Wednesday, January 19, 2011

امت مسلمہ مدد الہیٰ سے محروم کیوں؟

قرآن پاک کی ایک سورت ہے ” حم السجدہ “ جو کہ چوبیسویں پارے میں ہے چند دن ہوئے اس سورہ مبارکہ کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کا اتفاق ہو تو جب اس سورہ کی آیت نمبر 30 جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ” بے شک جن لوگوں نے کہہ دیا اللہ ہی ہمارا رب ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے تو ان لوگوں کے لئے فرشتے نازل ہوتے ہیں ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے نہ کوئی غم، خوشخبری ہے ان کے لئے جنت کی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ “ پر پہنچا تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے مشکل وقت میں فرشتوں کے ذریعے مدد بھیجنے کا جو وعدہ کیا ہے اس کا تاریخ اسلام سے جائزہ تو لوں کہ کس کس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی اس طرح مدد کی ہے۔

سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے حالات زندگی پر نگاہ پڑی جب ان کو نمرود اور اس کے حواریوں نے آگ کے الاؤ میں پھینک دیا تھا، جبرائیل علیہ السلام آئے اور آ کر ابراہیم علیہ السلام سے مخاطب ہوئے اور فرمایا ” اے ابراہیم علیہ السلام ! اگر آپ حکم دیں تو یہی الاؤ آپ کے دشمنوں پر پھینک دیا جائے۔ “ اسی طرح جب سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین مکہ سے تنگ آ کر وادی طائف کی طرف عازم سفر ہوئے کہ شاید وہاں پر ہی کوئی شخص اسلام قبول کر لے تو اس وقت بھی طائف والوں نے اسلام قبول کرنے کے بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تب بھی جبرائیل علیہ السلام آئے اور آ کر کہا اگر آپ اجازت دیں تو بستی والوں کو دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں۔ جنگ بدر میں بھی فرشتوں کا ایک ہزار کا لشکر کفار کی بیخ کنی کے لئے آیا تو احد میں بھی ایسا ہی ہوا اور آج کے دور میں بھی جب مجاہدین میدان جہاد سے واپس آتے ہیں تو مدد الٰہی کے عجیب عجیب مناظر بیان کرتے ہیں۔

لیکن اس سب کچھ کے باوجود انسان اس بات کا جائزہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر موجودہ دور کے مسلمانوں نے بھی تو اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ” اللہ ہمارا رب ہے “ تو پھر کیا سبب ہے کہ کبھی احمد آباد اور گجرات سے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ مسلمانوں کی 2500 کے لگ بھگ مساجد کو شہید کر دیا گیا ہے اور بیس ہزار سے زائد لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا اور خواتین کے ساتھ ایسے انسانیت سوز مناظر واقعات سامنے آتے ہیں کہ حاملہ عورتوں کے پیٹوں میں برچھیاں مار کر تڑپتی ماؤں کے سامنے ان کے بچوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور بعد میں ان عورتوں کو بھی شہید کر دیا جاتا ہے تو کبھی افغانستان میں بارود کی بارش برسائی جاتی ہے تو کبھی کشمیر، بوسنیا، فلپائن، فلسطین اور عراق میں ظلم و ستم کی انتہا کر دی جاتی ہے اور کبھی امریکی بدمعاش کے فرنٹ لائن اتحادی پاکستانی مشرف کے ملک میں بھی باجوڑ میں مساجد و مدارس میں بمباری کر کے بچوں، اساتذہ اور غریب و بے کس عوام کو شہید کر کے فخر کیا جاتا ہے۔ تو کبھی کیوبا کے جزیروں پر قرآن پاک کے مقدس و مطہر اوراق کے ساتھ استنجا کرنے کی ناپاک جسارت کی جاتی ہے

تو کبھی پوری کائنات سے افضل و اعلیٰ شخصیت سیدنا محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنائے جاتے ہیں تو کبھی کرسچین پوپ کی طرف سے آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان گستاخی کی جاتی ہے تو کبھی ” شیطانی آیات “ نامی کتاب کے شیطان مصنف ملعون رشدی کو ” سر “ کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ ( خواہ یہ شیطان یورپین عورتوں پر بھی کیچڑ اچھالتا نظر آئے لیکن کفار کو اپنی عورتوں پر کیچڑ اچھالنے کی پرواہ کب ہے کیونکہ انہیں تو امہات المومنین اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیچڑ اچھالنے والا کوئی خبیث ملنا چاہیے کیونکہ یہ ہر ایسے شخص کو سر آنکھوں پر بٹھانا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں ) لیکن اس سب کچھ کے باوجود فرشتوں کی مدد کیوں نہیں آتی اور یہ مسلمان خوف و غم میں کیوں مبتلا ہیں۔

مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او۔ آئی۔ سی ہی ایسے کٹھن حالات میں بھی کوئی بہتر کردار ادا کرنے کے لئے نظر کیوں نہیں آتی، تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا دعویٰ ” اللہ ہی ہمارا رب ہے “ وہ ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترتا کیونکہ جب صحابہ کرام نے یہ دعویٰ کیا تھا وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک حکم پر اپنی جان نچھاور کرنا فخر سمجھتے تھے۔ قرون اولیٰ کے دور کی جھلک ان چند واقعات سے بالکل نظر آئے گی کہ حضرت ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ تھے جو انتہائی قد آور اور تنومند جوان تھے، ان کو نبی کریم علیہ السلام نے ذمہ داری سونپی کہ وہ مشرکین مکہ کے ہاں جو مسلمان قید ہیں ان کو رہا کروائیں تو ابومرثد رضی اللہ عنہ نے ان صحابہ کو روزانہ ایک ایک کر کے قید خانے سے رہائی دلوا کر دیوار کراس کروا دیتے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت ابومرثد رضی اللہ عنہ کے ساتھ جس عورت کے ناجائز تعلقات تھے نے پہچان لیا اور بدکاری کی دعوت دی لیکن ابومرثد رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اسلام میں ان چیزوں کی اجازت نہیں۔ لہٰذا میں ایسا نہیں کر سکتا تب اس بدکار عورت نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اگر تم نے یہ گناہ نہ کیا تو میں شور مچا دوں گی تب بھی اس اللہ کے بندے نے انکار کر دیا۔ تو اس عورت نے شور مچا دیا کہ یہی تمہارا مجرم ہے جو قیدیوں کو رہا کرواتا ہے، حضرت ابومرثد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں دوڑتا ہوا ایک پہاڑی ٹیلے کے نیچے گھس گیا تو اہل مکہ اس ٹیلے پر بیٹھ کر پیشاب کرتے جو میرے سر پر پڑتا رہا۔ اس بات سے ہمیں ان لوگوں کے کردار کو سمجھ لینا چاہیے کہ انہوں نے پیشاب اور پاخانہ جیسی گندگی کو تو سر میں ڈلوا لیا لیکن زنا اور بدکاری جیسی گندگی کو قبول نہیں کیا۔

ویسے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ میری امت کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور شکلیں مسخ کر دی جائیں گی آسمان سے پتھروں کی بارش ہو گی تو صحابہ نے پوچھا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس وقت لوگ اسلام کو چھوڑ دیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں نمازیں پڑھنے والے بھی ہوں گے حج کرنے والے بھی ہوں گے، روزے دار اور زکوٰۃ ادا کرنے والے بھی ہوں گے، لیکن اس دور میں شراب عام ہو گی، جوا کھیلنا شروع کر دیں گے، زنا اور بدکاری کریں گے اور گانا بجانا عام ہو گا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ عذاب ان پر آئے گا۔ “

گزشتہ واقعہ اور حدیث نبوی کو سامنے رکھ کر اگر موجودہ مسلمانوں کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ مسلمان ظلم و ستم کے شکنجے میں پھسنے کے باوجود بدکاری، بے حیائی، عریانی و فحاشی کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کو چھوڑ کر موسیقی سے دل بہلاتے نظر آئیں گے اور گھر گھر میں انڈین فلموں کی فحاشی و عریانی ہی نہیں بلکہ ہندو مذہب کی تبلیغ بھی کی جا رہی ہے۔ اور ہمیں تو آدھا ملک گنوا کر بھی سمجھ نہ آئی جب کہ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریہ بنگال میں ڈبو دیا ہے اور اسی کے بیٹے راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے یہ جنگ میدان جنگ میں نہیں بلکہ پاکستانیوں کے گھروں میں اپنی تہذیب اور کلچر پھیلا کر جیتی ہے۔ اور یہی عریانی و فحاشی ہی ان کا کلچر ہے جو مسلمانوں کو بے حمیت اور بے غیرت بناتا چلا جا رہا ہے۔ اور ہم اپنی عزتوں کو بچانے کے قابل بھی نہیں رہے

جبکہ دور نبوی میں ایک یہودی نے مسلمہ عورت کی عصمت دری کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مختصر کر کے سیدنا حضرت علی کی قیادت میں لشکر ترتیب دیا کہ اس مسلمان عورت کی عصمت کا انتقام لے کر آؤ تو شام سے پہلے پہلے سیدنا علی علیہ السلام نے اس یہودی کا سر قلم کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا تو آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے بدلہ نہ لیا جاتا تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو جاتا۔ لیکن ہم ہیں کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ ہمارے حکمرانوں نے تو شاید اسلام کی مخالفت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے چوری کی حد اسلام میں ہاتھ کاٹنا ہے۔ جبکہ ہمارے مشرف صاحب فرماتے ہیں کہ میں ساری قوم کو ٹنڈا کر دوں؟ دوسرے لفظوں میں پوری قوم کو ہی چور کا لقب دینے پر تلے بیٹھے ہیں جبکہ اسکے برعکس ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ” کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ ضرور کاٹتا۔ “

ہماری حالت تو یہ ہو چکی ہے کہ ہم قدم قدم پر کفار کی مشابہت کو اختیار کئے ہوئے ہیں ایسے لوگ جو اسلام کے بجائے کسی دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ” من تشبہ بقوم فھو منھم “ ” جو کسی دوسری قوم کی مشابہت کرے گا وہ انہی میں سے اٹھایا جائے گا۔ “ دعویٰ تو ہمارا بدر واحد والوں کا ہے لیکن عمل ہمارا ان کفار کے مشابہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہونے کے بجائے ہزاروں الہ بنائے بیٹھے ہیں کوئی گائے کا پجاری ہے تو کوئی بندر کا پجاری۔ جب ہم ایسے لوگوں کے طریقوں کو اپنائیں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے غضب ہو رہے تو پھر مدد ہم پر کیسے نازل ہو گی؟ دوسری طرف ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو ہم عدل و انصاف کی راہ اختیار کر رہے ہیں اور نہ ہی سودی کاروبار کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں جس کے بارے میں قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ سود لینے والا اور دینے والا مسلمان ہی نہیں بلکہ ایسے معاہدے کو تحریر میں لانے والا بھی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہے۔

ایک طرف تو ہم کہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا رب ہے اور دوسری طرف اسی وحدہ لا شریک کے ساتھ اعلان جنگ بھی کریں تو پھر کیسے فرشتوں کی مدد ہم تک پہنچ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کے نازل نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کر کے کفار کی غلامی کو اختیار کرنا ہے۔ جب ہم میدان جہاد میں جانے کی تیاری نہیں کریں گے تو پھر اس طرح ہم پر ظلم ستم ہوتا رہے گا۔ درحقیقت ہم دعویٰ تو کرتے ہیں ” اللہ تعالیٰ ہی ہمارا رب ہے “ لیکن ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مخالف ہیں پھر بھی ہم اللہ تعالیٰ کی مدد کے طالب ہیں؟

No comments:

Post a Comment