Tuesday, January 4, 2011

اخلاق حسنہ

خود بھی اپنائیے اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی اپنانے کی دعوت دیجیے ۔

خلق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا ( اردو لغت میں ) مطلب ہے : ملنساری ، مروت اورخوش مزاجی وغیرہ ۔
اَخلاق ، خلق کی جمع ہے جس کے لغوی معنی ہیں : اچھی خصلتیں ، بھلے طور طریقے ، پسندیدہ عادتیںاور اچھا برتاؤ وغیرہ ۔ لفظ اَخلاق کے لغوی معنی ہی میں حسنِ اَخلاق کا مفہوم بھی موجود ہے ۔ اگر ” اَخلاق “ کے اصطلاحی معنوں پر غور کریں تو خلق دراصل نفس کی اس پختہ حالت کا نام ہے جس سے اچھے یا برے افعال بے ساختہ طور پر بلاارادہ سرزد ہوں ۔

اَخلاق حسنہ کی تعریف میں اسلاف کے مختلف اقوال ہیں ، مثلا :
1 عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” اس سے مراد خندہ پیشانی سے پیش آنا ، بھلائی عام کرنا اور اذیت دینے سے رکنا ہے ۔ “
2 حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” اَخلاق حسنہ کی حقیقت بھلائی عام کرنا ، اذیت دینے سے رکنا اور خندہ پیشانی سے پیش آنا ہے ۔ “
3 امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” اس سے مراد سخاوت کرنا ، عطا کرنا اور کشادہ روئی سے ملنا ہے ۔ “
4 ” غذاءالالباب “ میں صاحب کتاب کہتے ہیں کہ حسن اَخلاق سے مراد ہے مسلمانوں کے حقوق ادا کرنا اور وہ یہ ہیں :

جو چیز اپنے لیے پسند ہو وہی دوسروں کے لیے پسند کرے ۔ تواضع کے ساتھ پیش آئے ۔ بڑائی ، تکبر ، غرور اور خود پسندی کا مظاہرہ نہ کرے ۔ عمر رسیدہ شخص کی تکریم کرے ، چھوٹے بچے پر شفقت کرے ، ہر حق دار کا حق پہنچائے اور ساتھ ساتھ یہ اوصاف بھی پیدا کرے خندہ پیشانی اور خوش دلی سے استقبال کرنا ، ہمیشہ مسکرانا ، لچک دار رویہ اپنانا ، عمدہ رفاقت ، شائستہ گفتگو ، اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرنااور زیادتی کرنے والوں کو معاف کردینا ۔

اشعث بن قیس نے اپنی قوم سے کہا : میں تم میں سے ایک آدمی ہوں ۔ مجھے تم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں لیکن تمھارے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتا ہوں ، تمھاری خاطر اپنا مال صرف کرتاہوں ، تمھارے حقوق ادا کرتا ہوں ، تمھاری محترم اشیاءکی حفاظت کرتا ہوں ، جو مجھ جیسے کام کرے گا وہ مجھ جیسا ہے اورجو مجھ سے بڑھ کر کرے گا وہ مجھ سے بہتر ہے ، تو اشعث بن قیس سے پوچھا گیا : اے ابو محمد! آپ ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں ؟ تو وہ کہنے لگے ، میں انھیں عمدہ اَخلاق کی تربیت دینا اوررغبت دلانا چاہتا ہوں ۔ “

اَخلاق کا لفظ ذہن میں آتے ہیں ایسا خاکہ ابھر کر سامنے آجاتا ہے جس کو ہر انسان اپنانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اَخلاق ایسی صفت ہے کہ جس کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے تو سمجھ لیجیے کہ وہ کامل انسان ہے ۔ اَخلاق ایک ایسی دوا ہے جو دل و دماغ دونوں کو غذا پہنچاتی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب کی بنیاد اَخلاق ہی پر ہے ، چنانچہ اس عرصہ ہستی میں جس قدر پیغمبر اور مصلح آئے ، سب نے اپنے اپنے دور میں اَخلاق ہی کی تعلیم لوگوں کو دی ۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنے کردار کو ان کے سامنے رکھا ۔

آج کے دور میں ہر انسان پریشان ہے ، اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی طبقے سے ہو ، وہ دنیا کے گھمبیر مسائل میں گھرا ہوا ہے ، اسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کرے ، کہاں جائے ؟ یہ حالات آج ہی رونما نہیں ہوئے ۔ آج سے چودہ پندرہ سو سال پہلے بھی لوگ ایسے ہی مسائل میںگھرے ہوئے تھے ، بعض حوالوں سے صورت حال زیادہ سنگین تھی ۔ اس دورِ جاہلیت میں لوگ ظلم کے اندھیروں میں زندگی گزار رہے تھے ۔ اس دوران میں رحمت الٰہی جوش میں آئی اور اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر تمام جہانوں کے انسانوں پر ایک عظیم احسان کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر اس زمین پر بسنے والی امت کی تعلیم و تربیت کا انتظام بڑے ہی اچھے طریقے سے شروع کیا اوراپنا اسوہ ان کے سامنے رکھا ۔ لوگ آپ کے عظیم اورعدیم النظیر کردار سے بے حد متاثر ہوئے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ) ( مسند احمد ) ” میں تو بھیجا ہی اس لیے گیا ہوں کہ اَخلاق حسنہ کی تکمیل کروں ۔ “ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے ساتھ ہی اس فرض کو سرانجام دینا شروع کردیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ ہی میں تھے کہ ممتاز صحابی حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے ، جو ابھی مسلمان نہیںہوئے تھے ، اپنے بھائی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور تعلیمات کی تحقیق کے لیے مکہ بھیجا ۔ انھوں نے واپس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اپنے بھائی ( ابوذر رضی اللہ عنہ ) کو جن الفاظ میں اطلاع دی ، وہ یہ تھے : ( رايت يامر بمکارم الاخلاق ) ( صحیح بخاری ) ” میں نے دیکھا وہ لوگوں کو اَخلاق حسنہ کی تعلیم دیتا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم اور عبادت کی زینت اَخلاق کو قرار دیا ہے ۔ قیامت کے دن مومن کے میزان عمل میں کوئی چیز حسن اَخلاق سے زیادہ وزنی نہیں ہوگی ۔ نیز فرمایا : ( اکمل المومنين ايمانا احسنھم خلقا ) ( جامع الترمذی ) مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے جس کا اَخلاق سب سے اچھا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ایمان کے کمال کا معیار جس چیز کو ٹھہرایا گیا ہے ۔ وہ حسن اَخلاق ہے ۔ اور یہی وہ پھل ہے جس سے ایمان کے درخت کی پہچان ہوتی ہے ۔ اسلام میں اَخلاق ہی وہ معیار ہے جس سے باہم انسانوں میںدرجہ اور رتبہ کا فرق نمایا ہوتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ جو اَخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھا ہے ۔ ایک اورجگہ فرمایا کہ حسن اَخلاق سے زیادہ وزنی کوئی بھی چیز ( قیامت کے دن ) ترازو میں نہیں ہوگی ، پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں اللہ کا سب سے پیارا وہ ہے جس کے اَخلاق سب سے اچھے ہوں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسن خلق خدا کی محبت کا ذریعہ ہے اوردراصل رسول کی محبت کا ذریعہ بھی یہی ہے ۔

رہبر انسانیت نبی کریم ، دریتیم ، صاحب خلق عظیم ایک دن اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی عالم زید بن سعنہ ، جو آپ کی صفات کا تذکرہ تورات میں پڑھ چکا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آیا اوراصحاب رسول کی صفوں کو چیرتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا ۔ اس نے اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گریبان پکڑ کر سختی سے کھینچا اوردرشت لہجے میں کہنے لگا : ” اے محمد! جو قرض تم نے مجھ سے لے رکھا ہے ، ادا کرو ، تم بنو ہاشم کے لوگ ادائے قرض میں بڑی ٹال مٹول سے کام لیتے ہو ۔ “ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی سے چند درہم بطور قرض لیے تھے لیکن ابھی ادا کرنے کی مہلت باقی تھی ، یہودی کی یہ گستاخانہ حرکت دیکھ کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بڑا طیش آیا ۔ وہ فوراً اُٹھے اور تلوار لہرا کر بولے : اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت مرحمت فرمائیں میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں ۔ نبی کریم ، صاحب خلق عظیم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” اے عمر! اس ( قرض خواہ یہودی ) سے کہو کہ اپنا قرض طلب کرے بہتر طریقے سے اور مجھے حسنِ ادا کا حکم دو ۔ “ یہ سن کر یہودی آپ کے اَخلاق عالیہ سے بہت متاثر ہوا اورکہنے لگا : اے محمد! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق سے نواز کر مبعوث فرمایا ہے ، میںآپ سے اپنا قرض وصول کرنے نہیں آیا بلکہ اس لیے آیا تھا کہ آپ کے اَخلاق کا امتحان لوں ۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ ابھی ادائے قرض کا وقت نہیںآیا لیکن میں نے آپ کے اوصاف کے بارے میں جو کچھ تورات میں پڑھا تھا ، اسے بالکل برحق پایا ، البتہ دو صفات کا ابھی تجربہ نہیں کیا تھا : ایک یہ کہ آپ غصے کے وقت اور زیادہ حلیم و بردبار ہو جاتے ہیں ۔ اور دوسرا یہ کہ جو بھی آپ کے ساتھ جس قدر نادانی کرے گا آپ اس سے اتنی ہی زیادہ نرمی اور نوازش سے پیش آئیں گے ۔ آج میں نے ان صفات حمیدہ کا بچشمِ خود مشاہدہ کر لیا ہے ۔ اب میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں ۔

آج ہم دیکھیں کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرنے والا حسن اَخلاق والا ہو تو یہ اللہ کا فضل ہے ۔ اب اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حسن اَخلاق کی جس نعمت سے نوازا ہے ، اس نعمت کو وہ لوگوں کی اصلاح اور برائی سے ممانعت کے لیے بروئے کار لائے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے لیے ضروری ہے وہ اَخلاق حسنہ اپنائے کیونکہ دعوت و تبلیغ کے لیے اَخلاق حسنہ کا ہونا شرط لازم ہے ۔

No comments:

Post a Comment