Tuesday, January 4, 2011

رحمت نبوت کی چند جھلکیاں

اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ حدیث نبوی ((رحموأ من فی الرض.)) … ''یعنی اہل زمین پر رحم کرو، اس سے کیا مراد ہے ؟ تو اس سے دین کی عظمت اور لوگوں کے لیے رحمت کا عام پیغام واضح ہوجائے گا۔ کیوں کہ جو بھی اس روئے زمین پر بسنے والے ہیں سب کو یہ رحمت شامل ہے۔ اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں؛ حیوانات اور جمادات ہی کیوں نہ ہوں۔ کسی بھی ذہن میں یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ اگر کافروں کے لیے بھی یہ دین رحمت ہے تو جہاد کیوں کر مشروع کیا گیا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جہاد مشروع کرنے کی وجہ ان لوگوں کو ختم کرنا ہے جو لوگوں کے اور اللہ تعالی کی رحمت کے درمیان حائل ہوتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
(کُنْتُمْ خَیْْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ) (آل عمران:١١٠)
''تم بہترین امت ہو، تمہیں لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔''
اسلام بغض، حسد،سخت دلی، کینہ پروری اور ان عناصر سے بالکل بری ہے، جن کی وجہ سے انسانیت ہلاکت کے دروازے پر کھڑی ہے۔بے شک وہ پتھر دل، جو رحمت اور شفقت سے نابلد ہیں وہ دل سچے مومن نہیں ہوسکتے۔رسول اللہa فرماتے ہیں:
(( لا تنزع الرحمة لا من شقی.)) 1
! أبو داؤد ، کتاب الدب؛ باب ف الرحمة (٤٣١٢)۔ وصحیح ابن حبان: کتاب البر و الحسان، باب الرحمة (٤٦٧٠)۔الترمذی : باب ما جاء ف رحمة للمسلمین (١٨٩٥)؛ حدیث صحیح ۔
'' بدبخت کے علاوہ کسی کے دل سے رحمت کو ختم نہیں کیا جاتا۔''
آمدہ سطور میں مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں آپ a کی حیات و کرداراور سیرت طیبہ کے چند پہلؤوں کو ملاحظہ کیجیے۔شیخ عبد الرحمن السعدی kفرماتے ہیں :
''جس چیز پر یہ دین قائم ہے،وہ شفقت و احسان، رحمت، حسن معاملہ،بھلائی کی دعوت،او رہر ایسی چیز جو اس کے خلاف ہواس سے ممانعت ہے، یہی وہ چیز ہے جس نے اسلام کو بد معاملگی اور بغاوت کے اندھیروں میں ایک چمکتا ہوا نور بنا دیا ہے۔ اور اس کی حرمت کا پاس کرناہی وہ چیز ہے جس نے اسلام کے سب سے گہرے اور قدیم دشمنوں کو اس کاہم نوا بنادیا، یہاں تک کہ وہ اسلام کے سائے میں جگہ پانے لگے۔ یہی وہ مذہب ہے جس نے اپنے ماننے والو ں پر عاطفت اور نرمی کی وہ اعلیٰ مثالیں قائم کیں یہاں تک عفو و احسان ان لوگوں کے دلوں سے ان کے اقوال اور اعمال کے ذریعے چھلکنے لگا۔ انہوں نے اپنے دشمنوں سے بھی ایسا سلوک کیا کہ انہیںاسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دوست اور حامی بنادیا۔ اور ان میں سے بعض نے اپنی بصیرت و علم اور قوت ارادی کی بنا پر اسلام قبول کرلیا،اور ان میں سے بعض نے اسلامی احکام کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیے،اور اسلامی احکام کو اس عدل و انصاف اور رحمت کی وجہ سے اپنے سابقہ دین کے احکام پر ترجیح دی۔''
١۔ عورتوں پر رحمت اور شفقت :
عورتوں پر شفقت اور رحمت کا معاملہ ایسا معاملہ ہے جس پر مسلمان بجا طور پرہر زمانے میں فخر کرسکتے ہیں۔ ان مثالو ں میں سے ایک یہ ہے کہ:'' کسی جنگ میں آپ a نے ایک عورت کو مقتول پایا، آپa نے اس چیز کو بہت برا جانا کہ عورت کو قتل کیا جائے۔ اور عورتوں، اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا۔ ''1
! بخاری کتاب الجہاد والسیر ؛ باب قتل الصبیان ف الحرب؛ ح(٢٨٧٢)۔ مسلم کتاب الجہاد والسیر ؛ باب تحریم قتل النساء ": ح (٣٣٦٦)۔ ابن ماجہ کتاب الجہاد باب الغارة (٢٨٣٨)۔
ایک روایت میں ہے :
'' یہ عورت تو اس لائق نہ تھی کہ اس سے قتال کیا جائے ۔'' اور پھر اپنے صحابہ کرام eکی طرف دیکھا، اور ان میں سے ایک کو مخاطب کرکے فرمایا :''جاؤ اور خالد بن ولیدbسے جاکر ملو(انہیں اس وقت رسول اللہa نے ایک غزوہ پر بھیجا ہوا تھا )۔اور ان سے کہو کہ کسی عورت، مزدور اور بچے کو قتل نہ کرنا ۔''1
! ابن حبان : کتاب السیر ، باب تقلید الجرس للدواب ح(٤٨٦٢)؛ حاکم ،کتاب الجہاد ، من حدیث عبد اللہ بن یزید النصاری :ح (٢٤٩٩)۔ المطالب العالےة لابن حجر ، کتاب الجہاد ، باب النہی عن قتل النساء و الولدان و الشیوخ…ح(٢٠٧٧)۔
اور فرمایا:
''میں دو کمزورطبقہ کے لوگوں کا حق مارنے میں حرج سمجھتا ہوں۔ یتیم اور عورت ۔''1
! صحیح ابن حبان: کتاب الحظر و الاباحة؛ باب الزجر عند أکل مال الیتیم ح(٥٦٤٢)؛ حاکم کتاب الایمان ؛ ح(١٩٥٤)۔ ابن ماجة ،کتاب الأدب باب حق الیتیم ح ٢١٧٥)۔
عورت کو کمزور تعبیر کرنے سے مراد اس پر شفقت ہے، اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے، بھلائی کرنے اورایذا رسانی سے پرہیز کرنے کی تعلیم ہے ۔'' کہاں ہیں وہ لوگ جو دین اسلام کو سختی اور سنگ دلی کا طعنہ دیتے ہیں؛ ان واقعات کو پڑھ کر ان کی آنکھیں کیوں نہیں کھلتیں ؟
٢۔ بچوں پررحمت :
اسلام میں شفقت اور رحمت کی بے شمار صورتوں میں سے ایک مثال چھوٹے بچوں پر شفقت،ان کے ساتھ عاطفت،ان کے ساتھ محبت،او ران کو ایذا رسانی کی ممانعت کی ہے۔حضرت ابو ہریرہ bفرماتے ہیں :
''نبی کریمa نے حضرت حسن بن علی d کو بوسہ دیا،ان کے قریب ہی حضرت اقرع بن حابس bکھڑے تھے۔کہنے لگے :''میرے دس بیٹے ہیں میں نے کبھی ان میں سے کسی ایک کو بھی بوسہ نہیں دیا۔'' رسول اللہ aنے ان کی طرف دیکھا، اور فرمایا :''جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ '' 1
&البخاری ، کتاب الدب ، باب رحمة الولد و تقبیلہ و معانقتہ ح(٥٦٥٧)۔ مسلم کتاب الفضائل، باب رحمتہ V الصبیان والعیال و تواضعہ و فضل ذلک؛ ح (٤٣٨٣)۔
حضرت عائشہ c فرماتی ہیں :
'' کچھ دیہاتی رسول اللہ a کے پاس حاضر ہوئے، اور رسول اللہa سے پوچھا : کیا آپ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟
آپ a نے فرمایا : ''ہاں!
وہ دیہاتی کہنے لگے:''مگر ہم تو اللہ کی قسم ہے اپنے بچوں کو نہیں چومتے۔''
آپa نے ارشادفرمایا: ''کیا اگراللہ تعالیٰ تمہارے دلوں سے رحم کو نکال دے، تو میں کسی چیز کا مالک ہوں۔'' 1
! بخاری کتاب الدب ، باب : رحمة الولد و تقبیلہ و معانقتہ ح(٥٦٥٨)۔ مسند عائشة لابن ابی داؤد ح (٥١)۔شعب الیمان للبیہقح(١٠٥٣٦)۔ الدب المفرد ،باب قتل الصبیان:ح (٩٠)۔
یہ وہ حضرت محمدa ہیں، اور یہ ہے وہ دین اسلام، جس کی یہ تعلیمات ہیں۔ اور حضرت محمد a نہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تعلیمات لوگوں تک پہنچاتے ہیں، بلکہ ان پر عمل کرکے ان کا عملی نمونہ بھی پیش کرتے ہیں۔ یہی وہ ہستی ہیں جن پر یہ بہتان لگایا جاتا ہے کہ : وہ تو ایک دیہاتی اور لڑاکا آدمی تھے، اور خون بہانا ان کا شیوہ اور عادت تھی۔ رحمت اور شفقت کے نام سے بھی ناواقف تھے۔ رسول اللہaپر ایسا الزام لگانے اور بہتان تراشی کرنے والے انتہائی سخت گھاٹے میں ہیں انہیںجان لینا چاہیے کہ اس سفید جھوٹ کی وجہ سے ان کی دنیا اور آخرت خراب ہو سکتی ہے۔
حضرت ابو مسعود بدری b کہتے ہیں :''میں اپنے ایک غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا، میں نے پیٹھ کے پیچھے سے ایک آواز سنی،وہ کہہ رہے تھے :''اے ابو مسعو د جان لے۔'' میں غصہ کی وجہ سے اس آواز کو سمجھ نہ سکا،پس جب وہ آدمی میرے قریب ہوگیا،تومیں نے دیکھا کہ وہ رسول اللہa تھے۔ اور فرما رہے تھے :اے ابو مسعود !جان لے کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر اس غلام پر تیری قدرت سے بڑھ کر قدرت رکھتے ہیں ۔''میں نے کہا : آج کے بعد میں اپنے غلام کو کبھی بھی سزا نہ دونگا ۔'' مسلم میں ہے :''اگر تم ایسا نہ کرتے(یعنی آئندہ کے لیے نہ مارنے کا عہد نہ کرتے) تو تمہیں آگ چھولیتی۔'' 1
!مسلم ،کتاب الیمان ،باب محبة الممالیک ح(٣٢٢٠)۔ أبوداؤد کتاب الدب ،باب: ما جاء ف حق المملوک ح(٤٥١٣)۔سنن الترمذ ، باب :النہی عن ضرب الخدم و شتمہم ح (١٩٢)۔
ذرا اپنے اللہ کو گواہ بناکر او رعقل و انصاف سے یہ بات بتائیں کہ بچوں کو ایذا رسانی سے بچانے کے لیے جو تنظیمیں بنائی گئی ہیں یہ کب معرض وجود میں آئی ہیں ؟ اور ان سے صدیوں قبل حقوق کے محافظ رحمت عالم a نے کس طرح روحانی اور عملی طور پر اس مشکل کا حل تلاش کیا، اور کس طرح آپ a نے حقوق بھی متعین کیے اور پھر ان کی حفاظت بھی کروائی او رخود بھی کی۔ کیا اگرانصاف کیا جائے تو آپ a اس بات کے سب سے بڑھ کر حق دار نہیں ہیں کہ آپ a کی فضیلت و برتری کے لیے آپ a کی ان مساعی ٔ جمیلہ کا اعتراف کیاجائے جو آپ aنے بچوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کو ایذا رسانی سے ممانعت کے لیے کی ہیں ؟ نہ صرف بچوں کے حقوق بلکہ ہر چھوٹے بڑے، جاندار اور بے جان کے حقوق کا تعین آپa کی زبانِمبارک سے ہوا ہے۔ اور اگر اس بات پر غور کیاجائے کہ بچوں کی تربیت کے مرا حل، پرورش کے مراحل، ان کی نگرانی اور دیگر تمام امور میں جس طرح حقوق کا تعین اس وحی والی رسالت ماب زبان نے صدیوں قبل کیا ہے، اس طرح ان حقوق کا تعین نہ کوئی کرسکا ہے، اور نہ ہی قیامت تک کوئی کرسکے گا۔ لہٰذا ہر اس شخص کو جو کسی بھی طرح کے حقوق کی جدوجہد کرنا چاہتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ ان حقوق او رآداب کو بابِ نبوت سے لے؛ اوراس کی روشنی میں تمام جدوجہد کرے، اگر وہ اس سے ہٹ کر کوئی کوشش کرے گا تو وہ گمراہ ہوجائے گا؛اور وہ کبھی بھی پائیدار کامیابی حاصل نہیں کرسکے گا۔
بچوں کے ساتھ رسول اللہ a کی شفقت اور رحمت کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی بچہ مر جاتا تواس پر آپ a کی آنکھیں ا شکبار ہوجاتیں۔ حضرت اسامہ بن زیدd سے روایت ہے:
'' آپ aکے پاس آپa کا نواسہ لایا گیا، اور وہ موت کے قریب تھا۔ آپ a کی آنکھیں بہہ پڑیں، اور جناب حضرت سعد b نے(جب یہ حالت دیکھی کہ رسول اللہ aتو نوحہ کرنے سے منع سے کرتے ہیں، اور خود رو رہے ہیں) آپa سے مخاطب ہو کرعرض کیا : یارسول اللہa ! یہ کیا معاملہ ہے ؟ آپ aنے فرمایا: یہ وہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میںڈال دی ہے ٫ اور بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے رحم کرنے والوں پر رحم کرتے ہیں۔'' 1
! البخاری کتاب الجنائز ، باب قول النبV یعذب المیت…ح( ١٢٣٧)۔ مسلم کتاب الجنائز باب البکاء علی المیت ؛ح (١٥٨٢)۔
ایسے ہی نبی ٔکریم a اپنے بیٹے ابراہیم b پر داخل ہوئے،ان کی سانسیں اکھڑ چکی تھیں۔ رسول اللہ a کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ یہ دیکھ حضرت عبد الرحمن بن عوفb نے عرض کیا :یا رسول اللہ a! کیا آپ a بھی( ایسے موقع پر) روتے ہیں؟ آپa نے فرمایا : ''اے عبد الرحمن !بے شک یہ رحمت ہے۔ پھر اس کے فوراً بعد فرمایا :'' بے شک آنکھیں بہہ رہی ہیں، اور دل غمگین ہے،اور صرف وہی کچھ کہہ سکتا ہوں جو ہمارے رب کو راضی کردے۔ اے ابراہیم ! ہم تیرے فراق پر غمگین ہیں۔ '' 1
! البخاری ، کتاب الجنائز ، باب قول النبV نا بک لمحزون… ح(١٢٥٤)۔ مسلم کتاب الفضائل باب رحمتہV الصبیان والعیال و تواضعہ و فضل ذلک؛ ح (٤٣٧٩)۔
٣۔ حیوانات کے لیے شفقت و رحمت :
آپ aنہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں تک کے ساتھ بھی رحم وکرم فرماتے اورلطف ومحبت کا حکم فرمایاکرتے تھے۔ جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
١۔ نبیaکودیکھ کر ایک اونٹ بلبلایا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپaنے شفقت کے ساتھ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تووہ پرسکون ہوگیا۔ پھرآپaنے اس کے مالک کاپتہ کرواکر اسے بلایا،اور فرمایا :
''کیا تم اس جانور سے بدسلوکی کرتے ہوئے اللہ سے نہیں ڈرتے ہو جس نے تمہیں اس کا مالک بنایا ہے ؟ اس نے میرے سامنے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اورکام زیادہ لیتے ہو۔ ''1
! ابن خزیمة ؛کتاب المناسک ؛ باب : الزجر عن اتخاذ الدواب کراس بوقفہا والمرء راکبہا غیر سائر (٢٣٦٨)۔ ابن حبان ، باب الزجر والباحة ؛ ذکر الزجر عن اتخاذ المرء الدواب کراس (٥٦٩٦)۔ حاکم ف المستدرک، کتاب المناسک (١٥٦٣)۔
٢۔ سواری والے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کاحکم دیتے ہوئے نبیaنے فرمایا :
''ان جانوروں پر صحیح سالم ہونے کی شکل میں سواری کرواورجب ضرورت نہ ہو تو انہیں صحیح وسالم ہی فارغ چھوڑدو۔ اورانہیں بلا ضرورت اپنے لیے کرسی نہ بنالو۔'' 1
مستخرج أب عوانةـمبتدأ کتاب الطہارة ؛بیان یثار التستر بالہدف للمتغوط ح(٣٧١)۔ سنن أب داؤد ـکتاب الجہاد ؛باب ما یؤمر بہ من القیام علی الدواب والبہائم (٢١٩٩)۔
٣۔ نبی aکاگزر ایک ایسے اونٹ کے پاس سے ہوا جس کی پشت اورپیٹ (کمزوری ومشقّت کی وجہ سے)باہم ملے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ aنے فرمایا :
''ان بے زبان جانوروں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہاکرو۔'' 1
! سنن أب داؤد ،کتاب الجہاد ؛باب ما یؤمر بہ من القیام علی الدواب والبہائم (٢١٩٨)۔ابن خزیمة ،کتاب المناسک؛ باب استحباب الحسان لی الدواب المرکوبة ف العلف والسق (٢٣٦٩)۔
٤۔ نبیaایک صبح کسی کام سے نکلے تودیکھا کہ مسجد کے دروازے پرکسی نے اونٹ بٹھایا ہو ا ہے اورپھر اسی دن شام کو دیکھاکہ وہ اونٹ وہیں پر موجودہے توپوچھاکہ اس کا مالک کون ہے ؟مگر وہ نہ ملا ؛ تو بلاوجہ کسی جانور کوباندھ کربٹھارکھنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا :
''ان جانوروں کے معاملہ میں خوفِ الہٰی سے کام لیاکرو۔'' 1
! مسند أحمد بن حنبل /مسند الشامیین من حدیث سہیل بن حنظلة ح(١٧٢٩١)۔ ابن حبان :کتاب البر و الحسان فصل من البر والحسان ح(٥٤٦)۔
٥۔ ایک مرتبہ کسی صحابی نے چڑیا کے گھونسلے سے اس کے دو بچے اٹھالیے،چڑیا نے سروں پر آکر پھڑپھڑانا شروع کردیا۔ نبی aکوجب واقعہ کی خبر ہوئی توآپ نے فرمایا :
''اس کے بچے اٹھاکر اسے کس نے تکلیف پہنچائی ہے۔ ا سکے بچے فوراًاسے واپس لوٹا دو۔'' 1
! سنن أب داؤد ـکتاب الجہاد ؛ ح (٢٣١٤)۔کتاب السیر لب اسحق الفراز ح(٤٠)۔
اورفرمایا:
'' کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو کسی چڑیا، یا اس سے بڑھ کر کسی پرندے کو بغیر حق کے قتل کرتاہے، مگر اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اس سے اس قتل کے متعلق ضرور سوال کریں گے ۔'' آپa سے پوچھا گیا : اے اللہ کے رسولa! ان کا حق کیا ہے ؟ آپ a نے فرمایا :''اس کا حق یہ ہے کہ اسے ذبح کرے، اور کھائے، صرف اس کا سر توڑ کر پھینک نہ دے۔'' 1
! حاکم کتاب الذبائح ؛ح (٧٦٤١)۔السنن الکبری للنسائ ،کتاب الضحایا : باب من قتل عصفوراً بغیر حقہا ح(٤٤٠٣)۔ معرفة السنن والآثار ،کتاب السیر؛ باب تحریم الاتلاف ما ظفر بہ المسلمون من ذوات الرواح وعقرہ (٥٦٢٨)۔ مسند الشافعی : کتاب قتال المشرکین ح (١٣٨٦)۔
یہ تو وعید اس آدمی کے متعلق ہے جو چڑیا کو ناحق قتل کردے۔اس انسان کے لیے وعید کا کیا حال ہو گا جو کسی انسان کو ناحق قتل کرتا ہے۔
٦۔ ایک بار نبی اکرم aنے چیونٹیوں کاایک گھروندا جلاہوا دیکھا تو ارشاد فرمایا :
''آگ کے خالق اللہ کے سواکسی کو لائق نہیںکہ کسی کوآگ سے عذاب دے۔ ''1
! الأدب المفرد (٣٨٤)ابودائود (٢٦٧٥)''الجہاد ''باب فی ''کراھیة حرق العدو بالنار ''وفی ''الأدب'' (٥٢٦٨)باب فی ''قتل الذر'' اور مستدرک (٢٣٩٤) ریاض الصالحین (١٦١٠)۔
٧۔ رحمت دوجہاںa نے حیوانات کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے، اور ان کو ذبح کرتے وقت تڑپانے سے منع کیا ہے۔ آپa نے فرمایا :
(( ان اللّٰہ کتب الاحسان علی کلّ شیئ، فاذا قتلتم فاحسنوا القتلة، واذا ذبحتم فاحسنوا الذبح، ولیحد أحدکم شفرتہ، ولیرح ذبیحتہ.)) 1
! مسلم کتاب الصید و الذبائح و ما یؤکل من الحیوان ،باب المر بحسان الذبح و القتل (٣٧٠٩)۔ مستخر اب عوانة مبتداء کتاب الجہاد ؛بیان صفة السنة ف الذبح ح(٦٢٣٠)۔صحیح ابن حبان :کتاب الحظر والباحة ـذکر المر بحد الشفار (ح ٥٩٦٧)۔
''اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کرنے کوفرض قراردیا ہے، لہٰذا اگر تم کسی کو(قصاص میں) قتل کروتواسے بھی اچھے طریقے سے قتل کرواورگر کسی جانور کوذبح کرنا ہو تواسے بھی اچھے طریقے سے ذبح کرو اورتمہیں چاہیے کہ اپنی چھری کوخوب تیز کرلو اورذبیحہ کو(جلد ذبح کرکے )آرام پہنچائو۔''
٨۔ نبی اکرم aکا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو بکری کو لٹاکر، اس کی گردن پر اپنا پائوں رکھے، چھری تیز کررہا تھا ا وربکری یہ سب دیکھ رہی تھی۔ اس پر نبی اکرم aنے فرمایا : ''کیا یہ کام اس سے پہلے نہیں ہوسکتاتھا ؟کیا تو اس بیچاری کی دومرتبہ جان لینا چاہتاہے ؟'' 1
! المعجم الکبیر (ح ١١٧٠١)۔السنن الکبری للبیہق ،کتاب الضحایا؛ باب الذکاة من الحدید وما یکون أخف علی المذکی، و ما یستحب (ح ١٧٧٩٩)۔مصنف عبد الرزاق کتاب المناسک ،سنة الذبح (ح ٨٣٣٩)۔ حاکم ،کتاب الذبائح (ح ٧٦٢٧)۔
٩۔ ایک آدمی نے نبی اکرمaکی خدمت میں عرض کیا:'' اے اللہ کے رسولa ! میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو اس پر بھی رحم کروں؟ ۔'' اس پر نبی اکرم aنے ارشاد فرمایا: '' اگر تم ذبح کی جانے والی بکری پر بھی رحم کروگے تو اللہ تم پر رحم کرے گا۔'' 1
! مصنف ابن أب شیبة کتاب الدب، باب ماذکر ف الرحمة من الثواب (٢٤٨٣٩)۔ مسند أحمد بن حنبل /مسند مکیین حدیث معاوےة بن قرة ح(١٥٢٩١)۔ المعجم الوسط للطبران؛باب اسمہ بشر: ح (٣١٣٧)۔ الدب المفرد ،باب ارحم من ف الرض ح(٣٨٦)۔

No comments:

Post a Comment