاف سے محفوظ رکھا )اور اللہ نے لوگوں کو اسی لیے ہی بنایا اور اللہ آپ کے رب کا فرمان پورا ہو(کر رہے )گا(کہ)میں ضرور جہنم کو انسانوں اور جِنّات سے بھروں گا ))))) سورت هود/آیات 118 ، 119،

یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ مُسلمانوں میں اختلاف ختم ہو جائے ، یہ رہے گاخواہ بہت ہی معمولی رہے ، چھوٹے چھوٹے معاملات میں رہے ، پس یہ ختم نہ ہوسکنے والی چیز ہے ، لیکن یہ ضرور کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے کچھ زیادہ محنت بھی درکار نہیں کہ اختلاف کی صورت میں اپنے مُسلمان بھائی بہنوں کے حقوق اور احترام کی ادائیگی میں کوئی کمی نہ کی جائے اور نہ اپنے دِل میں ان کے لیے کوئی بُغض رکھا جائے ، یہاں تک کہ کسی کے بارے میں بالکل واضح طور پر یہ ثابت نہ ہو جائے کہ معاذ اللہ وہ حق جانتے ہوئے باطل پر عمل پیرا ہے ،

ایسا قطعاً نا مُمکن نہیں کہ ہم اپنے اختلاف کی بنا پر وجود میں آنے والی تفریق کو صرف اُس موضوع ، اُس بات ، اُس کام کے اندر تک محدود رکھیں جس میں وہ ہوا ہے ، اور اُس اختلاف کے بارے میں بات چیت کریں ، ایک دوسرے کے دلائل سنیں ، مانیں یا رد کریں ، اور ایک دوسرے سے اسلامی بھائی چارہ بھی قائم رکھیں ،
بے شک ہم سب کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک ہر کام میں ہر لحاظ سے بہترین نمونہ ہے ، اور معاملہ صرف نمونہ ہونے کا ہی نہیں بلکہ اُن کی اتباع فرض ہے اور ان کی عطا کردہ ہدایت اور ترغیب پر عمل کرنے سے بڑھ کر درستگی اور خیر والا کام اور کوئی نہیں ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( خَيرُ الناس قَرنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُم ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُم ::: سب سے زیادہ خیر والے لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر جو ان کے بعد ہیں ، پھر جو اُن کے بعد ہیں ))))) صحیح البُخاری /حدیث 3451 /کتاب فضائل الصحابہ /باب اول ، صحیح مُسلم/حدیث ۲۵۳۳/کتاب فضائل الصحابہ /باب ۲۵،

آیے دیکھتے ہیں کہ تمام تر لوگوں میں سے زیادہ خیر والے لوگ جو اُن تین زمانوں میں تھے ، اُن لوگوں کا ایک دووسرے سے اختلاف ہونے کی صورت میں کیا رویہ رہتا تھا ،

أمیر المؤمنین عُمر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما ، کےبارےمیں معروف ہے کہ وہ تقریباً ایک سو مسائل میں ایک دوسرے کے خِلاف تھے ، یعنی ان میں تنازع تھا ، لیکن اس کے باوجود ابن مسعود رضی اللہ عنہُ أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ کی یاد میں رو پڑتے اور اُن کےبارے میں یہ کہا کرتے تھے کہ """"" إِنَّ عُمَرَ رضي اللَّهُ عنه كان لِلإِسلامِ حِصنًا و حصيناً يَدخُلُونَ في الإِسلامِ وَلا يَخرُجُونَ فلما أُصِيبَ عُمَرُ انثَلَمَ الحِصنُ ::: عُمر رضی اللہ عنہُ اسلام کے لیے ایک قلعہ تھے کہ لوگ اِسلام میں داخل ہوتے تھے جس میں لوگ داخل ہو کر نکلتے نہ تھے جب عُمر (رضی اللہ عنہ ُ ) فوت ہو گئے تو یہ قلعہ میں دڑار پڑ گئی """ اور امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کو دوسرے شہروں میں دینی معاملات کے لیے اُستاد بنا کر بھیجتے اور اُن کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ """"" کنیفٌ ملیء عِلماً ::: ( ابن مسعود رضی اللہ عنہ) فقہ سے بھرا ہوا برتن ہیں """"""( کنیف ، مترادف وعاء اور وعا کسی بھی ایسی چیز کو کہتے ہی جو کسی دوسری چیز کو اپنے اندر چھپا سکے )،
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہُ میں بھی اسی طرح دادا کی وراثت سے متعلق کئی مسائل میں اختلاف تھا ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ """ کیا زید اللہ کا خوف نہیں کرتے کہ پوتے کو دادا کا وارث بتاتا ہے اور دادا کو پوتے کا نہیں """ لیکن وہ اختلاف بھی صرف مسائل کی حد تک ہی تھا اوروہ ایک دوسرےکااحترام اس طرح کیا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ( زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ُ سوار ہونے لگے تو ) ابن عباس رضی اللہ عنہما زید رضی اللہ عنہ ُ کی سواری کی رکاب تھام لی تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا """ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اس کی رکاب چھوڑ دیجیے """ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا """ ہمیں اِسی طرح اپنے عُلماء کی عِزت کرنا سکھایا گیا ہے """" اور جب زید رضی اللہ عنہ ُ فوت ہوئے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا """ اس طرح عِلم ختم ہوتا ہے ، آج بہت زیادہ عِلم چلا گیا """"

یونس الصدفی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ """ میں نے (اِمام) شافعی سے بڑھ کر عقل مند کوئی نہیں دیکھا ، ایک دِن میں نے اُن کے ساتھ کسی مسئلہ پر مناظرہ کیا اور ہم الگ الگ ہو گئے ، اُس کے بعد جب شافعی مجھے ملے تو انہوں نے میرا ہاتھ تھام کر کہا """ عیسیٰ کے باپ کیا یہ اچھا نہیں کہ ہم بھائی بھائی رہیں خواہ کسی مسئلہ میں ہمارا اتفاق نہ ہی ہو """"

امام الشافعی رحمۃُ اللہ علیہ ابو عیسیٰ الصدفی سےپوچھا ہوا یہ سوال ہم سب کو ایک دوسرے سے پوچھنا چاہیے ، اور پھر ایک دوسرے کے حقوق جانتےاورسمجھتےہوئےاورانہی ں ادا کرتے ہوئے ، اپنے اختلاف کو اپنے اخلاق کا اتلاف نہ بننے دیں ، اور کسی مسلمان کے عزت پر ہاتھ ڈالنے سے باز رہیں کہ اس پر کفر و شرک کے فتوے صادر کرتے ہوئے اس کو اسلام سے خارج قرار دیں ، اور اس کی حق تلفی سے بچے رہیں ،

اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ ہمت دے کہ ہم اختلافات کو بد اخلاقی اور اسلامی بھائی چارے کا قاتل نہ بننے دیں ، اختلافی مسائل اور معاملات کو اسلامی بھائی چارے کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے سلجھانے کی کوشش کریں نہ کہ بد اخلاقی کر کے مزید بگاڑ پیدا کریں ، چھوٹی چھوٹی دڑاڑیں بھرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن جب اُنہیں بھرنے کی بجائے کِھینچا جانے لگے تو وہ بڑی بڑی خلیجیں بن جاتی ہیں جنہیں بھرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے ، اور ہم مسلمانوں پر ٹوٹنے والی بڑی بڑی مصیبتوں میں سے ایک مُصیبت بداخلاقی،ذاتی پسند نا پسند ، شخصیت پرستی پر مبنی اختلاف بھی ہے جو مسلمانوں کے درمیان ایسی ہی خلیجیں پیدا کرتا ہے ،
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے

===============================================
مصادر و مراجع :::کتاب اللہ ، صحیح البخاری ، صحیح مُسلم ، المعجم الکبیر للاِمام سلیمان الطبرانی ، مُصنف عبدالرازاق ، الطبقات الکُبریٰ للاِمام محمدابن سعد ، تذکرۃ الحُفاظ، اور ، سیر أعلام النُبلاء للاِمام محمد الذھبی ، صفۃ الصفوۃ للاِمام عبدالرحمٰن ، المعرفۃ و التاریخ للاِمام ابو یوسف یعقوب الفسوی۔

No comments:

Post a Comment