Wednesday, January 19, 2011

دعا کا فلسفہ

دعا حق تعالیٰ سے مانگی جاتی ہے اور مانگا یہ جاتا ہے کہ وہ اپنی قدرت مطلقہ کا ہماری زندگی میں ظہور فرمائیں، ہمارے ضعف میں ان کی قوت کا ظہور ہو، ہمارے فقر میں ان کی غنیٰ کا ظہور ہو، ہماری ذلت میں ان کی عزت کا ظہور ہو، اور ہمارے عجز میں ان کی قدرت کا ظہور ہو۔ اسی صورت میں یعنی حق تعالیٰ کی قدرت مطلقہ کے ظہور ہی کی وجہ سے ہماری دعا قضا یعنی تقدیر کو بھی پھیر سکتی ہے۔

(( لا یرد القضا الا الدعاء)) ( رواہ الترمذی ) اسی وجہ سے دعا سے بڑھ کر حق تعالیٰ کے یہاں کوئی چیز بزرگ تر نہیں،
(( لیس شی اکرم علی اللّٰہ من الدعاء)) ( رواہ الترمذی وحسنہ ) اسی بنا پر دعا ہر بلا سے بچاتی ہے، خواہ وہ نازل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ ان الدعاءینفع مما نزل ومما لم ینزل اور اسی کے بعد حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اے اللہ کے بندو دعا کرو! “ ( رواہ احمد والترمذی )

ہمیں اپنے ضعف، فقر، عجز و دولت کا بدیہی احساس ہے، اس احساس و وجدان کے باوجود اگر ہم دعاءکیلئے ہاتھ قادر مطلق ہستی کی طرف نہ اٹھائیں، یعنی اس کی قدرت کا اقرار اور اپنے عجز کا اعتراف نہ کریں تو یہ چیز یقینا حق تعالیٰ کی رضا کا باعث نہ ہو گی۔ ( رواہ الترمذی )

دنیوی زندگی:
جب ہم کسی دوست سے کسی کام کرنے کو کہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہم اس سے مل کر اپنا کام بتلاتے ہیں اور اس صورت میں وہ ہمارا کام کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح جب ہم اللہ تعالیٰ سے کچھ عرض کریں تو ہمیں ایک بنیادی صداقت کو مان کر عرض کرنا پڑتا ہے اور وہ بنیادی صداقت یہ ہے کہ حق تعالیٰ قریب ہےں، ( سورہ ہود ) وہ ہمارے قریب ہیں اور سن رہے ہیں ( سورہ سبا ) ان کی رحمت ہم پر محیط ہے، قریب ہے۔ ( اعراف )

ایمان کی زندگی کا آغاز اسی وجدان سے ہوتا ہے ان ربّی قریب مجیب! وہ ہماری رگ جان سے زیادہ قریب ہیں۔ ( 50، ق 16 ) دعا کے وقت ہم کسی بہرے اور غائب ہستی کو نہیں پکار رہے ہیں، ہم اس ہستی کو پکار رہے ہیں جو سمیع و بصیر ہے اور ہم سے بہت قریب ہے۔
انکم لا تدعون .... ولا غائبا، انکم تدعون سمیعا بصیرا، والذی تدعونہ اقرب الیٰ احدکم من عنق راحلۃ ( متفق علیہ )
” حق تعالیٰ میرے قریب ہیں، اقرب ہیں، محیط ہیں، ساتھ ہیں، ان کے وعدے سچے ہیں۔ ان کے ہاتھ فضل و کرم سے پر ہیں، ان کی نعمتیں کامل و دراز ہیں، ان کی رحمتیں وسیع و کشادہ ہیں، وہ مجھے ہر تجربہ سے سلامتی و امن کے ساتھ نکال کر خیر کثیر کی طرف راہنمائی فرما رہے ہیں۔ “

ہم اب حق تعالیٰ سے اسی طرح باتیں کر سکتے ہیں جس طرح بچہ اپنے باپ سے باتیں کر سکتا ہے۔ محبت سے، ادب سے، عجز و انکسار سے، پورے اعتماد و وثوق سے عرض و دعا کر سکتے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ بالصفات حاضر و موجود ہیں۔ ان سے کوئی چیز جو معلوم کی جا سکتی ہو یا دیکھی یا سنی جا سکتی ہو غائب نہیں ہو سکتی۔ ان کا ارشاد ہے: ” تم جس حال میں ہوتے ہو یا قرآن سے کچھ پڑھتے ہو یا تم لوگ کوئی ( اور ) کام کرتے ہو، جب اس میں مصروف ہوتے ہو ہم تمہارے سامنے ہوتے ہیں اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں، نہ زمین میں نہ آسمان میں اور کوئی چیز چھوٹی ہے یا بڑی نہیں مگر کتاب روشن میں لکھی ہوئی ہے۔ “ ( پ 11ع 12 )

دعا کی صورت:
اس ارشاد سے ہمیں صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ وہ ہم سب کے ساتھ بالصفات حاضر ہیں، اس لئے وہ ہمارے ہرحال، ہر فعل اور ہر مصروفیت کو بالشہادت جانتے ہیں۔ ہمیں اپنا حال روشن کرنے کے لئے کسی مشقت، کسی جدوجہد کی ضرورت نہیں، وہ ان حالات کے ذاتی شاہد ہیں فانک باعیتنا تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے “ وہ کہہ رہے ہیں۔ جب ہمیں کوئی حاجت ہو تو ہمیں اس حاجت کو ان کے سپرد کر دینا چاہیے اور اس کی طرف سے اپنی توجہ کو ہٹا لینا چاہیے اور ان ہی کی ذات مبارک پر اپنی پوری پوری توجہ مبذول و مرکوز کر دینا چاہیے اور اس امر کا یقین کر لینا چاہیے کہ ان کی کمال قدرت کا ظہور ہو رہا ہے اور ان کا ارادہ ہمارے خیر و برتر کے ظہور میں کار فرما ہے۔

سچی دعا اجابت حق کا تحقق ہے۔ حق تعالیٰ قریب و مجیب ہیں اور فرماتے ہیں اجیب دعوۃ الداع اذا دعان ( بقرہ آیت: 186 ) ” جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔ “ فلیستجیبوا لی ولیومنوا بی لعلھم یرشدون

اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” دعا عبادت ہے، تمہارے رب نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔ ( رواہ احمد واہل السنن ) ہمیں اسی وجہ سے دعا کے وقت اجابت کا قوی یقین رکھنا چاہیے۔ ادعوا اللہ وانتم موقنون بالاجابۃ! حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ” جس چیز کی بھی تمہیں خواہش ہو اس کے لئے حق تعالیٰ سے دعا کرو اور جب دعا کرو تو اس کے قبول ہونے کا یقین رکھو اور وہ چیز تمہیں حاصل ہو گی۔ “

اجابت حق:
دعا کے وقت سب سے زیادہ اہم یہی چیز ہے کہ ہم اجابت حق پر یقین رکھیں اور اچھی طرح مان لیں کہ حق تعالیٰ کے نزدیک کوئی مسئلہ نہ چھوٹا نہ بڑا ہے بلکہ ان کے لئے ہر چیز آسان ہے، وہ ہر شے پر قادر ہے۔ ان تیسیر کل عسیر علیک یسیر، انک علیٰ کل شی قدیر وبالاجابۃ جدید! نعم المولیٰ ونعم النصیر۔

اس لیے کامل یقین و وثوق کے ساتھ ہمیں اپنے قلب کے رخ کو حق تعالیٰ کی طرف پھیر دینا چاہیے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ ہماری حاجت سے واقف ہیں اور اس کی تکمیل فرما رہے ہیں۔ جب حق تعالیٰ ہمارے ساتھ ہیں تو پھر ہمارے تمام خوف بے بنیاد ہیں، فضول ہیں، ذرا اس شخص کا تصور تو کرو جو ایک سرسبز و شاداب وادی سے گزر رہا ہے، لیکن یہ غم اس کو کھائے جا رہا ہے کہ اس کے سامنے تو ایک دریا ہے اور وہ اس کو عبور نہیں کر سکتا حالانکہ دریا پر پل بھی ہے اور وہ نہیں جانتا۔ یا اس شخص کا تصور کرو جس کے ساتھ سفر میں ایک دانا و بینا، قوی و عزیز دوست ہے جو راہ و رسم منزل سے بخوبی واقف ہے جو اس سفر کا کامل نقشہ بنا چکا ہے اور یہ یقین دلا چکا ہے کہ اس سفر میں کوئی اتفاقی حادثہ تک پیش نہیں آئے گا، اس پر کامل اعتماد کیا جا سکتا ہے، اس پر بھی یہ مسافر پریشان ہے۔

مومن کا قلب احمقانہ خوف سے خالی ہوتا ہے وہ ” حبل اللہ “ کو مضبوط پکڑ کر ہمت و مردانگی سے زندگی کے میدان میں قدم اٹھاتا جاتا ہے اور کل کے مسائل اس کو پریشانی نہیں کرتے، وہ حق تعالیٰ پر کامل تو کل و اعتماد رکھتا ہے۔ ” کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے خدا نے ہمارے لئے لکھ دی ہو، وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ “ ( 9، توبہ 51 )

اظہار تشکر:
اجابت دعا کے یقین کے ساتھ اپنی حاجت کارساز حقیقی کے سامنے پیش کرنے کے بعد دعا کی قبولیت پر ہمیں حق تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے، یہ جان کر کہ کوئی جدید ایجاد، نہ برق نہ مقناطیس، نہ زر، ہمارے اندر اس قوت کا کروڑواں حصہ بھی پیدا کر سکتی ہے جو ہم میں حق تعالیٰ کی لامتناہی قدرت پر بھروسہ کرنے سے پیدا ہو سکتی ہے۔ ہم حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں، اس شکر کے ادا کرنے سے ہمارے شعور کے مقفل دروازے کھل جاتے ہیں اور ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ حق تعالیٰ کے لامحدود انعامات کو قبول کر سکیں اور ان کی نعمت سابغہ، ورحمت واسعہ، کا مظہربن سکیں۔ حق تعالیٰ کا شکر نہ صرف ان نعمتوں پر جن کا ہم نے اپنی گزشتہ زندگی میں تجربہ کیا ہے، بلکہ ان بے شمار نعمتوں پر جو ہماری آئندہ زندگی میں ظاہر ہونے والی ہیں، ایک کامل آزاد و بامراد زندگی میں داخل ہونے کا سب سے زیادہ یقینی اور سب سے زیادہ آسان طریقہ ہے، ہمیں نہ کسی چیز کی فکر کرنی چاہیے نہ کسی چیز کا غم! حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر یقین، ان کی گزشتہ و آئندہ نعمتوں پر شکر، مشکلات کے پہاڑوں کو اڑا کر بکھیر دے گا اور زمین کو ہموار میدان کو چھوڑے گا۔
ینسفھا ربی نسفا فیذرھا قاعا صفصفا ( 20 طہ 105 )
ختم دعا پر ہمیں کہنا چاہیے:
انت غیاثی فی کل کربۃ فلک الحمد، وانت رجای فی کل شدۃ فلک الحمد!
ہر بڑے غم میں تو ہی میرا فریاد رس ہے، خدایا ترا شکر، ہر سختی میں تو ہی میری امید ہے، خدایا ترا شکر!
ارجعو الخیر فتیسرہ واخاف الشر
میں تجھ سے خیر کی امید رکھتا اور تو آسان کر دیتا ہے اور میں ہر شر سے ڈرتا ہوں۔
فتصرفہ فلک الحمد! واریتنی الثنیات فلک الحمد!
اور تو اس کو دفع کر دیتا ہے! خدایا ترا شکر! خوشی کے مارے میرے اگلے دانت دکھلا دیتا خدایا ترا شکر!
بیدک موتی وحیاتی فلک الحمد!
میری زندگی و موت تیرے ہاتھ ہے، خدایا ترا شکر!
حق تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ، اس سے پیدا ہونے والی مسرت و شادمانی، تمام مصائب و آفات زندگی کا کامل علاج ہے۔

شادی جاوید:
یا دائمی خوشی اس وجہ سے ہے کہ حق تعالیٰ ہمارے مولیٰ ہیں، نعم المولیٰ ونعم النصیر اچھے مولیٰ اور اچھے مددگار ہیں، لامتناہی قدرت و قوت کے مالک ہیں، ہم اپنے اس یقین و وجدان کا اظہار کرتے ہیں، اس کا تکرار کرتے ہیں اور اس قوت سے تکرار کرتے ہیں کہ تمام شر کی قوتیں جو ہمارے خلاف صف آراءہیں، راہ فرار اختیار کرتی ہیں اور بالآخر فنا ہو جاتی ہیں، یہی ہمارا نعرہ جنگ:
واللہ علیٰ کل شی قدیر.... ان القوۃ والعزۃ جمیعا.... ان اللہ ھو الرزاق ذوالقوۃ المتین.... ان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر .... کان اللہ علیٰ ذلک قدیرا۔

کسی حاجت کے وقت اگر ہمارے قلب کی نظر حق کی قوت و قدرت پر جم جائے تو اس قوت کا اظہار ہم میں ہونے لگتا ہے۔ دیکھو جس چیز کا بھی ظہور ہماری زندگی میں ہوا ہے، اسی وقت ہوا ہے جب ہم اس سے واقف ہوئے ہیں اور اس کو قبول کیا ہے۔ یہ ایک کلی نفسیاتی قانون ہے۔ یہ کلی بھی ہے اور ضروری بھی، اس کا اطلاق ہر تصور پر، ہر مادی شے پر ہوتا ہے۔ جو ہمارے علم میں آئی ہے، یا ہماری ملک بنی ہے، اسی لئے یہ چیز اہل عقل و اہل نقل دونوں کے نزدیک مسلم ہے کہ جب ہم حق تعالیٰ سے کوئی چیز مانگتے ہیں تو ہمیں اجابت کا یقین کرنا چاہیے، یعنی یہ یقین کرنا چاہیے کہ ہمیں وہ چیز مل چکی اور صرف اسی صورت میں وہ چیز ہماری ملک بن جاتی ہے، یہی تفسیر ہے۔ ادعوا اللہ وانتم موقنون بالاجابۃ کی۔

حق تعالیٰ قادر قوی ہونے کے علاوہ رحیم و ودود بھی ہیں، رؤف و رحیم بھی ہیں، غفور و رحیم بھی ہیں، رحمن و رحیم بھی ہیں، البر الرحیم بھی ہیں۔ ان اللہ کان بکم رحیما ان کا محبت بھرا ارشاد ہے، یہ جان کر ہم اپنے قادر، رؤف رحیم مالک کی بے شمار نعتوں و رحمتوں کا شکر و امتنان کے جذبات کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں تا کہ ان کا کامل ظہور ہماری زندگی کی ہر جہت، ہر پہلو میں ہو۔

حق تعالیٰ سے حسن ظن ان کی تمام صفات کی معرفت ہے، ان کی نرمی مہربانی و رحمت سے امید ہے، یہ حق تعالیٰ کی جہت سے نہ کہ بندہ کی جہت سے، کیونکہ حق تعالیٰ کی صفات محسن و کریم و رحیم و لطیف و رؤف و ودود ہیں اور حق تعالیٰ سے حسن ظن کے معنی یہ ہیں کہ اپنے تمام مقاصد کو حق تعالیٰ کی عنایت سابقہ کے حوالے کر دیا جائے اور قلب کی نگاہ ان پر جم جائے، ایسی حالت میں قلب سے طمع اور روح و نفس سے تمام تمنائیں نکل جاتی ہیں۔

خلاصہ بیان:
اوپر کے ارشادات سے معلوم ہوا:
1۔ دعا پر ہم مامور ہیں، ادعونی! نیز فعلیکم عباداللہ بالدعاءاور دعا فطری ہے، ہماری فطرت کا تقاضا بھی ہے۔
2۔ دعا کے بعد ہمیں اس کی اجابت پر، اس کے قبول ہونے پر یقین رکھنا چاہیے۔ ادعوا اللہ وانتم موقنون بالاجابۃ حق تعالیٰ چونکہ محسن و کریم و رحیم و لطیف و رؤف ودود ہیں، ان کی نعمتیں و رحمتیں ہم پر محیط ہیں۔ ہماری زندگی میں ان کا ظہور ان کے قبول کرنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک کلی و ضروری و نفسیاتی قانون ہے اس کی ہمیشہ پابندی کرنی چاہیے۔ دعا کرنے کے بعد قلب کی نگاہ حق تعالیٰ کی ان ہی صفات پر جم جانی چاہیے اور شعور کے دروازے ان صفات کے ظہور کے لئے کھول دئیے جانے چاہیں۔ دن کے مختلف اوقات میں قلب کی کشش و نگرانی حق سبحانہ وتعالیٰ کی ان ہی صفات کی طرف ہونی چاہیے۔
3۔ دعا کے بعد اس کی قبولیت پر صمیم قلب سے شکر ادا کرنا چاہیے، انسانی تخیل کی بلند ترین پرواز بھی حق تعالیٰ کی ان نعمتوں و رحمتوں کا اندازہ نہیں کر سکتی جو اس نے بندہ مومن کے لئے فراہم کر رکھی ہیں۔ فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین ہمارے ان ارشادات پر عمل کرتے ہوئے اب تم اپنی کسی ضروری حاجت کا تصور کرو۔

( ا ) اس کو حق تعالیٰ کے حضور میں پیش کرو دعا کرو اور کہو یا رب آپ مقتدر بادشاہ ہیں جو چیز آپ چاہتے ہیں وہ ہو جاتی ہے۔ حضرت سعید بن المسیب تابعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جو شخص ان کلمات کو پڑھ کر اس کے معنی کا تحضر کر کے دعا کرے تو وہ دعا قبول ہو گی۔
( ب ) دعا کی اجابت پر کامل یقین رکھتے ہوئے اس حاجت کی تکمیل منعم حقیقی کا شکر ادا کرتے رہو۔
( ج ) اپنی حاجت، اس کی مشکل، درد، حزن کا خیال مت کرو۔ بلکہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر نظر رکھو کہ وہ اس حاجت کی تکمیل کر رہی ہے نفس و قلب و روح کی تمام قوتوں کے ساتھ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو اس حاجت کی تکمیل کی صورت میں نمایاں ہوتے ہوئے دیکھتے ہو۔ تمہاری دعا مرتبہ غیب میں اب بھی مستجاب ہو چکی ہے۔ اگر تمہاری نظر اس اجابت حق پر جمی رہے اور زبان سے اس کی تکمیل کا تم شکر ادا کرتے رہو تو اس کا ظہور مرتبہ غیب سے مرتبہ ظہور میں بھی نمایاں ہو جائے گا۔

No comments:

Post a Comment