Tuesday, January 4, 2011

وطن عزیز میں اہل کلیسا کا نصاب تعلیم

موقر جریدہ ” اہل حدیث “ کے توسط سے میری ان والدین سے درخواست ہے ۔ جو اپنے بچوں کو امریکن سسٹم ایسے تعلیمی اداروں میں داخل کروا کر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں ۔ کہ ان کے صاحبزادے بہت جلد فرفر انگلش بولنے پر عبور حاصل کر لیں گے ۔ اس طرح وہ اپنے عزیز و اقارب اور سوسائٹی میں اپنا سر فخر سے بلند کر سکیں گے ۔ میں تو عرض کروں گا کہ اگر ان والدین میں تھوڑی سی بھی دینی و وطنی غیرت موجود ہے ۔ تو انہیں علم ہونا چاہئیے کہ ان کی اولادیں بے جا سٹیٹس اور جدیدیت کے نام پر اپنی تہذیب و روایات سے محروم ہو رہی ہیں ۔ یاد رہے امریکن سسٹم اداروں میں ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں جو زہر انڈیلا جا رہا ہے ۔ وہ نہایت ہی مہلک ہے ۔ بھاری فیسیں اور طرز معاشرت تو ایک طرف ان کے نصاب سے رمزِ مسلمانی اور اقدار اسلامی کو کھرچا جا رہا ہے ۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔ جن سے اس گہری و گھناؤنی سازش کا اندازہ ہو جائے گا ۔

حضور والا ! ان اداروں میں پڑھائی جانے والی ساتویں جماعت کی کتاب ” Oxford History of Islam “ کے پہلے باب میں آفتاب نبوت ، محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے یوں ہرزہ سرائی کی گئی ہے ۔

When he was about forty he realised that God has called him to be a Prophet, just as Musa, Abrahim, Daud and Jeses had been
” جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً چالیس برس کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو احساس ہوا کہ خدا نے انہیں پکارا ہے ۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح پیغمبرہیں جس طرح موسیٰ علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام پیغمبر تھے ۔ “

جناب والا ! حیرانی ہے کہ کتاب کے مصنف پیٹرموس نے تعصب کی بنا پر نہ صرف آداب نبوت سے اغماض کیا ہے یعنی PBUH کے الفاظ کو لکھا نہیں اور He کے H کو کیپیٹل ( Capital ) رسم الخط میں بھی نہیں لکھا ۔ بلکہ وحی الٰہیہ کو بھی ( توبہ نعوذ باللہ ) مشکوک ٹھہرایا ہے ۔

اسی طرح ( اسلام کی پیش رفت ) The Spread of Islam کے باب میں مسلمانوں کی فتح سپین کا ذکر صرف ایک جملے میں کر دیا گیا ہے ۔ فاتح اندلس کے سالار ان اسلام طارق بن زیاد رحمہ اللہ اور موسیٰ بن نصیر رحمہ اللہ کے نام لینا بھی گوارا نہیں ۔ اور ادھر فرانس کی 732ءکی جنگ میں امیر عبدالرحمن عاقی کے لشکر کی پسپائی اور اپنے چارلس مارٹل کی فتح کا قصہ تفصیلاً بیان کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے ، ایسے نصاب کی تدریس ہمارے بچوں کو اسلاف کے کارناموں سے دور کر رہی ہے ۔ وہ مصور پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال مرحوم کی دردمندانہ شاعری اور مولانا الطاف حسین حالی کی شہرہ آفاق مسدس ” مدو جزر اسلام سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں ۔

شاعر مشرق رحمہ اللہ تو یوں فرماتے ہیں ۔
ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے
مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں
روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں
خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں
کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں
مانا وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں

ادھر حضرت مولانا الطاف حسین حالی رحمہ اللہ نے فرزندان اسلام کی ترقی و منزلت ، فن لطافت و تعمیر ، علوم سے محبت اور انداز تمدن پر یوں تبصرہ فرمایا ہے ۔ ( ( ماخوذ مسدس حالی رحمہ اللہ )
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے
مساجد کے محراب و در جا کے دیکھے
حجازی امیروں کے گھر جا کے دیکھے
خلافت کو زیر و زبر جا کے دیکھے
جلال ان کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا
کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا

ایسے اسباق و رہنمائی سے ہماری نئی نسل محروم ہو رہی ہے ۔ آکسفورڈ کا نصاب غیور مسلمان کو کب گوارا ہو سکتا ہے ۔ تعلیم کے نام پر یہ نصاب فرزندان اسلام کی غیرت و ناموس پر کھلا ڈاکہ ہے ۔ میری والدین سے درخواست ہے کہ وہ ” امریکن سسٹم “ تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو ہر گز داخل نہ کرائیں ۔ ارباب مقتدر سے بھی درخواست ہے ۔ کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کیلئے مرکزی اور صوبائی سطح پر ماہرین تعلیم پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو ان اداروں کے نصاب کو چھان پھٹک کے بعد تیار کریں اور محکمہ تعلیم سے باقاعدہ منظور کروائیں ۔ نہیں تو ہماری نئی پود کشتی سورۃ وطن کیلئے غیور ، مخلص ، بیباک اور دین پسند ناخدا ثابت نہیں ہو گی ۔

No comments:

Post a Comment