Wednesday, January 19, 2011

موجودہ حالات صحیح حدیث کی روشنی میں‏

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آج ہمارے دور میں افرا تفری دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ہم ضرور کسی فتنے میں مبتلا ہیں اور اگر مطالع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات تو ہمارے پیارے نبی محمد الرسول اللہ(ص) نے ۱۴۰۰ سال پہلے فرما دی ہے کہ ہمارے ساتھ یہ سب کچھ پیش آنے والا ہے ، یہ تو ضرور بتا دیا کہ یہ سب پیش آنے والا ہے مگر سوچنے کی بات ہے کہ جب ہمارے نبی(ص( نے یہ سب بتا دیا ہے کہ ہونے والا ہے تو پھر اس کا حل بھی تو بتایا ہوگا کیوں کہ وہ تو رحمت اللعالمین کے لقب سے نوازے گئے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انہیں امت کی تکلیف معلوم ہو اور اس کا حل نا بتا کر گئے ہوں(نعوذباللہ)

اسی لیے میری نظر سے ایک حدیث مبارکہ گزری جو ھو بہو ہمارے آج کہ حالات سے ملتی ہے اور اس میں یہ حالات کیوں پیش آ رہے ہیں اس کی بھی وضاحت ہے ہو سکتا ہے کہ ہم یہ حدیث پڑھ کر اپنے اندر کچھ سدھار پیدا کر سکیں۔


شاید کہ اتر جاے ترے دل میں ۔۔۔۔میری بات


یہ حدیث مجلہ "الحدیث" شمارہ 65 مین‌موجود ہے جسکے مدیر حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ہیں


مشہور تابعی امام عطاء بن ابی رباح رحمتہ اللہ سے روایت ہے کہ میں (سیدنا) عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) کے پاس تھا، پھر ایک نوجوان نے ان سے عمامہ(پگڑی) لٹکانے کے بارے میں پوچھا تو ابن عمر(رض) نے فرمایا:

ان شاء اللہ تعالی مں تجھے علم کے ساتھ جواب دون گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں ہم دس (افراد) ابو بکر، عمر، عثمان، علی، ابن مسعود، حذیفہ، ابن عوف، ابو سعید خدری(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں) موجود تھے کہ ایک انصاری نوجوان نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور بیٹھ گیا پھر عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! مومنوں میں افضل کون ہے؟

آپ نے فرمایا: جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے، اس(نوجوان) نے کہا: مومنوں میں سب سے زیادہ سمجھدار کون ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا : جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے اور موت آنے سے پہلے سب سے زیادہ اس کی تیاری کرتا ہے، یہی لوگ سمجھدار (اور عقل مند ) ہیں۔

پھر وہ نوجوان خاموش ہو گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف رخ کر کے فرمایا: اے جماعت مہاجرین! اگر تم پانچ چیزوں کے ساتھ آزماے گے اور یہ چیزیں تمہارے درمیان واقع ہو گیں(تو) میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں(کہ یہ چزیں تمہارے درمیان پای جائیں):

نمبر ایک: جس قوم میں بھی فحاشی ظاہر ہوگی، پھر وہ اسے (علانیہ) کریں گے تو اس قوم میں طاعون ور ایسی بیماریاں پھیل جایں گی، جو ان کے آباء اجداد میں نہیں تھیں

نمبر دو: جو لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے تو انہیں قحط سالی، رزق کی تنگی اور حکمرانوں کے ظلم کے ساتھ پکڑ لیا جاے گا۔

نمبر تین: اور جو لوگ زکوتہ نہیں دیں گے تو آسمان سے بارش کے قطرے کو روک لیا جاے گا اور اگر جانور نہ ہوتے تو بارش ہی نہ ہوتی۔

نمبر چار: جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ معاہدہ توڑدیں گے(یعنی لاالہ الاللہ اور محمد رسول اللہ پر عمل نہین کریں گے)تو اللہ غیروں سے ان کے دشمن (یعنی کفار) ان پر مسلط کر دے گا اور وہ ان کے ہاتھوں سے بعض چیزیں (مثلا علاقے،مال وغیرہ) لے لیں گے۔

نمبر پانچ: اور جب ان کے حکمران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کریں گے، تو اللہ انہیں آپس میں لڑا دے گا۔


پھر آپ (ص) نے عبد الرحمن بن عوف(رض) کو حکم دیا کہ ایک فوجی گروہ تیار کریں ، جس پر آپ نے انہیں امیر بنایا۔

صبح کو (سیدنا) عبد الرحمن (بن عوف رض) کالے رنگ کے موٹے سوتی کپڑے کا عمامہ باندھ کر آےتو نبی (ص) نے انہیں اپنے قریب بلایا اور عمامہ کھول دیا، آپ نے انہں سفید عمامہ بندوایا اور چار انگلیاں یا اس کے قریب بلایا اور عمامہ کھول دیا، آپ نے انہیں سفید عمامہ بندھوایا اور چار انگلیاں اس کے قریب ان کی پیٹھ پر لٹکا دیا اور فرمایا: اے ابن عوف! اس طرح عمامہ باندھو کیوں کہ یہ اچھا اور بہترین ہے

پھر نبی(ص۹ نے بلال (رض) کو حکم دیا کہ وہ جھنڈا ان کے حوالے کر دیں۔ تو انہوں نے اللہ کی حمد بیان کی اور نبی(ص) پر درود پڑھا، پھر فرمایا : ابن عوف ! اسے پکڑلو پھر اکھٹے ہو کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو، ان سے لڑو جو اللہ کو نہیں مانتے، خیانت نہ کرو، غداری اور بے وفائی نہ کرو، مثلہ نا کرو(یعنی دشمن کے ہاتھ پاوں اور ناک وغیرہ نہ کاٹو) بچوں کا قتل نہ کرو۔ یہ ہے اللہ کا معاہدہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت۔

(حوالہ: المستدرک الحاکم، جلد ۴، ص ۵۴۰، حدیث نمبر ۸۶۲۳، صححہ ووالفقہ الزھبی، سند حسن)

تنبیہ: المستدرک کے مطبوعہ نسخے میں علی بن حمشاز اور ابو الجماہر کے درمیان عبید(بن محمد الغازی العسقلانی) کا واسطہ رہ گیا ہے۔ دیکھیں اتحاف المھرہ(جلد نمبر ۸، ص: ۵۹۰ ، ح ۱۰۰۱۵)

حوالہ: مجلہ "الحدیث" شمارہ 65



یہ ہے اتنی طویل حدیث امید ہے کہ ہمارے بھائی اس کو ضرور پڑھینگے اور اس سے نتیجہ اخز کرینگے کہ آج کے دور میں اگر ان ۵ چیزوں میں سے کچھ بھی ہم کر رہے ہیں تو یہ بات بھی جھوٹ نہین کہ وہی حالت ہمارے ساتھ ہے
اس کا حل کیا ہے؟؟؟؟ حل یہ ہے کہ محمد(ص) نے جو جو برایاں گنوای ہیں ان کو دور کیا جائے اور انفرادی طور پر پہلے عمل کیا جاے پھر گھر والوں اور پھر دوستوں اور احبابوں کو نصحیت کی جاے اسی طرح اپنا حلقہ وسیع کیا جاے

ان شاء اللہ تبارک وتعالی ہم پھر سے وہی مسلمان ہونگے جیسا ہونے کا حق تھا


والسلام علیکم ورحمتہ اللہ

No comments:

Post a Comment