Tuesday, January 4, 2011

تعلیم اور معاشرت اسلامی

برصغیر میں تعلیم قدیم کو درہم برہم ہوئے تقریبا ایک صدی ہو چکی ہے۔ اور اس سے کچھ زیادہ عرصہ ہمارے یہاں انگریزی تعلیم شروع ہوئے گزرا ہے۔ تاریخ عالم میں اس زمانے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ اس عرصہ میں دنیا میں بہت سے زبردست معاشرتی اور اقتصادی انقلابات ظہور پذیر ہوئے ہیں جنہوں نے نہ صرف مادی زندگی اور اس کے نظام کا کایا پلٹ دیا ہے بلکہ انسانوں کے خیالات اور عقائد میں ایک تزلزل بھی پیدا کر دیا ہے۔ جس کا اثر مغربی ملک کی تہذیب اور تمدن پر پڑا۔ اس سے بحث کرنے کی یہاں ضرورت اور موقع نہیں ہے۔ لیکن ان انقلابات کی ایک مخصوص اور انوکھی صفت یہ ہے کہ انہوں نے تمام دنیا کو ایک ایسے شیرازے میں منسلک کر دیا ہے اور انحصار باہمی کو اس قدر شدید بنا دیا ہے کہ دنیا کا کوئی حصہ بھی ایسے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا جو دوسرے حصوں میں کار فرما ہوں۔

لہٰذا ان تمام تبدیلیوں کا رد عمل ہمارے ملک پر بھی ہوا۔ ماہرین تعلیم کا فرض اول یہ تھا کہ وہ ان تبدیلیوں کی نوعیت کا غائر نظر سے مطالعہ کرتے ان کے اسباب اور نتائج سے بحث کرتے اور یہ معلوم کرتے کہ ان حالات میں تعلیم کی نوعیت کیا ہونی چاہیے ۔ ابتداءمیں انگریزی تعلیم جن مقاصد اور اغراض سے شروع ہوئی۔ وہ اب لوگوں کو بخوبی معلوم ہو چکے ہیں۔ اور ان کی آنکھوں سے وہ خبر دور ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے بعض پیش روؤں کو اپنی تہذیب و تمدن اور تعلیم و تربیت میں ہر چیز ناقص اور خام نظر آتی تھی اور نجات کی صورت محض یہی تھی کہ مغربی تمدن اور تہذیب کو بلاتنقید اور تمام کمال قبول کر لیا جائے۔ لہٰذا اب عمومی زندگی کے موجودہ دور میں یہ سوال نہایت شدت کے ساتھ اٹھنا چاہیے تھا کہ ہم اس جدید تعلیم کے ذریعے کس قسم کا نظام معاشرت وجود میں لانا چاہتے ہیں۔

لیکن تعجب کی بات ہے کہ اب تک صراحت کے ساتھ یہ اہم بنیادی مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ بلکہ شاید یہ کہنا صحیح ہو گا کہ انہیں پوری طرح اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا کہ تعلیم اور نظام معاشرت کا کس قدر قریبی اور گہرا تعلق ہے۔ اور جب تک ایک قوم اپنے سامنے کوئی معین اور واضح معاشرتی نصب العین نہ رکھے اس وقت تک وہ ایک زندہ اور اثر آفریں نظام تعلیم کی تشکیل نہیں کر سکتی۔ کیونکہ اس کے تعلیمی اصولوں اور طریقوں کے ہدایت کے لیے اس کے اساتذہ کی ہمت افزائی کے لیے کوئی بلند تخیل شمع رہ کا کام نہیں دیتا اور ان کو پاس کرانا ، چند طلبہ کو سرکاری ملازمتوں کے لیے تیار کرنا ، نوشت خوانہ کو عام کرنا ، یہ تمام مقاصد مقابلہ سطحی اور سرسری ہیں۔ ان میں وہ قوت متحرکہ نہیں ہے۔ جو قوموں میں نشاۃ ثانیہ کا باعث ہوتی ہے۔ ان کی بدولت یہ ممکن ہے۔ کہ بعض افراد ذاتی وجاہت حاصل کر سکیں ، یا قوم میں بحیثیت مجموعی مادی اعتبار سے ترقی کی صورت پیدا ہو جائے۔ لیکن قومی زندگی میں اعلیٰ اخلاقی اصولوں اور قدروں کی کار فرمائی نہیں ہو سکتی۔

یہ وجہ کہ ہماری موجودہ تعلیم حقیقت سے بالکل ہٹی ہوئی ہے۔ اور بجائے قومی زندگی اور معاشرت کی اصلاح اور تعمیر کرنے کے وہ ضمنی اور غیر اہم مقاصد میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ اس لیے ماہرین کا اہم ترین فرض یہ ہے کہ جرات کے ساتھ اس مسئلہ پر غور کریں کہ مجودہ ناقص اور نامکمل نظام معاشرت کے بجائے کس قسم کی سوسائٹی قائم کرنا چاہیے اور اس کے قیام کے لیے کیا وسائل اور تدابیر اختیار کرنی ضروری ہیں؟ جب تک ہم اپنی تنگی ، نظریہ ، ذہنی جرات کی کمی کی وجہ سے اس بنیادی مسئلہ کو نہیں اٹھائیں گے۔ ہماری قومی تعلیم کی حیثیت ایک جسد بے روح سے بہتر نہیں ہو گی۔

تعلیم کا جو مقصد میں نے اس تمہید کے دوران پیش نظر رکھا ہے وہ کسی قدر صراحت کا طالب ہے۔ کیونکہ وہ مروجہ رسمی مفہوم تعلیم سے بہت مختلف ہے۔ اگر ہم تعلیمی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ نظری اور عملی طور پر بالعموم تعلیم کا مقصد یہ سمجھا گیا ہے کہ وہ انسانی تہذیب ، تمدن کے تمام ورثے کہ جو گزشتہ میں حاصل ہوا ہے۔ مناسب طریقہ پر نوخیز نسلوں کے سپرد کر دے یعنی وہ تمام علوم ، فنون ، ادب ، فلسفہ سیاسی اور معاشرتی اصول اور روایات جو نسل انسانی نے اپنے ارتقاءکے دوران میں مرتب اور مجتمع کءے ہیں ان کو نصاب تعلیم کے ذریعے بتدریج طلبہ کے ذہن میں منتقل کر دے۔ بے شک یہ ایک نہایت اور ضروری خدمت ہے۔ جس کے بغیر انسان بربریت کے دور سے گزر کر تمدن کے مدارج طے نہیں کر سکتا۔ اس میں ذاتی اور نوعی تحصیلات کے تحفظ کا جذبہ اس قدر قوی ہے کہ خواہ تعلیم کا نظریہ کچھ بھی قرار دیا جائے۔ اس کا ایک کام یہ ضرور ہو گا کہ ان تحصیلات کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کر دے۔

لیکن تعلیم کا یہ صرف ایک پہلو ہے۔ اجتماعی زندگی کا دارومدار ایک طرف تو تمدنی اور ذہنی ورثے سے مستفید ہونے پر ہے اور دوسری طرف اس کی ترقی اور حیات کا راز اس امر میں پنہاں ہے کہ مسلسل اس ورثے کی تنقید اور تجزیہ کرتی رہے اور اس میں ان مناسب تبدیلیوں کو رائج کرے جو ضروریات زمانہ کے لحاظ سے مفید اور اہم ہوں۔ اگر سوسائٹی اور تعلیم جو سوسائٹی........ کے دفاع کا کام کرتی ہے۔ مروجہ تمدن اور اس کے تمام اصولوں اور اداروں کو تمام کمال بغیر چوں چراں کے تسلیم کر لے۔ اور انہیں ایک اٹل ، نہ بدلنے والی چیز سمجھ کر بچوں اور نوجوانوں کو مقررہ سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کرے تو اس میں رجعت پسندی کی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور وہ ترقی اور تخلیق پیہم وسیلہ نہیں بن سکتی۔ دنیا میں ہر قسم کی علمی ترقی کا راز ہمیشہ حریت فکر ، جدت عمل میں پنہاں رہا ہے۔

موجودہ زمانے میں بعض ایسی بروئے کار آ گئیں ہیں کہ گزشتہ تمام زمانوں سے زیادہ اس کی بہت ضرورت ہے کہ لوگوں میں غور و فکر اور ذہنی صفات کی اچھی تربیت کی جائے۔ تا کہ وہ زمانے کے سریع مطالبات کو پورا کر سکیں۔ اس وجہ سے تعلیم کا دوسرا اور نہایت اہم کام یہ ہے کہ وہ پیہم اس تمدنی ورثے کی تنقید اور ترتیب نو کرتی ہے۔ اپنے نصاب تعلیم اور تمام اثرات اور اداروں کے ذریعے صرف اس کے بہترین عناصر اور قدروں کی اشاعت اور تعلیم یافتہ جماعت میں یہ صلاحیت پیدا کرے کہ وہ آزادی اور متانت کے ساتھ اس کے حسن پر نظر ڈال سکیں

اور بجائے ہر چیز کو بے حس حیوانات کی طرح قبول کر لینے یا ہر چیز کو غیر ذمہ دارانہ طریقہ پر مسترد کر دینے کے قدیم اور جدید دونوں کو بہترین اصول ، اخلاق ، عمل پر پرکھیں اور زندگی کی رہنمائی کے لیے ایسی عقل کی بہم رسانی کریں جو ، ادب خوردہ دل بھی ہو۔ یہ عقل جو شخصی اور اجتماعی مفاد دونوں کو پیش نظر رکھے گی۔ تعلیم کے ذریعے نہ صرف علوم ، فنون کی اشاعت کرے گی اور افراد کو کسب معاش کے لیے تیار کرے گی بلکہ ایسے رجحانات اور قوتوں کو دعوت عمل دے گی جو نظام تمدن کی بنا پر زیادہ معقول اور منصفانہ اصولوں پر قائم کر سکتی ہے۔

گزشتہ زمانوں میں آج کل کی نسبت انسانی زندگی میں تبدیلیاں زیادہ.... اور آہستہ آہستہ اور غیر محسوس طریقہ پر ہوتی تھیں اور سوائے بعض نہایت انقلاب آفریں زمانوں کے (عیسیٰ علیہ السلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) ان تبدیلیوں کی رفتار اس قدر سست تھی کہ لوگوں کو ان کے سمجھنے اور ان کی ضروریات کے مطابق اپنے خیال ، عمل کو ترمیم کرنے میں چنداں دقت نہ ہوتی تھی۔ سوسائٹی کا ، چوکھٹا ، اپنی جگہ پر قائم تھا۔ لوگوں اور جماعتوں کی تقسیم اور امتیازات عام طور پر مسلمہ سمجھے جاتے تھے۔ زیادہ تر تبدیلیوں کا تعلق جزئیات سے ہوتا تھا۔ بنیادی امور سے ان کا تعلق نہ ہوتا تھا۔ ایسی حالت میں بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ کہ تمدن کی محافظت کو تعلیم کا فرض اول قرار دیا جائے۔ اور وہ اسے کم ، بیش جوں کا توں آنے والی نسل کے سپرد کر دے۔

لیکن گزشتہ دو برس میں سائنس کی ترقی نے اس مقابلہ پر سکون دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ اور لوگوں کے دیکھتے دیکھتے نہ صرف ان کی مادی زندگی اور وسائل معاش میں ، بلکہ ان کے خیالات اور عقائد ، ان کے نظریوں ، ان کے رسوم ، روایات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا ہے۔ جہاں زندگی کے خارجی نظام کا تعلق ہے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس دو سو برس کے عرصہ میں جس قدر تبدیلیاں اس میں ہوئی ہیں وہ اس سے پہلے دو ہزار سال میں بھی نہیں ہوئیں۔

ان تیز رفتار تبدیلیوں کا تقاضا یہ ہے کہ افراد اور جماعتوں میں اس قسم کی صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ نئے حالات کے اقتضاءکو سمجھیں اور دانش مندی کے ساتھ نئی قوتوں کو استعمال کرنا سیکھیں۔ جو سائنس نے فراہم کی ہیں۔ سائنس کی اس حیرت انگیز ترقی نے جہاں ایک طرف یہ بتایا ہے کہ غافل جماعتیں فطرت کی اٹل اور زبردست طاقتوں کا شکار ہو جاتیں ہیں۔ وہاں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر ان کو سمجھ کر استعمال کیا جائے تو انسان خود اپنی تقدیر اور اپنے مستقبل کا معمار بن سکتا ہے۔ اگر سائنس کی حقیقت نما روشنی میں آپ عالم کے کارخانے پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ کوئی مکمل چیز نہیں بلکہ ابھی ناتمام ہے۔ اور خالق کائنات نے اپنی مصلحت میں یہ گنجائش رکھی ہے کہ انسان اپنی کوششوں سے اس کو مکمل کرے۔

لہٰذا اس دور میں ارتقاءسائنس کی حرکت آفریں حکمرانی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم جس نظام تمدن کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ ہمیں کہیں اغیار کے در کا فقیر تو نہیں بنا رہا ہے۔ جو ہمارے نظام تعلیم میں دیمک کا کام تو نہیں کر رہا ہے اگر سائنس کی قوتوں کے ساتھ اخلاق اور مذہب کے سچے اصول مشعل راہ بن جائیں تو ہم اس دنیا کی جدید تعمیر عدل اور انسانیت کے اصولوں پر کر سکتے ہیں کیونکہ ان دونوں کا مرکز ، محور قرآن ہونا لازمی امر ہے۔

مغرب نے اپنی جدوجہد کی بدولت ان دونوں چیزوں میں سے ایک چیز یعنی سائنس کو حاصل کر لیا ہے۔ اور اس کے ذریعے تقریبا تمام عالم مادی اور اس کی زبردست قوتوں کو اپنا خادم بنا لیا ہے۔ لیکن ان قوتوں کے استعمال میں افراد اور جماعتوں نے اصول اخلاق کی پیروی نہیں کی ہے۔ اور بسا اوقات ان کی تعمیر اور خدمت کے بجائے تخریب تظلم کا آلہ کار بنا لیا ہے۔ اس کا نتیجہ آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ تمام قوتیں جو انسانی زندگی کے لیے رحمت ثابت ہو سکتیں تھیں ، عذاب بن گئیں ہیں۔ اور سیاسی ، اقتصادی اور معاشرتی زندگی میں ہم آہنگی ، رواداری اور سلوک پیدا ہونے کے بجائے باہمی مخالفت ، کشمکش اور ظلم کا بازار گرم ہے۔

بقول علامہ محمد اقبال کے....
یورپ میں بہت روشنی علم ، ہنر کی ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا.... لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات ہے
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبیر ، یہ حکومت
پیستے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکاری ، عریانی ، مے خواری افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

لیکن یورپ میں جس قدر بڑے بڑے اہل فکر ہیں وہ خود اس صورت حال سے مشوش ہیں اور ان کی یہ خواہش اور کوشش ہے کہ وہ اس ہلاکت آفریں نظام تمدن کے بجائے کسی بہتر نظام کی بنا ڈالیں۔ مگر ہمارے ارباب فکر ، عمل کو بحیثیت مجموعی ابھی اس مسئلہ کی طرف توجہ نہیں ہوئی اور ہماری معاشرت کی تنظیم بامقصد ہونے کے بجائے فطرت کی ان بجھی ، بے جانی قوتوں کے تحت رہی ہے۔

اگر ہم اپنے ملک کی طرف متوجہ ہو کر اس کے نظام تمدن ، معاشرت پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں ایک عبرت انگیز نقشہ نظر آئے گا۔ میرے خیال میں کسی سوسائٹی کی حالت کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے بہترین معیار یہ ہے کہ اس سوسائٹی کے تعلقات اور مراسم اصول عدل پر قائم ہیں یا نہیں۔ اگر کوئی ملک یا معاشرہ علم ، دولت ، قوت اور فنون لطیفہ کے اعتبار سے معراج کو بھی پہنچ جائے لیکن اس کے افراد اور جماعتوں کے تعلقات میں عدل ، اخوت اور مساوات کی کارفرمائی نہ ہو تو اس کا تمدن اور تہذیب دونوں ناقص اور نہ پائیدار ہیں۔ یونان کی تہذیب سے لے کر موجودہ مغربی تمدن تک تاریخ اس صداقت کی تائید کرتی ہے اور اسلام کا سب سے بڑا احسان عالم انسانیت پر یہی ہے کہ اس نے پہلی مرتبہ وضاحت کے ساتھ اور عملی شکل میں اخوت ، مساوات ، عدل کا ایک عالم گیر پیغام دنیا کے سامنے پیش کیا۔

لیکن رفتہ رفتہ اس قدر مدت گزر جانے کے بعد ، نہ صرف ہندوستان میں جو ہندو اور مسلمانوں کا وطن ہے بلکہ خاص اسلامی ملک میں بھی اسلام کے تمدنی نصب العین کے رخ روشن پر خود غرضی ، جاہ پسندی اور بے انصافی کی خاک جم گئی آج ہم اپنے اس ملک میں باوجود ہر قسم کی اصلاحی کوششوں کے لوگوں کو مختلف معاشرتی اور اقتصادی جماعتوں میں تقسیم پاتے ہیں۔ جو ایک دوسرے کو لفظی یا معنوی اعتبار سے اچھوت سمجھتی ہیں۔ جس سے ایک دوسرے کے حقوق غصب کر کے اپنی قوت کو نا انصافی کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتی ہے۔

یہاں دولت کو امانت الٰہی یا خدمت خلق کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے محض ذاتی منفعت اور اقتدار کا وسیلہ بنا لیا گیا ہے۔ اور اس کی مدد سے ہر قسم کی جائز اور ناجائز مراعات حاصل کی جاتی ہیں اور ہر قسم کے مظالم اور حق تلفیوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بے اندازہ ثروت اور ناگفتہ بہ افلاس پہلو بہ پہلو موجود ہیں۔ یہاں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی زندگی حیوانوں کی طرح محض اپنے اور اپنے مالکوں کے لیے کسب معاش کی جدوجہد میں صرف کر دیتے ہیں۔ اور ان پر علم اور تعلیم تہذیب اور فنون لطیفہ ، فرص ، آسائش کے دروازے قطعاً بند ہیں۔

اندھی تعلیم اور مذہب کی طرف سے بے پروائی نے تعلیم یافتہ ، نوکری پیشہ طبقے اور عوام میں ایسا فصل پیدا کر دیا ہے کہ ہم تھوڑے سے لوگوں کو جو مقابلہ آسائش کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ہماری اس فارغ البالی کی قیمت وہ تاریک زندگیاں ہیں جو ہمارے تمام ابنائے جنس اور ہم وطن بسر کر رہے ہیں۔ مذہب بنی نو انسان کی یک جہتی اور اخوت کا احساس پیدا کر سکتا تھا۔ مگر اس کی گرفت ڈھیلی ہو گئی ہے تعلیم نے ایسے تخیل کی تربیت نہیں کی جو دوسروں کے اور اپنے دکھ کے امتیاز کو مٹا دے ، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو مسلمانوں کا جزو عمل بنا دے کہ :
” اس شخص کا ایمان ہر گز پختہ نہیں کہ جوا پنے لیے ایک چیز پسند کرتا ہے اور اپنے بھائیوں کے لیے نہیں کرتا۔ “

اسی معاشرتی ابتری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں آج تک شرفاءاور مزدوروں میں تفریق اور امتیاز کیا جاتا ہے۔ اور جس مذہب نے ، الکاسب حبیب اللہ ، کی انقلاب آفریں تعلیم دی تھی۔
اس کے پیرو (Follower ) عملا یہ سمجھتے ہیں کہ شرافت کی پہچان ، دولت یا سرکاری نوکری اور ہاتھ کا کام نہ کرنا۔

جب اس کی تنظیم جدید اس طرح نہ کی جائے کہ اس کے مختلف عناصر میں یکجہتی پیدا ہو اور ان غریب ، عالم اور جاہل میں جو افتراق مقاصد رہ پا گیا ہے اس کا تدارک کیا جائے۔ جب تک موجودہ صورت حال کی اصلاح نہ ہو گی اور جو خون رلانے والا نقشہ مولانا حالی مرحوم نے اپنی نظم میں کھینچا تھا وہ جوں کا توں قائم رہے گا۔

جس دین نے تھے غیروں کے دل آ کے ملائے
اس دین میں بھائی سے اب بھائی جدا ہے
جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا
اب جنگ و جدل اس میں بپا ہے
جس دین کا تھا فقر بھی ، اکسیر غنا بھی
اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے
جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت
اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے

اس وقت یہی خواہان قوم ، ملک اور ماہرین تعلیم کے سامنے اہم ترین مسئلہ یہی ہے کہ اس تمدن کی تعمیر نو کس طرح کی جائے جس کی بنا بقول حالی کے ” پانی پر ہے۔ “

اس مختصر مضمون کی حدودمیں اس مسئلہ پر تفصیل سے بحث کرنے کا موقعہ نہیں لہٰذا بہت اختصار کے ساتھ.... گویا بطور متن کے چند ضروری امور کی طرف اشارہ کرنا کافی ہو گا۔ پہلی بات جو اقوام مشرق کو بالعموم اور ہمیں بالخصوص طے کرنی ہے۔ وہ یہ کہ آیا ہم.... مغربی سائنس اور اسی کے جزو لازم یعنی موجودہ صنعت ، حرفت کے نظام کو قبول کریں یا مسترد ، ایک مخلص اور ذی اثر طبقہ ملک میں ایسے لوگوں کا ہے جو اس جدید بدعت کو ترک کرنے اور زندگی کے قدیم سادہ نظام کو قائم رکھنے کی تلقین دیتا ہے کیونکہ اسے احساس ہے کہ یورپ میں نظام سرمایہ داری اور سائنس کی قوتوں نے کس قدر فساد اور ظلم بپا کر رکھا ہے لیکن یہ خیال میرے نزدیک قابل عمل نہیں۔

اول تو سائنس کی نئی ایجادات اور ترقیوں نے تمام دنیا کے ممالک کو اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور وابستہ کر دیا ہے کہ کوئی ملک دنیا کے رجحانات اور اثرات سے خود کو الگ نہیں کر سکتا۔ دوسرا یہ مشورہ ایک شکست پسند ذہنیت پر دلالت کرتا ہے۔ جو سائنس جیسے قابل قدر عطیہ فطرت کو محض اس کے ضمنی خطرات سے خوف زدہ ہو کر مسترد کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ انسانی کمال اور کامرانی اس میں ہے کہ ہم سائنس کی قوتوں سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں۔ لیکن ان کو انسانی خدمت اور بہبود کے لیے استعمال کریں اور انہیں کے ذریعے انسانوں کو انسانوں کی چیرہ دستی اور ظلم سے محفوظ رکھیں۔ اسلام کی مخصوص تعلیم بھی یہی ہے کہ انسان اس آب گل کی زندگیاں اور اس کی کشمکش اور جدوجہد میں پورا پورا حصہ لے اور اس کی قوتوں اور خطروں کو مردانہ وار زیر کرے کیونکہ اسلام کی نگاہ میں دنیا ، مایا کا جال ، نہیں بلکہ مزرعۃ الآخرہ ہے۔ اور اس کی تسخیر کا راز مطالعہ فطرت میں ہے۔

No comments:

Post a Comment