Saturday, January 29, 2011

ہندو دہشت گردی۔۔۔۔

سوامی اسیمانند کا اصلی نام نابا کمار ہے ۔یہ شخص مغربی بنگال کے کامارپکا ر نامی گاؤں میں پیدا ہوا اورطالبعلمی ہی کے زمانے آر ایس ایس کی پکار پر لبیک کہہ کر اس میں شامل ہو گیا ۔کالج کے زمانے جب نابا ایم ایس سی کی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر بردمان آیا تو سنگھ کے حوالے اسکی دلچسپیوںمیں خاصہ اضافہ ہو چکا تھا؁ ۱۹۷۷ءکے آتے آ تے نابا کمار آرایس ایس کا ہمہ وقتی کارکن بن چکا تھااورضلع پرولیا کے قبائلی علاقوں سنگھ پریوار کی ایک ذیلی تنظیم وسنواسی کلیان آشرم کیلئے کام کرنے لگاتھا۔؁ ۱۹۸۸ ء سے؁ ۱۹۹۳ ء تک نابا کمار انڈمان نکوبار میں ونواسی آشرم کی خدمت میں لگا رہا ۔ اس کے بعد سارے ملک کا دورہ کر کے ادیواسیوں کے درمیان ہندو دھرم کا پرچار کرتا ہواگجرات کے ڈانگ ضلع میں پہونچا اور شبری آشرم قائم کر کے وہیں بس گیا ۔سنگھ پریوار کے ساتھ اس کےسفر میں ایک سہانا موڑ اسوقت آیا جب اس کے گرو پرم آنند نے اسے اسیم آنند کے خطاب سے نوازہ ۔پرم آنند کے معنیٰ اولین مسرت کے ہوتے ہیں اور اسیم آنند بے انتہا سرور کو کہتے ہیں ۔یقیناً عرصۂ دراز تک نابا کمار نے سنگھ پریوار کو بے شمار خوشیوں سے نوازہ لیکن فی الحال یہ ان کے لئے وبالِ جان بنا ہوا ہے اور مسلمانوں کو خوش کررہا ہے ۔ دہلی کی تیس ہزاری کورٹ میں اسکے اقبالیہ بیان سے اس نے زبردست تہلکہ مچا رکھا ہے ۔اسیم آنند نے مالیگاؤں ، حیدرآباد اور اجمیر سمیت سمجھوتا ایکسپریس کے دھماکے میں اپنے ملوث ہونے کو تسلیم کر کے سنگھ پریوار کی نیند حرام کر دی ہے۔


سنگھ پریوار فی الحال اس قدر حواس باختہ ہے کہ طرح طرح کے متضاد بیانات دینے لگا ہے ۔ سنگھل کے مطابق کوئی اسیم آنند نے سرے سے کوئی بیان ہی نہیں دیا گیا یہ سب ذرائع ابلاغ کی جانب سے اڑائی جانے والی افواہیں ہیں۔اس طرح کا بچکانہ بیان دینے کی جرأت اشوک سنگھل کے علاوہ اور کون کر سکتا ہے؟ سنگھل جی جانتے ہیں کہ ان کے حاری حواریوں کی عقل مقؤف ہوچکی ہے اس لئے وہ ان کی ہر بے سر پیر کی منطق کو بلا چوں چرا قبول کر لیں گے۔بی جے پی کا ترجمان کبھی توکہتا ہے کہ کانگریس حکومت سمجھوتا ایکسپریس بم دھماکے کا الزام ہندوستانیوں کے سر ڈالکر کر پاکستان کی مدد کر رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی مہم کو کمزور کر رہی ہے گویا کہ اصل دہشت گردوں کو چھپانا اور بچانا نیز معصوم لوگوں کو بے بنیاد الزامات کے تحت جیل کی سلاخوں پیچھے ٹھونس کر پاکستان کے نام کی مالا جپتے رہنے سے دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی مہم تیز ہوتی ہے ۔اور کبھی روی شنکر پرساد فرماتے ہیں کہ یہ بدعنوانیوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کی سازش ہے جس میں سنگھ کو بلی کا بکرہ بنایا جارہا ہے۔ آر ایس ایس کے ترجمان رام مادھو کے مطابق یہ بیان سی بی آئی نے زبردستی کر کے لکھوایا ہے۔ سنگھ رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ اسیم آنند کا سنگھ سے کو ئی تعلق نہیں تھا حالانکہ سنگھ کے سر سنگھ چالک سے لیکر بی جے پی کے سارے بڑے رہنما اس کے آشرم پر برابر حاضری حاضری لگا چکے ہیں ۔ کل کو آر ایس ایس والے یہ بھی کہہ دیں گے ونواسی آشرم کا سنگھ سے کو ئی تعلق نہیں ہے اور اس جھوٹ کو دنیا کی ہرعدالت میں سچ ثابت کر دیا جائیگا ۔


اسیمانند کے مطابق اس نےچنچلگڈا جیل میں عبدالکلیم نامی نوجوان کے اخلاق سے متاثر ہوکر کفارہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ بات صحیح ہو سکتی ہے لیکن جو شخص اتنے سارے معصوموں کی ہلاکتوں سے متاثر نہیں ہوا ۔ سادھوی پرگیہ کی گرفتاری کے بعد عرصۂ دراز تک روپوش رہا اور گرفتار ہونے کے بعد قلیل عرصہ میں اچانک معجزاتی طور پر اس کا قلب منقلب ہو گیا یہ تسلیم کر لینا مشکل لگتا ہے ۔ممکن ہے اسیمانندوعدہ معاف گواہ بن گیا ہو اور کانگریس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہو۔اس نے اپنی ساری کہانی کا مرکزی کردار جس سنیل جوشی کو بنایا اسے ہلاک کیا جاچکا ہے ۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اسے خود پریوار نے پرلوک سِدھار (روانہ کر)دیا۔اسیم آنند کے مطابق اس کا کام سرمایہ مہیا کرنا تھا اور بم بنانے والے اور پھوڑنے والے اور لوگ تھےنیز ہر دھماکے کی اطلاع اسے اشارے سے یا بعد میں دی گئی ۔اس سے اسیمانند کا بلاواسطہ ملوث ہونا تو ثابت ہوتا ہے بلواسطہ نہیں ۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں ہندو دہشت گردوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ان کے مقدمے کو خود انتطامیہ اس قدر کمزور کردیتا ہے کہ عدالت کیلئے کوئی سزا تجویز کرنا ممکن نہیں ہو جاتاہے۔ عدالت کو بھی اس طرح کے مقدمات میں کم ہی دلچسپی ہوتی ہے۔بابری مسجد کے فیصلے ہندوستانی عدالتوں کی غیرجانبداری کی منہ بولتی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اسیما نند اس بات سے بھی واقف ہیں کہ وطنِ عزیز کا سیاسی نظام جن چار پیروں پر کھڑا ہوا ہے یعنی مقننہ ، عدلیہ، انتظامیہ اور جمہوریہ (عوام) ان سب کو ہندو دہشت گردوں کے خلاف اقدام کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے وگرنہ اس ملک میں ٓدوانی اور مودی جیسے لوگوں کا نام وزیراعظم کے طور پر نہ اچھالا جاتا اور انہیں ہر طرح کا تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔


یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بدعنوانی کے الزامات سے پریشان منموہن سرکار کو اس معاملے سے خاصی راحت ملی ہے ۔ ذرائع ابلاغ اسے خوب اچھال رہا ہے اور اس عوام کی توجہات بی جے پی اور سنگھ پریوار کی جانب مرکوز ہو رہی ہیں۔ گوہاٹی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی اجلاس میں کانگریس پر شدید تنقید کا امکان تھا لیکن اس کے عین ایک دن پہلے اس راز کا فاش ہوجانا یقیناً کسی کے پردۂ زنگاری میں چھپے ہونے کی نشاندہی کرتا ہے خیر وجہ جو بھی ہو اس سے قطع نظراگر ان دونوں شیطانوں کی آپسی سر پھٹول سے حقائق باہر آجاتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائی گئی افواہوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں تو یقیناً یہ نہایت خوش آئند بات ہوگی۔ لیکن ساری اٹھا پٹخ کا ٹھوس فائدہ اسی وقت ہوگا جب ان دھماکوں کے جھوٹے الزامات میں گرفتار مسلم نوجوان رہا کر دیئے جائیں۔ جن پولس افسران نے انہیں گرفتار کیا انہیں اپنے کئے کی قرار واقعی سزا دی جائے نیز جن سیاستدانوں نے نام نہاد مسلم دہشت گردی کی آگ پر سیاسی روٹیاں سینکیں ان کا سیاسی مستقبل اسی تنور میں جھونک دیا جائے ۔ جمہوری ہندوستان میں یہ معقول توقعات بھی نہ جانے کیوں خام خیالی محسوس ہوتی ہیں۔


ہیمنت کرکرے کی تفتیش سے لے کر اسیمانند کے اعتراف تک کے سفر کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہندوستان کا ہر مسلمان دہشت گرد نہ سہی ہر دہشت گرد مسلمان ضرور ہے ۔ اب یہ بات جگ ظاہر ہو گئی ہے کہ ہندوستانی دہشت گردی میں پیش پیش مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہیں ۔ ہمارے وطن ِ عزیز میں دہشت گردی کی دو بڑی قسمیں ہیں ایک سرکاری اور دوسرے عوامی ۔ سرکار کی باگ ڈور گذشستہ چند صدیوں سے مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے اس لئے سرکاری دہشت گردی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ آزادی کے بعد سے تمام تر سرکاری دہشت گردی کا سہرہ ہندوؤں کے سر بندھتا ہے اسی لئے کہ وہی حکومت کا کام کاج چلا رہے ہیں۔ سرکاری دہشت گردی کی ابتدا حیدرآباد کے خلاف پولس ایکشن سے ہوئی ۔ ہندوستان میں برپا ہونے والے اکثرو بیشتر فرقہ وارانہ فسادات یا تو حکومت کی سر پرستی میں کرائے گئے یا کم از کم حکومت نے فسادیوں کو تحفظ فراہم کیا اس کی سب سے بڑی مثال دہلی میں سکھوں کا قتلِ عام اور گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی ہے ۔ زمانے کے ساتھ حکومت نے ببانگ ِ دہل انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے نام سے ایک سرکاری مافیا کو بھی جنم دیا جنھیں قانون کو ہاتھ میں لے کر معصوم عوام کا خون بہانے کی اجازت دے دی گئی۔ انسل پلازہ کا واقعہ جس کا پردہ ایک ہندو وکیل فاش کر دیا اس کی ایک مثال تھا۔جامعہ ملیہ میں معصوم طلبا کی شہادت کا خون ابھی خشک نہیں ہوا ہے ۔گجرات میں اے ٹی ایس کمشنر ونجارہ حوالات میں بند ہے اور ہیمنت کر کرے کے قتل پر شکوک و شبہات کی دبیز چادر اسی ایک کڑی کے بکھرے ہوئے دانے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے عوامی احتجاج کو دبانے کی خاطر لال گڑھ میں جو کیا گیاوہ جگ ظاہر ہے ۔چھتیس گڑھ میں عوام کو غریب عوام اپنے گھروں سے بزورِ قوت بے خانماں کیا گیا اور انہیں سرکاری کیمپوں میں رکھ کر نہ صرف عسکری تربیت دی گئی بلکہ اسلحہ سے لیس کر کے نکسلیوں کے خلاف سلوا جودم کا نام دے کر اتارا گیا۔ ان حقائق کا راز فاش کرنے والے بین الاقوامی انعام یافتہ سماجی کارکن ڈاکٹربنائک سین کو عمر قید کی سزا سے نواز دیا گیا یہ سب سرکاری دہشت گردی کا ایک حصہ ہے۔ نسل نوجوانوں کے ساتھ کانگریس سے لے کر کمیونسٹوں تک نے جو کچھ کیا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔


عوامی دہشت گردی یا عسکریت پسندی کی چار شاخیں ہیں ۔علٰحیدگی پسند تحریکیں ان میں کشمیر کے علاوہ سب کی سب ہندو عوام کی جانب سےچلا ئی جا رہی ہیں۔ سکھوں کو بھی چونکہ سنگھ پریوار ہندو شمار کرتا ہے اس لئے یہ کہنا پڑے گا کہ پنجاب سے لے کر آسام تک اس طرح کی ساری علٰحیدگی پسند جماعتیں ہندو مذہب کے ماننے والے چلا رہے ہیں۔قسم دوم نکسلوادی عسکریت پسندی ہےاس کو بھی چلانے والے مسلمان نہیں بلکہ ہندوہی ہیں اس کے حامیوں میں بھی سرِ فہرست ارون دھتی رائے اور ڈاکٹر سین جیسے ہندووں کا نام آتا ہے۔ اس کے بعد ہندو فسطائی دہشت گردی ہے تو اس کی ابتداء آزادی سے قبل نواکھالی کے فسادات سے ہوگئی تھی اور اس کا سب عظیم مظہر مہاتما گاندھی کا قتل تھا۔ ناتھو رام گووڈسے نام نہاد اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والا براہمن ہندو تھا۔ اس کا تعلق نہ صرف ہندو مہا سبھا سے تھا بلکہ وہ آر ایس ایس کا بھی ممبر رہ چکا تھا۔ دہلی جانے سے قبل وہ بنفسِ نفیس دامودر ساورکر کی خدمت میں آشیرواد لینے کی خاطر حاضر ہو اتھا اور ساورکر نے اسے ‘‘یشسوی بھوو’’(کامیاب ہو کر لوٹو) کے دعائیہ کلمات کے ساتھ روانہ کیا تھا۔ اندرا گاندھی کو قتل کرنے والا محافظ مسلمان نہیں تھا اور راجیو گاندھی کو بھی مارنے والی دھانو بھی ہندو ہی تھی اسے اس مہم پر روانہ کرنے والا پربھا کرن بھی مسلمان نہیں تھا ۔ اسیمانند نے اگر کچھ ہندووں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی خبر دے دی تو یہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے۔


مسلمانوں کا نام اس دہشت گردی میں پہلی بار ؁ ۱۹۹۲ ء میں آیا یہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد کی بات ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سورت میں نہ صرف فسادات ہوئے اور مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی اور اس کی ویڈیو فلم بھی کر اسے پھیلایا گیا۔ اس ویڈیو کا ردعمل ممبئی میں ماتھاڈی کامگاروں کےقتل کی صورت میں رونما ہوا جو یقیناً قابلِ مذمت حرکت تھی اور مسلم قوم اور اس کے رہنما وں نے اس کی بھر پور مذمت کی اس کے باوجود مسلمانوں کو سبق سکھانے کی خاطر مرکزی وزیرِ دفاع شرد پوار،وزیرِ اعلیٰ سدھاکرنائک اور بال ٹھاکرے متحد ہوگئے اور سرکاری سرپرستی میں فسادات کرائے گئے جس میں تقریباً ایک ہزار افراد جان بحق ہوئےجن میں بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔اس کے بعد ماہِ مارچ میں مسلمانوں کا رد عمل سامنے آیا اور ممبئی میں پے در پے دھماکے ہوئے جس میں تقریباً ساڑھے تین سوافراد ہلاک ہوئے۔ اس دھماکے کو کرنے والے اصل مجرم پولس کے ہتھے آج تک نہیں چڑھے لیکن حکومت معصوم لوگوں کو برسوں سےقیدو بند میں رکھے ہوئے ہے۔ اس واقعہ کے بعد تقریباً دس سال امن رہا اس لئے کہ سارے لوگوں کی سمجھ میں آگیا کہ ظلم کے ببول پر امن کا پھول نہیں کھلتا۔


؁ ۲۰۰۱ء میں مرکزی حکومت کی باگ ڈور بی جے پی کے ہاتھ میں تھی اور ہندوستان کے تعلقات امریکہ سے بہتری کی جانب مائل تھے کہ ۱۱ستمبر کا حملہ ہو گیا اور اس کے بعد امریکہ بہادر کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بی جے پی نے اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا پر پابندی عائد کر دی۔ ؁ ۲۰۰۲ء میں دوبارہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے نریندر مودی نے فروری کے اندرگجرات فساد کروائے اور ستمبر میں اکشر دھام مندر پر حملہ کروا کر ہندو رائے دہندگان کو مزید خوفزدہ کر دیا ۔ اکشر دھام حملے کیلئے کشمیری مجاہدین کو ذمہ دار ٹہرایا گیا نتیجہ یہ ہوا کیشو بھائی کی ناراضگی اور واگھیلا کی بغاوت بھی بی جے پی کا کچھ بگاڑ نہ سکی دسمبر کے مہینے میں مودی نے غیر معمولی انتخابی کامیابی درج کروائی اور اس کے بعد دھماکوں کے لامتناہی سلسلے کا آغاز ہو گیا ۔ ہر دو سال بعد جب ایس آئی ایم پر سے پابندی ختم ہونے کا وقت آتا دھماکے رونما ہو جاتے اور ایس آئی ایم کو ذمہ دار ٹہرا دیا جاتا ۔ اکشر دھام کے دھماکوں کے بعد؁ ۲۰۰۴ء میں ممبئی گیٹ آف انڈیا کے دھماکے ہوئے اسی لئے ہوئے اور ؁ ۲۰۰۶ء میں ممبئی ٹرین دھماکوں کے بعد انڈین مجاہدین کی کہانی اسی لئے گھڑی گئی ۔ ؁ ۲۰۰۸ء کا ممبئی حملہ تاخیر سے ہوا تو اس بیچ ٹریبونل نے پابندی منسوخ کر دی جسے حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کر کے پھر لگوا دیا ۔حالیہ وارانسی میں ہونے والے ڈرامے بھی اسی کی کڑی ہیں ۔ گویا بی جے پی کی پرمپرا کو کانگریس حکومت بھی جاری رکھے ہوئے ہے ۔


کارگل کی جنگ اور پارلیمنٹ پر حملہ بی جے پی کی سیاسی ضرورت تھی اور اس لئے اس نے خود اس کا اہتمام کیا یہی وجہ ہیکہ پارلیمان پر حملہ گھنٹوں ٹی وی پر نشر ہوتا رہا لیکن کسی سیاستدان کا بال بیکا نہیں ہوا۔ ؁ ۲۰۰۴ء میں بی جے پی حکومت سے بے دخل ہو گئی اور ؁ ۲۰۰۵ء میں بم دھماکوں کا رخ ایودھیا،یوپی اور دہلی کی جانب پلٹا؁ ۲۰۰۶ء میں پھرایک بار ممبئی نشانہ بنا۔ان میں سےاکثر حملوں کے بعد جس تضاد بیانی کا مظاہرہ انتظامیہ کی جانب سے ہوا ہے اس سے شک کی سوئی اپنے آپ خود انہیں کی جانب گھوم جاتی ہے ۔


اسیمانند کے مطابق ؁ ۲۰۰۲ء میں اکشر دھام حملے کے بعد ہندووں کے اندر دہشت گردی کے جراثیم پروان چڑھنے لگے اور ؁ ۲۰۰۶ء کے بعد ان لوگوں نے مالیگاؤں حملے سے اپنی کارروائی کا آغاز کر دیا یہ بات پورا سچ نہیں ہے ۔ ؁ ۲۰۰۳ء میں پربھنی کی دو مساجد پر حملے ہوئے اور؁ ۲۰۰۴ء میں جالنہ اور پورنا میں مساجد پر حملے کئے گئے ۔ ؁ ۲۰۰۶ء کے اندر جالنہ ہی میں آر ایس ایس کا کارکن بم بناتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔یہ گویا ابتدا تھی اس کے بعد مالیگاوں، حیدرآباد اور اجمیر شریف سمیت سمجھوتا ایکسپریس کا اعتراف تو اسیمانند نے کر ہی لیا ہے اور نہ جانے کتنے ایسے حملے ہوں گے جو ہنوز صیغہ راز میں ہیں جنھیں اسیما نند چھپا رہا ہے یا جو خود اس سے بھی چھپے ہوئے ہیں۔اس کے باوجود جتنا کچھ باہر آچکا ہے وہ مسلمانوں کے سر سے اس جھوٹے کلنک کو مٹانے کیلئے کافی ہے جو سیاستدانوں نے انتظامیہ اورذرائع ابلاغ کی مدد سے
مسلمانوں کے سر پر لگا دیا تھا ۔ الحمد اللہ


مالیگاوں ؁۲۰۰۶ سے لیکر مالیگاوں ؁۲۰۰۸ کے درمیان ہندوستانی دہشت گردی کی تاریخ میں ایک عظیم تبدیلی واقع ہوئی ۔ بم دھماکوں کی ذمہ داری پاکستان اورسیمی سے ہٹ کر سنگھ اور سوامی کی جانب منسوب ہو گئی ۔ماہِ اکتوبر کے اندر اجمیرشریف کی چارج شیٹ میں جو الزامات راجھستان اے ٹی ایس نے سنگھ پریوار پر لگائے دسمبر میں سوامی اسیمانند نے انہیں اپنے اقبالیہ بیان میں تسلیم کرکے ان پر تصدیق کی مہر ثبت کردی گویا دو سال دھوم دھڑاکا دوسال تحقیقات اور دو ماہ میں تصدیق ۔ انتظامیہ نے اپنے سیاسی آقاؤں کیلئے ایک منظر نامہ لکھا اس پر اپنے دشمنوں سے عمل در آمد کروایا انہیں کھلنے اور کھیلنےکے بھرپور مواقع فراہم کیا۔ بلاواسطہ ان کاہر طرح سے تعاون کیا اور وقت آنے پر اس سارے کھیل کو سمیٹ دیا۔ جو لوگ دہشت گردی کے اسرارورموز تک رسائی چاہتے ہیں ان کیلئے ان واقعات میں بڑی نشانی ہے بشرطیکہ وہ عقل سے کام لیں ۔


ملک وملت میں کچھ سادہ لوح ایسے بھی ہیں جو ان واقعات کو محض اتفاق سمجھتے ہیں۔کچھ نیک دل لوگوں کے خیال میں ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا بنیادی سبب لاعلمی تھااب چونکہ حقائق سامنے آگئے ہیں اصلاح ہورہی ہے۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کے خیال میں ملک کا سارا انتظامیہ سنگھ پریوار کے زیرِ اثر ہے اور سیاسی اقتدار کسی بھی جماعت کے ہاتھ میں ہواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہوتا وہی ہےجوصہیونی طاقتیں چاہتی ہیں گویا بیچاری کانگریس پارٹی اگر معصوم نہیں تو مجبور ضرور ہے ۔ اگر یہ سب سچ ہوتاتو سادھوی پرگیہ کبھی بھی گرفتار نہ ہوتی ،سوامی اسیمانند کواپنے جرائم کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اس لئے کہ اسے گرفتار کرکے چنچلگڈا جیل تک لے جانے والا انتظامیہ کانگریس کے اشارے پر کام کررہا تھا۔ اگر وہ سوامی جی گرفتار کر کے آندھرانہیں لے جاتا تو نہ ان کی ملاقات عبدالکلیم سے ہوتی اورنہ کفارہ ادا کرنے کا خیال ان کے دل میں آتا۔اگر انتظامیہ سنگھ پریوارکی گرفت میں ہوتا توراجھستا ن اے ٹی ایس کی چارج شیٹ میں وہ سارے الزامات موجود ہی نہ ہوتے جن کا اعتراف اسیمانند نے کیا ہے۔ ایسے میں کیااب بھی یہ سوچنا دانشمندی کی علامت ہے کہ کانگریس کی مر کزی اور ریاستی حکومتیں واقعی اندھیرے میں تھیں اور اپنی لاعلمی کے سبب معصوم مسلم نو جوانوں کو گرفتار کر رہی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہیکہ مہاراشٹر ، آندھرا اور ہریانہ (جہاں سمجھوتا ایکسپریس کا دھماکہ ہوا )ان تینوںریاستوں میں کانگریس کے نہایت سیکولر قسم کے وزیر اعلیٰ حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے ۔ ولاس راؤ کو وسنت دادا پاٹل کی طرح فرقہ پرست کبھی بھی نہیں سمجھا گیا اور نہ وائی ایس آر پر نرسمھا راو ٔ کی مانند ہندونواز ہونے کا الزام لگایا گیا بلکہ ان کے بارے میں کہا جاتاہیکہ وہ ہندو نہیں بلکہ عیسائی تھے ۔ایک راجھستان میں بی جے پی کو حکومت تھی جو؁۲۰۰۸ میں ختم ہو گئی ۔ سیاسی رموزونکات سے واقفیت رکھنے والے تو کبھی بھی یہ نہیں مان سکتے کہ یہ سب لاعلمی کے باعث ہوا اور جہاں تک اتفا قات کا سوال ہے وہ خوابوں او ر خیالوں میں ہمیشہ ہی ہوتے ہیں، حقیقت میں کبھی کبالر ان کا ظہور ہوتا ہے لیکن سیاست میں کبھی نہیں ہوتے یہاں تو سب کچھ منصوبہ بند طریقہ پر ہوتا ہے۔ منصوبوں کا ناکام ہوجانا دیگر بات ہے لیکن اتفاق سےالل ٹپ یہاں کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تویہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کانگریس والوں نے جانتے بوجھتے اس ببول کے پودے کو پنپنے ہی کیوں دیا ؟ اس گلستان کے باغبانوں پر وہ پھولوں کی بارش کیوں کرتے رہے ؟ اس کے کانٹوں میں معصوم مسلم نوجوانوں کو الجھا کر زخمی کیوں کیا گیا؟ ان دکھیاروں کے زخموں پرببول کا کڑوا رس کیوں چھڑکاجاتا رہا؟ اور ایک وقت ِ خاص میں اس پیڑ کو جس کی دیکھ ریکھ بڑے جتن سے کی گئی تھی اکھاڑپھینکنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟


ان سارے سوالات کا واحد جواب ہے سیاسی مفاد!اپنی سیاسی ضرورت کے پیشِ نظر ہندو دہشت گردی کی آگ کو ہوا دی گئی اوراسکی نشوونما کی گئی اور اسی سیاسی فائدےکی خاطراس کا قلع قمع بھی کیا جارہا ہے ۔سنگھ پریوار اپنے نظریات و خیالات کی حد تک اول روز سے انتہا پسند رہا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر ہی اس کی ساری سیاست کا دارومدار رہاہے ۔ مسلم پر سنل لا ،گائے کشی ،کشمیر اور بابری مسجد کے سہارے یہ لوگ اپنی سیاسی دوکان چمکاتے رہے ہیں ۔ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان تناو پیدا کرنا اور اس کا فائدہ اٹھا کر فسادات برپا کر دینا یہ اس کا طریقہ کار رہا ہے۔کانگریس کی حکومتوں نے ہمیشہ ہی اس طرح کی صورتحال میں سنگھ کو تحفظ فراہم کیا ہے اس لئے کہ فرقہ وارانہ فسادات اکثر بیشتر کانگریس کیلئے مفید ثابت ہوتےرہے ہیں۔ ان کے ذریعہ اس نے مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کااحساس پیدا کر کے خود کو مسیحا کی حیثیت سے پیش کیا اور ان کےووٹ بنک پر اپنی گرفت مضبوط کی ۔ ہندورائے دہندگان کی ناراضگی کا اندیشہ کانگریسیوں کوسنگھ پریوار پر ہاتھ ڈالنے روکتا رہالیکن اس کے باوجود یہ دونوں ایک دوسرے کے سیاسی حریف تو رہے ہی ہیں ۔ سنگھ نے ہمیشہ ہی بی جے پی کی ہمنوائی کی جو فطری امر ہے سوائے ایک مرتبہ جموںکشمیرکے انتخاب کے جو استثنائی صورتحال تھی جس میں آر ایس ایس نے بی جے پی کے خلاف کانگریس کا ساتھ دیا اور اس کی بہت بڑی قیمت بی جے پی چکانی پڑی ۔اس لئے کانگریس کی ہمیشہ یہ کو شش رہی ہے کہ آرایس موجود تو رہے تاکہ وقتِ ضرورت کام آئے لیکن اس کے اثرات کو ایک حد سے آگےبڑھنے نہ دیا جائے۔ آر ایس ایس کے کارکنان کے اندر پائے جانے والےدہشت گردی کے رحجان کابم دھماکوں کی صورت میں اظہارمسلمانوں کیلئے یقیناً نقصان دہ تھا لیکن کانگریس کیلئے فائدہ بخش تھا ۔اس کے ذریعہ سے ایک طرف اس کی تباہ کاریوں کو بے نقاب کر کے بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف عوام میں غم و غصہ پیدا کرنا مقصود تھا اور دوسری جانب ان لوگوں کو بلیک میل کر کے اپنے سیاسی مفادات کا حصول سہل بنانا تھا۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے بلکہ پچھلے دنوں سہراب الدین کیس سے مودی کو بری کر کے کانگریس نے نیوکلیائی بل پر بی جے پی کی حمایت حاصل کی تھی اس طرح کی سیاسی سودے بازی میں کانگریس کو مہارت حاصل ہے۔ اسی لئے کانگریس والے جان بوجھ کر سنگھ کے ذریعہ ہونے والی دہشت گردی سے نہ صرف چشم پوشی کرتے رہے بلکہ اسکی پشت پناہی کرتے رہے۔اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان کی جانب سے صرفِ نظر کیا جائے دوسرے اپنے آدمی ان کی تنظیم میں گھسادیئے جائیں یا ان کے چند لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا جائے اور اپنے ایجنٹوں کے توسط سے ان کو ضروری اسلحہ وتربیت وغیرہ فراہم کیا جائے۔انتظامیہ کی جانب سے نرمی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان کی پذیرائی اس حکمتِ عملی کا ایک حصہ ہے ۔ لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب رسی کو کھینچ لیا جاتا ہے تو اپنے بھی پرائے ہوجاتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ونجارہ نے ساری قتل غٖارتگری نریندر مودی کے ایماء پر کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مودی کے اقتدار کے باوجود وہ جیل میں چکی پیس رہا ہے۔وزیرداخلہ امیت شاہ مودی کے اشارے پر کھیلتا رہا اور مودی نے اسی کو بلی چڑھا کر اپنے آپ کو بچا لیا۔


مہاراشٹرکوہندو نظریات کے حوالے گنگوتری کا مقام حاصل ہے اسلئے ہندوتوا کے سارے چشمے یہیں سے پھوٹتے ہیں اس لئے لاٹھی اور نیکر سے آگے بڑھ کر بندوق لیس فوجی یونیفارم میں ملبوس دہشت گردی کی ابتدا کیلئے بھی یہی سر زمین سب سے زیادہ موضوع تھی سو یہی ہوا ۔ مراٹھواڑہ کےپربھنی،جالنہ اور ناندیڑ سے اس کی ابتدا ہوئی۔وزیر اعلیٰ ولاس راؤ اسی علاقے کے رہنے والے تھے تو کیا ان کے مخبروں نے انہیں نہیں بتلایا ہو گا کہ یہ سب کس کا کیا دھرا ہے؟ ناندیڑ کا دھماکہ تو آر ایس ایس کے کارکن لکشمن راجکونڈوار کے گھر میں ہوا اور اس میں بم بناتے ہوئے اس کا بیٹا نریش اور ہمانشو پانسے نامی وی ایچ پی کا کارکن ہلاک ہوئے ۔ یہ معاملہ اپریل کے مہینے میں ہوا اس کے باوجود پولس نے ان سارے حقائق سے آنکھیں موند لیں اورچند ماہ بعد جب مالیگاؤں دھماکہ ہو اتو انتظامیہ کوسیمی کے علاوہ کوئی بھی نظر نہیں آیا ۔ آگے چل کرناندیڑ دھماکے میں ملوث ایک ملزم نے نارکو ٹسٹ میں ہمانشو کے جالنہ،پورنا اور پربھنی کے دھماکوں کا سوتر دھار قرار دیا اس کے باوجود مالیگاؤں سے گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کی رہائی عمل میں نہیں آئی یہاں تک کے وعدہ معاف گواہ ابرار احمد نے اپنا بیان بدل دیا اور اے ٹی ایس نے عدالت سے کہہ دیا کہ ان نوجوانوں کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں ہے پھر بھی وہ معصوم ہنوز جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی ہیں۔ کانگریس کی اس چال نے سنگھ پریوار کے اندر دہشت گردی کا رحجان رکھنے والے عنا صر کے حوصلہ بلند کر دیا۔وہ اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ انہوں نے انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں زبردست کامیابی حاصل کر لی ہےحالانکہ صورتحال اس کے بر عکس تھی حکومت ان احمقوں کو بے وقوف بنا رہی تھی۔ حقیقت تو یہ تھی کہ مالیگاؤں کے معاملے میں کانگریس کی سنگھ کے خلاف رچی جانے والی سازش میں مسلمانوں کو بلی کا بکرہ بنایا گیاتھا ۔اب ان دہشت گردوں نے یکے بعد دیگرے بڑھ چڑھ کر حملے شروع کر دیئے ،مکہ مسجد،اجمیر شریف اور سمجھوتا ایکسپریس وغیرہ وغیرہ ۔ حکومت ہر حملے کیلئے مسلمانو ں کو،انڈین مجاہدین کو ،لشکر طیبہ کو اور آئی ایس آئی کو موردِ الزام ٹہراتی رہی یہاں تک کہ مالیگاؤں کا دوسرا دھماکہ ہوا جس میں صرف پانچ لوگ جان بحق ہوئے اس پر خود سادھوی پرگیہ نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اور راموجی کالسنگرے سے فون پر پوچھا صرف تین لوگ کیا موٹر سائیکل بھیڑ میں نہیں کھڑی کی گئی تھی ؟جواب تھا ایسا کرنے کا موقع نہیں ملا۔سادھوی نہیں جانتی تھی کہ اس کا فون ٹیپ ہورہا ہے اور اسے ثبوت کے طور پر پیش کیا جانے والا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں سی بی آئی نے سادھوی پرگیہ کا فون ریکارڈ کیا؟ اور یہی فون کیوں ریکارڈ کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہیکہ سی بی آئی سادھوی کی تمام حرکات سے واقف تھی اور اس کا ہر فون ریکارڈ ہو رہا تھا لیکن حکومت زیادہ سے زیادہ شواہد جمع کرنے کیلئےاسے موقع دے رہی تھی۔ دھماکے ہو تے رہے،مسلم نوجوان گرفتار بھی کئے جا تےرہے ، ہندو دہشت گرد خوشی مناتےرہے کہ انہیں کامیابی پر کامیابی حاصل ہو تی جارہی ہے اور کانگریس پارٹی اپنے پاس زیادہ سے زیادہ شواہد جمع کرتی رہی تاکہ وقتِ ضرورت ان کا استعمال کیا جائے۔ ؁۲۰۰۹ کے انتخابات سے ایک سال قبل کانگریس نے محسوس کیا کہ شکنجہ کسنے کامناسب وقت آگیا ہے اب ہلکی آنچ پر اس کھچڑی کو چولہے پر چڑھا دینا چاہیےاس طرح مالیگاؤں کے دوسرے دھماکے نے ہوا کے رخ کو موڑ دیا ۔


سادھوی پرگیہ،کرنل پروہت اور شنکر اچاریہ دیانند پانڈے گرفتار کر لئے گئے ۔ابتدا میں گرفتار ہونے والے تین افراد میں سےسادھوی کا تعلق یقیناً سنگھ سے رہا ہے اور اس کے بے شمار ثبوت موجود ہیں۔اڈوانی سے لیکر راجناتھ سنگھ سب اس کی حمایت کر چکے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہیکہ کوئی پروہت اور پانڈے کے بارے میں ایک حرف بھی اپنی زبان پر نہیں لاتا ۔ آرایس ایس سے ان کے تعلق کو ثابت نہیں کیا جا سکتا بلکہ کرنل پروہت نے اپنے چند بیانات میں آرایس ایس کو ہندو راشٹر کے راستے کی رکاوٹ قرار دیا ہے ۔یہ بات اہم ہے کہ آر ایس ایس کے مر کزی رہنما اندریش کمار پر آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کا الزام اور تین کروڈ لینے کاانکشاف اسی شخص کا ہے ۔ دیا نند پانڈے اس لحاظ سے نہایت پر اسرار ہے کہ یہ شخص دہشت گردی کی ساری معلومات (تصویر اور آواز کے ساتھ) اپنے کمپیوٹر میں ریکارڈ کرتا رہا ۔ یہ اس قدرعظیم حماقت ہے جس کا ارتکاب ایک اسکول کا طالبِ علم بھی نہیں کر سکتا اور پھر طرہ یہ کہ اس کمپیوٹرکو بڑی آسانی سےپولس کے حوالے کر دیا گیا۔خیر ان دونوں سے قطع نظر اب اجمیر ۔حیدر آباد اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تانے بانےاس قدرپھیلے ہوئے ہیں کہ اس نے آر ایس ایس کے اچھے خاصے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جن کا تعلق چھتیس گڈھ ،مدھیہ پردیش، گجرات راجھستان اور مہاراشٹر سے ہے ۔ فی الحال سیدھے نشانے پر سنگھ کے اعلیٰ رہنما اندریش کمار اور سر سنگھ چالک موہن بھاگوت ہیں ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اندریش کمارکو جس پر آئی ایس آئی سے روپئے لینے کا الزام ہےسنیل جوشی کے قتل میں پھناک دیا جائے اور ممکن ہے اس کے ملوث ہونے کا ثبوت بھی پولس کے ہتھے چڑھ گیا ہو اس لئے کہ پچھلے دنوں ہرشدسولنکی نامی نوجوان کو جوشی کے قتل کے الزام میں گرفتار کرنے کا دعویٰ پولس کر چکی ہے ۔کل کو اگر سولنکی یہ کہہ دے کہ اس کام کیلئے اسے اندریش نے تیار کیا تھا توسنگھ پریوار کی عزت و ناموس ہندو سماج کے اندرکس بھاؤ میں نیلام ہوگی اس کا اندازہ کرنے کیلئے کسی ماہر جیوتش کی ضرورت نہیں ہے ۔کانگریس ایسا کرے گی یا نہیں اس کا فیصلہ اسکی سیاسی ضرورتوں پر منحصر ہے ۔


اس پس منظر میں یہ فرض کرلای جائے کہ اگر ناندیڑ دھماکے کے بعد کانگریس کی ریاستی حکومت نے اس زہریلےناگ کا سر کچل دیا ہوتا تو کیا ہوتا؟یقینی بات ہیکہ یہ بزدل دہشت گرد دم دبا کر بیٹھ جاتے ۔مسلم عوام ان دھماکوں کی ہلاکت بچ جاتی اور معصوم نوجوان جیل کی صعوبتوں کا شکار نہ ہوتے لیکن کانگریس کا کیا فائدہ ہوتا؟ سچ تو یہ ہیکہ آج ان معصوموں کے خون سے کانگریس پارٹی اپنی مسلم نوازی اور سنگھ پریوار کی ملک دشمنی رقم کر رہی ہے ۔سمجھوتہ کے معاملے میں پاکستان کے ذریعہ آنے والی رسوائی کیلئے سنگھ پریوار کو قصوروار ٹہرایا جائیگا اور بی جے پی اس کا نکار نہ کر سکے گی ۔ آگے چل کر وہ ان سارے شواہد کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا جائے گاجو دیا نند پانڈے کے کمپیوٹر میں فلم بندہیں ۔کانگریس ان کے ذریعہ سنگھ پریوار کوبلیک میل کر کےاسے اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرےگی اور عوام میں اپنی نیک نامی کا ڈنکا بجائے گی ۔ ؁۲۰۰۶ میں شروع ہونے والا ڈرامہ ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچا ہے بلکہ کھیل جاری ہے ۔ اس کی الماری سے بہت سارے ڈھانچوں کو باہر آنا باقی ہے جنھیں وقتاً فوقتاً حسبِ ضرورت باہرلایا جاتا رہیگا تاکہ اس سے سیاسی حریفوں کو مدافعت پر مجبور کر کےاور خود کو اقدامی پوزیشن میں رکھا جاسکے۔انتخابی سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کا یہ سب سے کامیاب ومجرد نسخہ ہے ۔


جمہوریت کی گاڑی ایک پہیہ پر نہیں چلتی اس کیلئے کم از کم دو پہیوں کا ہونا ضروری ہے اسی لئے وی پی سنگھ نے کہا تھا کہ ہم کانگریس کو پوری طرح ختم کرنا نہیں چاہتے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ عوام کے سامنے کم از کم دو سیکولر متبادل موجود رہیں ۔ اگر کانگریس ختم ہو جائے دوسرا متبادل بی جے پی ہوگی اوراس کے اقتدار میں آنے کے امکانات موجود رہیں گے ۔ لیکن کانگریس پارٹی کی سوچ اس سے مختلف رہی ہے ۔ وہ یاتواپنے سیکولر متبادل کو نگل جانے کی کوشش کرتی ہے یا اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتی ہے ۔ کانگریس پارٹی کی تاریخ اس حقیقت کی غماز ہےاس لئے کہ کانگریس کو بی جے پی کی بنسبت دوسری سیکولر جماعتوں سےزیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ بی جے پی شکست دینا آسان تر سمجھتی ہے اسی لئے وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہتی کہ صہیونی فکر کا خاتمہ ہوجائے وہ اسےکمزورحالت میں باقی رکھنا چاہتی ہے ۔ اسی حکمتِ عملی کے پیشِ نظر اس نے بڑی خوبی کے ساتھ سنگھ پریوار کو دہشت گردی کے مایاجال پھنسا لیا ہے تاکہ اقتدار پر اپنی گرفت کو قائم و دائم رکھا جاسکے۔وکی لیکس میں راہل گاندھی کا بیان اسی جانب اشارہ کرتاہے 

ڈاکٹر سلیم خان 

No comments:

Post a Comment