Monday, January 31, 2011

اللہ کا صبر


عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما احد اصبر علی اذی سمعہ من اللہ یدعون لہ الو لد ثمی یعا فیہم ویرزقہم ( رواہ البخاری )

حضرت ا بو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تکلیف دہ بات سن کر صبر کرنے والا اللہ سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہے مشرک کہتے ہیں اللہ کی ا ولاد ہے مگر وہ ان کی ان باتوں کے باوجود انہیں عافیت میں رکھتا ہے اور روزی عطا فرماتا ہے ۔ ( بخاری ) 
اللہ تعالیٰ بلند حوصلے اور عظیم مرتبے والا ہے بندوں کے بڑے بڑے گناہوں پر انہیں معاف کردیتا ہے ان کے عیب چھپاتا ہے قرآن پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت سے گناہوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ان سے در گزر کرتا ہے اور فرمایا جوکوئی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے وہ تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے لیکن جب اس کے بندے اس کی ذات میں کسی کو شریک بناتے ہیں توا سے یہ سخت ناگوار ہوتا ہے وہ ارشاد فرماتا ہے کہ انسان مجھے جھٹلاتا بھی ہے اور مجھے گالیاں بھی دیتا ہے ۔ حالانکہ اسے یہ حق نہیں پہنچتا ۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد زندہ کرکے اٹھایا نہیں جائے گا حالانکہ یہ کام میرے لئے مشکل نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میری اولاد ہے حالانکہ نہ میری اولاد ہے نہ والدین ۔

بخاری شریف کی اس روایت میں بھی اللہ نے یہی فرمایا ہے کہ اللہ سے زیادہ کوئی بھی صبر کرنے والا نہیں ہے ۔ اللہ کا شریک بنانے کے باوجود وہ صبر کرتا ہے اور اس کا حوصلہ بہت ہی بڑا ہے ۔ بندے فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی اولاد نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس قدر مہربان ہے کہ یہ سن کر بھی انہیں عافیت دیتا ہے اور انہیں رزق دیتا ہے ۔ دنیا میں کوئی شخص اگر کسی کی نافرمانی کی بنا پر ناراض ہوجائے تو وہ تمام وسائل روک لیتا ہے اور جس حد تک وہ تکلیف دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اپنے مخالف کو تکلیف دینے سے گریز نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ ہر شخص کی خبر گیری بھی کرتا ہے ۔ انہیں رزق بھی دیتا ہے اس کی اس عنایت پر غفلت کا شکار ہونے کے بجائے اس کی بندگی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے اور قیامت کے روز عذاب سے بچالے۔

No comments:

Post a Comment