Monday, January 17, 2011

جدید علوم و فنون کے اصل موجد مغرب نہیں ، مسلمان ہیں

جدید علوم و فنون کے اصل موجد مغرب نہیں ، مسلمان ہیں
جدید اور عصری علوم و فنون اپنی خوبیوں اور خامیوں کے پیش نظر مسلمانوں میں ہمیشہ بحث کا موضوع رہے ہے ، جہاں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کا زبردست حامی رہا ہے وہیں وہ طبقہ جس میں ہمارے بیشتر علمائے کرام بھی شامل ہیں ، جدید اور عصری تعلیم کا کلی طور پر انکاری نہ ہوتے ہوئے بھی حتی الامکان اس سے دوری اپنائے رکھنے کی تلقین کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو لوگ جدید اور عصری تعلیم کے حامی ہیں ان کی دلیل یہ ہوا کرتی ہے کہ اس کے بغیر دور حاضر کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے اور تعمیر و ترقی کی دوڑ میں مسلمان کافی پیچھے رہ جائیں گے ، جو لوگ جدید اور عصری تعلیم کے سخت مخالف ہیں وہ بھی بخوبی یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو بھی ڈاکٹر ، انجینئر ، سائنسدانوں کی سخت ضرورت ہے تاہم جدید اور عصری تعلیم کے اداروں میں مسلم بچے اور بچیوں کے داخلے کی بات جب ان سے کی جاتی ہے تو وہ فوراً اپنا منہ بسورتے ہوئے نظر آتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ جدید اور عصری تعلیم کے حصول کو یہ پسند نہیں کرتے اور اسے یہ کوئی غیر اسلامی فعل تصور کرتے ہوں بلکہ ان کے تردد کی اصل وجہ یہی ہوا کرتی ہے کہ جدید اور عصری تعلیم کے اداروں میں داخل ہو کر ہمارے مسلم بچے اور بچیاں اپنی اسلامی شناخت کو کھودیں گے کیوں کہ انہوں نے یہ دیکھا بھی ہے کہ ابھی حال ہی تک مدارس میں زیرتعلیم رہنے اور شلوار قمیض کو اسلامی تہذیب کا ایک حصہ سمجھنے والے مسلم بچے اور بچیاں منی اسکرٹ اور پینٹ و شرٹ پہننا اور ٹائی وغیرہ باندھنا ضروری سمجھنے لگتے ہیں جیسے کہ ان کے بغیر نہ تو ان کے لئے جدید اور عصری تعلیم کا حصول ممکن ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ تعلیم یافتہ کہے جا سکتے ہیں ۔

اس ضمن میں یہ بات بھی سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے مسلم بچے اور بچیوں کے انگریزی اور انگریزیت میں ڈھل جانے کے اسباب یہ نہیں ہیں کہ جدید اور عصری علوم و فنون ہی انہیں اس کی ترغیب دیتے ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ جدید اور عصری تعلیم کا حصول ہی منی اسکرٹ اور پینٹ و شرٹ پہننے ، ٹائی وغیرہ باندھنے ، بے حیائی اور بے پردگی ، عریانیت اور فحاشی کی کوئی دعوت انہیں دیتا ہے اس میں آخر جدید اور عصری علوم کا کیا قصور ؟ یہ تو شلوار قمیض پہن کر اور ٹوپی وغیرہ سر پر رکھ کر بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں جیسے کہ ابن سینا ، جابر اور خیام ، فارابی ، ابی رشد اور ابوالیہثم جیسے مسلم دانشوروں اور سائنسدانوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہ کر ہی مختلف علوم و فنون اور سائنس کے میدانوں میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں جو جدید اور عصری علوم و فنون کی بنیاد بنے ، اس ضمن میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اپنے آپ کو جدید اور عصری علوم کا مؤرث و موجد تصور کرنے والے ہی قرطبہ اور بغداد اور دوسرے اسلامی شہروں کی ہماری اسلامی درسگاہوں میں اسلامی تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہ کر ہی انہیں علوم و فنون کی جو آگے چل کر جدید اور عصری علوم و فنون کی بنیاد بنے تحصیل میں فخر محسوس کیا کرتے تھے ۔

افسوس تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی کوتاہیوں سے علوم و فنون کی جن راہوں کو چھوڑ دیا انہیں پر چل کر اسلامی اقدار و روایات کی ازلی دشمن بے حیائی ، بے پردگی ، عریانیت ، بدچلنی اور بے راہ روی کی عادی قومیں جدید اور عصری علوم و فنون کی مؤرث و موجد قرار پائیں اور ساری دنیا کو اپنی سڑی گلی تہذیب میں ڈھال دینے کے سنہرے مواقع انہیں حاصل ہوئے بس یہی وہ اسباب ہیں جن کی بناءپر دینی رجحان رکھنے والے اور بحیثیت مسلمان ہر چیز کو اسلامی نظر سے دیکھنے کے قائل لوگ جدید اور عصری علوم و فنون سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، کیوں کہ انہوں نے بار ہا یہ دیکھا ہے کہ جدید تعلیمی اداروں میں داخل ہونے والے مسلم بچے اور بچیاں اپنی اسلامی شناخت کھو کر انگریزی اور انگریزیت کے ماحول مین ڈھل گئے ، ممی ، ڈیڈی ، پاپا ، ٹاٹا ، ہائے اور بائے بائے کرنے کو اپنا اسلامی شعار بنایا اور یہ سمجھنے لگے کہ بات بات میں انگریزی الفاظ کے استعمال کے بغیر جیسے وہ تعلیم یافتہ کہے ہی نہیں جاسکتے ۔

یاد رکھےے کہ وہ تعلیم جسے آج ہم جدید اور عصری تعلیم کے نام سے یاد کرتے ہیں اور انگریزی تعلیم سے تعبیر کرتے ہیں کبھی وہ ہماری ہی باندی ہوا کرتی تھی اور اس کے مورث و موجد تو اصل میں ہم ہی ہیں ، بدقسمتی اور مرور زمانہ کے ہاتھوں جب ہم نے اس سے دوری اختیار کی تو غیروں نے اسے اپنا لیا اور چونکہ انگریزی اور انگریزیت کے گہوارے ہی اس کے مورث و موجد قرار پائے ، اس لئے ان کی انگریزی زبان ہی اس کی تحصیل کا ذریعہ خاص بن گئی اور اسے انگریزی تعلیم سے تعبیر کیا جانے لگا وہ چیز جو کبھی عربی زبان اور عربوں کی پہچان تھی وہی دھیرے دھیرے انگریزی اور انگریزیت کی پہچان بن گئی چوں کہ مسلمانوں سے ان کی مخالفت کا ایک تاریخی سلسلہ رہا ہے اس لئے مسلمانوں کو ان کے اچھے برے ہر فعل سے نفرت ہونے لگی ، نتیجتاً ہماری بہت سی چیزیں جن کو ہم چھوڑ بیٹھے تھے اور جن کو انہوں نے اپنا بنا لیا تھا ہمیشہ کے لئے بس انہیں کی بن کر رہ گئیں جدید اور عصری علوم و فنون کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔

اب چونکہ جدید اور عصری علوم و فنون سے مزید دوری اختیار کئے رہنا مصلحت کے خلاف ہے اور چونکہ اپنی اسلامی شناخت اور اسلامی اقدار و روایات کو بھی بہرحال ہمیں محفوظ رکھنا ہے اس لئے اب ہمیں کچھ ایسا راستہ اختیار کرنا ہی پڑے گا جس پر چل کر جدید اور عصری تعلیم کے تقاضے بھی پورے ہوں اور ہماری اسلامی اقدار و روایات پر بھی کوئی آنچ نہ آئے ۔

چونکہ ہمارے پاس خود اتنے وسائل نہیں ہیں کہ غیروں کے جدید تعلیمی اداروں میں داخلوں کے بغیر ہی ہم اپنی جدید تعلیمی ضرورتوں کو پورا کر سکیں اس لئے غیروں کے جدید تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں اور بچیوں کا داخلہ کروا کر انہیں انگریزی اور انگریزیت کے بے باکانہ ماحول کو سونپ دینا فی الحال ہماری مجبوری ہے ، مگر کیا ہمارے بس میں اتنا بھی نہیں کہ غیروں کے جدید تعلیمی اداروں میں داخلے سے پہلے ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم کے زیور سے اس طرح آراستہ کر دیں اور ایسے دینی رنگ میں رنگ دیں کہ کسی دوسرے رنگ کو وہ کسی بھی صورت میں قبول ہی نہ کریں ۔

مگر غیروں کی بات ہم کیا کریں جبکہ ہمارے خود کے قائم کردہ جدید تعلیمی اداروں میں بے حیائی ، بے پردگی ، بدچلنی اور عریانیت و فحاشی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور ان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے نہ صرف یہ کہ منی اسکرٹ اور پینٹ و شرٹ اور ٹائی وغیرہ پہننا ضروری ہے بلکہ گڈ مارننگ ، گڈ ایوننگ ، ہیپی نیو ائیر ، ہیپی برتھ ڈے ، سسٹر ، ممی ، ڈیڈی ، پاپا ، ٹاٹا ، بائے اور ہائے کہنا لازمی قرار دیا جاتا ہے ۔

کل ملا کر بات پھر وہیں آ کر ٹھہرتی ہے کہ اپنی اسلامی شناخت کھودینے اور اسلامی اقدار و روایات کے جنازے نکال دینے کے بڑی حد تک ذمہ دار تو ہم خود ہی ہیں ، اس کے لئے کیا کوئی قید ہے کہ صرف منی اسکرٹ ، پینٹ و شرٹ پہن کر اور ٹائی باندھ کر اور اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ لے کر ہی ہم جدید تعلیم کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں آخر مدارس اسلامیہ کو بھی اس قابل کیوں نہیں بنایا جاتا اور ایسے اسکول و کالج کیوں قائم نہیں کئے جاتے جہاں اسلامی اقدار و روایات اور اسلامی معاشرت کے دائرے میں رہ کر ہی جدید تعلیم کا حصول ممکن ہوسکے ، ہمارے اسلاف جنہوں نے طب ، فلسفے اور سائنس کے میدانوں میں جو بنیادی کام کئے اور دنیا کو تعمیر و ترقی کی جو راہ دکھائی کیا وہ انگریزی ، انگریزیت ، منی اسکرٹ ، پینٹ و شرٹ اور ٹائی وغیرہ ہی کی مرہون منت ہے ، شرم آنی چاہئے ہمیں مغرب کی سڑی گلی تہذیب کو گلے لگانے کے اپنے غلامانہ ذہنوں پر اور اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ اپنے خود کے قائم کردہ اسکولوں کالجوں کے نام کو کرسچین اسکولوں اور کالجوں کی طرح لٹل اینجل اسکول ، ڈیفورڈلس‘ پرائمری اسکول اور ماڈرن اسکول رکھنے ہی میں آخر کون سی مجبوری ہے ؟ اور کیا وجہ ہے کہ ہمارے اسکولوں کے ڈریس نصرانی اسکول اور کالجوں جیسے ہی ہوا کرتے ہیں اور نرسری اسکول میں ڈانس سکھانے اور فحش گانوں کی محفلیں سجانے کی ترغیب ہمیں کہاں سے ملتی ہے کیا جدید اور عصری تعلیم ہی ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہمارے بچے اور بچیاں ایسا لباس زیب تن کریں کہ وہ بے لباس ہو کر رہ جائیں اور پردے کے نام پر ایسے نقاب لگائیں کہ بے نقاب ہو کر رہ جائیں ، افسوس تو یہ ہے کہ فرانس جیسے ممالک کے جدید تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ہمارے مسلم بچے اور بچیاں تو اپنے سروں پر دوپٹہ لگانے کے لئے قانونی لڑائیاں لڑیں اور ہماری بچیاں اپنے سروں سے دوپٹہ ہٹانے کے لئے اپنی اسلامی اقدار و روایات کو پامال کریں ، کس کی جرات ہے جو ہمارے جدید تعلیمی اداروں کو غیر اسلامی اقدار و روایات کو پابند کر سکیں ۔ زیر نظر مضمون لکھنے کا ہمارا مقصد محض یہی ہے کہ جدید اور عصری علوم و فنون کو ہم کسی اور کی میراث نہ سمجھیں اور اس سے نفرت کرنے کی بجائے ان شیطانی ذرائع سے نفرت کریں جنہوں نے جدید اور عصری علوم و فنون کو اپنے چنگل میں لے کر ہمیں مذہب سے بیزار اور گمراہ کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ، اسلام رہبانیت کا نہیں بلکہ دین و دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کا حامی ہے ، چونکہ دنیا کے بغیر دین کا تصور محال ہے اس لئے جدید اور عصری علوم و فنون کے موجودہ دنیاوی تقاضوں کو بھی ہمیں ایک دینی فریضہ سمجھ کر اور دینی دائرے میں رہ کر ہی پورا کرنا چاہئیے

No comments:

Post a Comment