Tuesday, January 4, 2011

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ

ذوالحجہ کی آخری تاریخوں میں خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر ایک مجوسی ابولولو فیروز نے نماز فجر میں قاتلانہ حملہ کیا ۔ جس میں آپ شدید زخمی ہو گئے ۔ اور یکم محرم 24 ھ کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ آپ نے شہادت سے پہلے یہ وصیت فرمائی کہ حضرت عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمان بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین یہ چھ آدمی تین دن کے اندر اندر کسی کو خلیفہ منتخب کر لیں ۔ اور تین دن صہیب رومی قائم مقام خلیفہ ہوں گے ۔ دو دن نئے خلیفہ کے انتخاب کے لئے بحث و مباحثہ جاری رہا لیکن کوئی بات طے نہ ہو سکی ۔ تیسرے دن حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : کہ ہم میں سے تین آدمی ایک ایک شخص کے حق میں دستبردار ہو جائیں ۔ تا کہ چھ کی بحث تین میں محدود ہو جائے ۔ اس پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے ۔

حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : کہ میں امیدواری سے دستبردار ہوتا ہوں اب بحث صرف حضرت عثمان اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میں رہ گئی ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ایثار کیا تھا ۔ اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اپنا آخری فیصلہ ان کے سپرد کر دیا ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مسجد نبوی میں جمع کیا ۔ اور ایک مختصر تقریر کی ۔ اور اپنا فیصلہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں دے دیا ۔ یہ 4 محرم 24 ھ کا واقعہ ہے ۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جن کا تعلق بنی امیہ سے تھا ۔ تیسرے خلیفہ راشد منتخب ہوئے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا شجرہ نسب پانچویں پشت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔ شجرہ نسب یہ ہے :
عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف/ والدہ کی طرف سے بھی شجرہ نسب پانچویں پشت پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔ شجرہ نسب یہ ہے :
ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی ام حکیم البیضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا سردار عبدالمطلب کی صاجزادی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کی سگی بہن بھی اس لحاظ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی کے نواسے تھے ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی آپ کا یہی رشتہ تھا ۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دعوت اسلام کا آغاز کیا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو جس شخص نے سب سے پہلے قبول کیا ۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق اور معاون بن گئے ۔ آپ کو جو شخص ملتا ۔ تو آپ اسے اسلام کی دعوت دیتے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ تو اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر 34 سال تھی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دیرینہ دوست تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب آپ کو دعوت اسلام دی ۔ دوران گفتگو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی گفتگو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ۔

اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو وہ شرف حاصل ہوا ۔ جو ان کی کتاب مناقب و فضائل سے درخشاں باب ہے ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاجزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کر دیا ۔ جنگ بدر 2ہجری کے موقعہ پر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی ۔ ( حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کی بیماری کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیسری صاجزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کر دیا ۔ اور یہ وہ شرف ہے ۔ جو پوری انسانی تاریخ میں کسی شخص کو حاصل نہیں ہوا ۔ گویا یہ آپ کی ایک خاص خصوصیت ہے ۔

حافظ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ” علمائے اسلام کا قول ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے علاوہ پوری تاریخ انسانیت میں کوئی شخص ایسا نہیں گزرا ۔ جس نے کسی نبی کی دو صاجزادیوں سے نکاح کیا پھر اس وجہ سے آپ کو ذوالنورین ( دو نوروں والا ) کیا جاتا ہے ۔ “

جب کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر عرصہ حیات بہت زیادہ تنگ کر دیا گیا ۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ قریبی ملک حبشہ ہجرت کر جائیں ۔ وہاں کا عیسائی بادشاہ نجاشی بہت نیک سیرت آدمی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ اس کے ملک میں تمہیں کوئی تکلیف نہ ہو گی ۔ چنانچہ بیشتر مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ۔ ان میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی معہ اپنی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ حبشہ میں مقیم رہے ۔ جب واپس آئے تو دوسری بار مدینہ طیبہ مع اپنی اہلیہ محترمہ کے ہجرت کی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ابتداءہی سے تجارت کے پیشہ سے منسلک تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں بہت برکت عطا فرمائی تھی ۔ چنانچہ ان کا شمار مکہ کے روسا میں ہوتا تھا ۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے ۔ تو مدینہ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا ۔ جو ایک یہودی کی ملکیت تھا ۔ اور یہودی نے اس کو اپنی معاش کا ذریعہ بنایا ہوا تھا ۔ مسلمانوں کی اس وقت مالی حالت اچھی نہ تھی ۔ اس لئے اس کنویں کے پانی کے حصول کے لئے انہیں بڑی مشکل پیش آ رہی تھی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کوشش کر کے اس یہودی سے نصف کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا ۔ یعنی ایک دن یہودی اس کنویں کا پانی استعمال کرتا تھا ۔ اور ایک دن مسلمان اس کنویں کا پانی استعمال کرتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد یہودی نے اپنا نصف حصہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو فروخت کر دیا ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کنواں عام مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا ۔
تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کے حقدار ٹھہرے : ” جو شخص بیر رومہ کو خرید کر وقف کر دے ۔ اس کے لئے جنت ہے ۔ “ ( صحیح بخاری )

عہد نبوی میں جو غزوات ہوئے ۔ ان میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے شرکت کی ۔ سوائے غزوہ بدر کے ، کہ اس میں آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تیمارداری اور عیادت کے لئے مدینہ منورہ میں آپ کو چھوڑ دیا ۔ حضرت عثمان کے ساتھ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ ” تم دونوں کو شرکت جہاد کا اجر اور مال غنیمت میں حصہ ملے گا ۔ جیسا ان لوگوں کو ملے گا جو اس جنگ میں شرکت کر رہے ہیں ۔ “

غزوہ تبوک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں سب سے آخری غزوہ ہے اس غزوہ کا دوسرا نام ” جیش العسر “ بھی ہے کیونکہ اس وقت مسلمانوں پر سخت بے سروسامانی کا عالم تھا ۔ موسم سخت گرم ، قحط اور گرانی اور سفر بہت طویل تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ کے لئے مسلمانوں سے مالی تعاون کی اپیل کی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مستدرک حاکم کی روایت کے مطابق دس ہزار مجاہدین اسلام کے خوردونوش اور دیگر تمام اخراجات کا ذمہ لیا ۔ اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار دینار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کےے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے : اور ارشاد فرمایا :
” آج کے بعد عثمان کو کوئی کام نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔ “

پھر ارشاد فرمایا :
اے اللہ میں عثمان رضی اللہ عنہ سے راضی ہو گیا ۔ تو بھی اس سے راضی ہو جا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ۔ اور اہم امور میں ان سے مشورہ لیتے تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دوسرے خلیفہ راشد ہوئے ۔ خلافت فاروقی میں بھی آپ کی امتیازی حیثیت رہی ۔ حضرت عمر فاروق ہر معاملہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے صلاح و مشورہ لیتے رہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے مجلس شوریٰ قائم کی ۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی مجلس شوریٰ کا رکن نامزد کیا ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تیسرے خلیفہ راشد منتخب ہوئے ۔ ان کی خلافت کا زمانہ بارہ سال ہے ۔ پہلے چھ سال بڑے امن سے گزرے ۔ لیکن آخری چھ سال افراتفری میں گزرے ۔ اور دنیا کا رنگ ہی پلٹ گیا ۔ اس انقلاب کی اصل وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی وہ مبارک جماعت جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی روشنی میں زندگی اور اتحاد کے سبق سیکھے تھے ۔ اس دنیا سے رخصت ہو رہی تھی ۔ اور جو نئی نسلیں جو اس جماعت کی وارث ہوئیں ۔ تقویٰ اور اتحاد میں وارث نہ تھیں ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک سازش کے تحت فتنہ کھڑا کیا گیا ۔ اور یہ سازش عبداللہ بن سبا جو کہ نسلا یہودی تھا اور اوپر سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا تھا تیار کی گئی ۔ چنانچہ ایک گروہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر پانچ الزامات لگائے گئے ۔
1 آپ نے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہ کے بجائے اپنے ناتجربہ کار رشتہ داروں کو بڑے بڑے عہدے دے رکھے ہیں ۔
2 آپ اپنے عزیزوں پر بیت المال کا روپیہ بے حد صرف کرتے ہیں ۔
3 آپ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے قرآن مجید کے سوا باقی سب صحائف کو جلا دیا ہے ۔
4 آپ نے بعض صحابہ کرام کی تذلیل کی ہے ۔ اور نئی نئی بدعتیں اختیار کر لی ہیں ۔
5 مصری وفد کے ساتھ صریح بد عہدی کی ہے ۔

یہ سب الزامات قطعی طور پر سازشیوں کی شرارت کا نتیجہ تھے ۔ اس طرح کہ :
1 صحابہ کی معزولی انتظامی اسباب سے متعلق تھی ۔
2 عزیزوں کو آپ نے جو کچھ دیا اپنے ذاتی مال سے دیا تھا ۔
3 آپ نے جس صحیفہ کو باقی رکھا ۔ وہ خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تیار کر لیا تھا ۔
4 جن بدعات کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ ان کا تعلق اجتہادی مسائل سے ہے ۔
5 مصری وفد نے مدینہ میں جو یورش کی اور حضرت عثمان پر الزام لگایا کہ انہوں نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا ہے ۔ اور خط لکھ کر ہم کو قتل کرانا چاہتے تھے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نہ خط لکھا تھا اور نہ ان کو علم تھا ۔ اہل مدینہ کی رائے تھی : کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ اور یہ خط مروان نے لکھا تھا ۔ مفسدین نے مطالبہ کیا کہ مروان کو ہمارے سپرد کیا جائے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔

مفسدین کو اصلاح منظور نہ تھی ۔ انہوں نے مدینہ میں یورش کر دی ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محل کا محاصرہ کر لیا ۔ اور سامان رسد پہنچانے میں رکاوٹ بن گئے ۔ آخر ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے محل کی چھت پر تشریف لے گئے ۔ اور باغیوں سے مخاطب ہوئے اور آپ نے جو عہد رسالت میں عظیم کارنامے انجام دئیے تھے ۔ وہ ان کو یاد دلائے ۔ باغیوں نے اس کی تصدیق کی ۔ لیکن وہ محاصرہ اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئے ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ آپ خلافت سے دستبردار ہو جائیں ۔ لیکن آپ نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا ۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپ کو باغیوں کے خلاف عملی اقدام اٹھانے کا مشورہ دیا ۔
آپ نے فرمایا : میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتا ۔ مجھے یہ منظور نہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہو کر امت کا خون بہاؤں ، میں وہ خلیفہ نہ بنوں گا جو امت محمدیہ میں خونریزی کی ابتداءکرے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پیش گوئی فرما چکے تھے ۔ چنانچہ18ذوالحجہ35 ھ بروز جمعہ باغی قصر خلافت میں داخل ہو گئے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ روزے سے تھے ۔ اور قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صاجزادے محمد بن ابوبکر پیش پیش تھے ۔ اس نے آگے بڑھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ریش مبارک پکڑ کر زور سے کھینچی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بھتیجے اگر آج تمہارے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے ۔ تو تمہاری اس حرکت کو پسند نہ فرماتے ۔ محمد بن ابی بکر یہ سن کر پشیمان ہوا ۔ اور پیچھے ہٹ گیا ۔ مگر کفانہ بن بشیر نے آپ کی پیشانی پر کاری ضرب لگائی ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ زمین پر گر پڑے اور فرمایا ۔ بسم اللہ توکلت علی اللہ ۔

دوسرا وار سودان بن حمران نے کیا ، جس سے خون کا فوارہ چل نکلا اور اس کے ساتھ ہی امیر المومنین تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی خبر آناً فاناً تمام ملک میں پھیل گئی ۔ اس وقت حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا : کہ بعد کے تمام واقعات صرف اسی ایک جملے کی تفصیل ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ” عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل سے اسلام میں ایک ایسا رخنہ پڑ گیا کہ اب وہ قیامت تک بند نہیں ہو گا ۔ “

مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں :
” اسلامی تاریخ میں نفاق کی ایک لکیر ہے ۔ یہ لکیر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے کھینچی گئی ۔ اور اسی میں اسلام کا پورا جان و جلال دفن ہو گیا ۔

No comments:

Post a Comment