Saturday, January 15, 2011

جہیز معاشرتی لعنت

جہیز
جہیز کے لفظی معنی تیاری یا سامان کی تیاری کے ہیں۔ہندی میں اسے ''دان''یا ''کنیا دان''کہتے ہیں جس کے معنی ''خیرات'' کے ہیں۔اسلام سے پہلے عربوں میںجہاں اور بہت سی برائیاں پائی جاتی تھیں وہاں لڑکیوںکو زندہ درگور کر بھی عام تھا۔غیرت کے نام پر لوگ اپنی ہی بیٹیوں کو زمین میںزندہ دفن کر دیتے تھے کہ کوئی انہیں بیٹی کاباپ ہونے کا طعنہ نہ دے۔اسی طرح بیٹیوں کو باپ کی جائیداد میںسے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔اسلام نے نہ صرف عورتوں کا جائیداد میں حصہ مقرر کیا بلکہ بیٹیوں کو اللہ کی رحمت قرار دیا۔
عورت کی زبوں حالی صرف عرب کے علاقے تک محدود نہ تھی بلکہ مصر،عراق،روم اور یونان(جسے تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا ہے) میں بھی عورت کو تحقیر کا نشانہ بنایا جاتارہا۔ہندو معاشرے میں بھی عورت کو نہ صرف باپ کی جائیداد سے محروم رکھا گیا بلکہ شادی کے بعد اگر اس کا خاوند فوت ہوجائے تو اسے بھی بعض اوقات اس کے ساتھ آگ میں جلناپڑتا۔عورت چونکہ باپ کی وارث نہیں بن سکتی تھی اس لیے والدین بوقتِ شادی حسبِ استطاعت اپنی بیٹی کو ''دان''کے نام پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرتے۔اور جن لڑکیوں کے والدین ''دان'' کی سکت نہ رکھتے ان کی بیٹیوں کو معاشرہ بیوی کی حیثیت سے قبول کرنے سے عاری تھا۔
٧١٢ء محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ جب برصغیر میں اسلام کا سورج طلوع ہوا تو یہی ''دان '' ''جہیز'' کے نام میں تبدیل ہوگیا۔چونکہ اب یہ کام کرنے والے صرف ہندو نہیں بلکہ مسلمان بھی تھے۔وہاں سے چلتی ہوئی یہ رسم آج شادی کا لازمی جز بن چکی ہے ۔اور اس سے بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ''جہیز''کے جواز کے لیے اسلام کے شجر تلے پناہ ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ کی شادی کے موقع پر دیے جانے والے سامان کو جہیز سے تعبیر کرتے ہوئے اسے اسلامی رسم باور کراتے ہیں۔حالانکہ یہ استدلال بالکل بے بنیاد ہے۔واقعہ یوں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تواپنا گھر بار سب کچھ مکہ چھوڑ آئے۔ مدینہ میں آپ مالی لحاظ سے مکہ کی نسبت اتنے مستحکم نہ تھے۔جب آپ کا رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے طے ہوا تو اس وقت آپ کے پاس صرف ایک تلوار ،ایک گھوڑا اور ایک زرہ تھی۔حضور علیہ السلام نے حضرت علی کو زرہ بیچ دینے کا حکم دیا جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خریدا ۔ان پیسوں سے آپ نے چند گھریلوں استعمال کی بنیادی چیزیں خرید یں۔
اس واقعہ سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں:
١۔ اگر کوئی شخص نیک ہو اگرچہ غریب ہو اس سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔
٢۔ ازدواجی زندگی میں استعمال ہونے والی چیزوں کا بندوبست کرنا مرد کی ذمہ داری ہے ۔
اس واقعہ سے جہیز کی حلت کی بجائے حرمت ثابت ہورہی ہے ۔کہ جہیز کی تیاری خاوند کی ذمہ داری ہے نہ کہ بیوی اور اس کے گھر والوں کی۔لہٰذا اس روایت سے استدلا ل کرنے والوںکو عقل کے ناخن لینے چاہیں۔
باپ کی وارثت میں بیٹیوں کا ایک معین حصہ قرآن نے مقرر کیا ہے ۔اس کی طرف تو کوئی توجہ نہیں کی جاتی بلکہ اگر کوئی مطالبہ کردے تو اسے معیوب تصور کیا جاتاہے۔ اس کے برعکس جہیز کے بغیر شادی کا تصور بھی ناممکن ہے۔معاشرے میں کتنی ہی لڑکیاں ایسی ہیں جن کی شادی صرف اس لیے وقت پر نہ ہو سکی کہ ان کے والدین ان کے جہیز کا بندوبست نہ کرسکے۔چند امیر لوگوں کو چھوڑ کر بے شمار لوگوں کی زندگیاں اپنی بیٹیوں کا جہیز تیار کرنے میں گزر جاتی ہیں۔بلکہ اکثر اوقات قرض لے کر اس ہندوانہ رسم کی ادائیگی کی جاتی ہے ۔اور اگر کوئی خدا ترس اس رسم کو ختم کرنے کے لیے قدم اٹھائے تو اسے معاشرے کی طرف سے زبردست طعن وتشنیع کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
تو آیئے! عہد کریں جہاں تک ممکن ہو سکے ہم اس رسم کو ختم کرنے میں اپنا کردار اداکریں اور لوگوں میںاس کی حقیقت کا شعور بید ار کریں۔تاکہ ہم بھی اس معاشرے کا حصہ بن جائیںجس کی بنیاد آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے محمد رسول اللہ نے رکھی تھی۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔(آمین)

No comments:

Post a Comment