Wednesday, January 26, 2011

پردہ اور صحابيات

عہد نبوت میں اگر چہ اس زمانہ كا سا پردہ رائج نہ تھا تا ہم عورتيں بالكل بے پردہ اور آزاد بھی نہ تھیں۔
محفہ ( ہودج) ميں سفر كرتى تھیں ( ابو داود، كتاب المناسك، باب الصبي يحج)،
نقاب پوش رہتی تھیں ، اور غير محرم سے پردہ كرتى تھیں ۔

حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا فرماتى ہیں كہ حجہ الوداع كے زمانہ میں جب لوگ ہمارے سامنے سے گزرتے تھے تو ہم چہرے پر چادر ڈال لیتے تھے لوگ گزر جاتے و پھر منہ کھول دیتے تھے ۔(ابو داود، كتاب المناسك، ما يلبس المحرم)

ايك بار حضرت افلح بن ابي القيس رضي اللہ عنہ حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے ملاقات كو آئے،
وہ پردہ ميں چھپ گئیں ۔
بولے : تم مجھ سے پردہ کرتی ہو ؟ میں تو تمہارا چچا ہوں ؟
بولیں : کیسے ؟
بولے: ميرے بھائی کی بیوی نے تم کو دودھ پلایا ہے ۔
بوليں: مرد نے تو دودھ نہیں پلایا ؟
( ابو داود، كتاب النكاح، باب في لبن الفحل)

ايك صحابيہ كا بيٹا شہید ہوا ۔
وہ نقاب پہن کر نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خدمت ميں حاضر ہوئیں ۔
صحابہ كرام نے ان كو ديكھ كر کہا : بيٹے کی شہادت كا حال پوچھنے آئی ہو نقاب پہن کر ؟
بوليں: ميں نے اپنے بیٹے کو کھویا ہے ، شرم وحیا کو تو نہیں کھویا !
( سنن أبي داود، كتاب الجہاد، باب فضل قتال الروم ۔۔۔۔)

ہمارے زمانہ ميں پردہ ايك رسمى چیز ہے ، مثلا ايك عورت كسى "محرم" سے رسمى پردہ کرتی ہے تو اس سے لازمى طور پر ہمیشہ پردہ کرے گی ۔ لیکن دوچار بار كسى " نامحرم " کے سامنے آنے كا اتفاق ہو گیا تو پھر اس كے ليے پردہ کے تمام قيود ٹوٹ جائیں گے ، ليكن صحابيات رسمى پردے كى پابند نہ تھیں ۔ان كا پردہ بالکل شرعی تھا ، اگر شريعت اجازت ديتى تو وہ كسى كے سامنے آتی تھیں اور جب شرعى مواقع پیدا ہو جاتے تھے تو اس سے پرد کرنے لگتی تھیں ۔



حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا كا مذہب ہے کہ غلاموں سے پردہ ضروری نہیں ۔ اس ليے وہ حضرت ابو عبد اللہ سالم رضي اللہ عنہ كے سامنے _ جو نہایت متدين غلام تھے _ آتى تھیں، اور ان سے بے تکلف باتيں كرتى تھیں ۔ ايك دن وہ آئے اور كہا كہ خدانے آج مجھے آزاد کر دیا ۔ چونکہ اب وہ غلام باقى نہیں رہے تھے ، اس ليے حضرت عائشہ نے پردہ گروا دیا اور عمر بھر ان کے سامنے نہ ہوئیں ۔( سنن النسائي، كتاب الطہارہ ، باب مسح المراہ راسہا)

No comments:

Post a Comment